Episode 89 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 89 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

سیل فون آف کر کے ذیان عتیرہ کی طرف چلی آئی۔ وہ عصر کی نماز میں مصروف تھیں۔
ذیان بے چینی سے اِدھر اُدھر چکر کاٹنے لگی۔ عتیرہ نماز سے فارغ ہو کر اس کی طرف آگئیں۔ وہ ایسے کم ہی آتی تھی اور آتی بھی تھی تو ان سے بات نہیں کرتی تھی۔ پر آج آتے ہی اس نے نوکرانی سے مما کے بارے میں پوچھا تھا۔ زیبو نے انہیں بتایا تھا اس لیے وہ فوراً اس کی طرف آئیں۔
جہاں وہ بے قراری سے چکر کاٹ رہی تھی۔
ذیان کے چہرے پہ پریشانی اور اضطراب تھا۔ عتیرہ کے دل میں خدشات سر اٹھانے لگے کہیں اس کے اور ابیک کے مابین کوئی جھگڑا یا تلخی تو نہیں ہوگئی ہے۔ ”کیا بات ہے بیٹا۔ آؤ میرے پاس بیٹھو۔“ انہوں نے محبت سے اپنی طرف بلایا۔ خلاف توقع وہ اعتراض اور انکار کیے بغیر ان کے پاس آ کربیٹھ گئی۔

(جاری ہے)

ورنہ جب سے ذیان نے انہیں اپنی نفرت سے آگاہ کیا تھا اس کے بعد سے ان دونوں میں شاذو نادر ہی بات ہوتی تھی۔

ضرور کوئی نہ کوئی ایسی بات تھی جس نے ذیان کو نفرت بھی بھلا دی تھی۔
”مما یہاں وہاب آیا تھا؟“ اس نے انگلیاں باہم ایک دوسرے میں پھنسائی ہوئی تھیں۔
وہ امید افزاء نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی جیسے وہ انکار کر دیں گی۔ پر ان کا سر اثبات میں ہلا۔ جو اس کے خوف کو کئی گنا بڑھا گیا۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے؟“ انہوں نے فوراً پوچھا۔
”میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ جلالی باوا تمہارا علاج کر رہے تھے۔ ساتھ میں بے حد پریشان ہوگئی تھی۔ تمہیں اپنے ساتھ پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا ہے۔ میرے علاوہ کوئی اس کا نام نہیں جانتا، بلکہ ملک محل میں کوئی بھی اسے نہیں جانتا۔“ ”مما ابھی اس کا فون آیا تھا۔“ ”کیا…!!“
عتیرہ شاکڈ تھیں۔ ”کیسے فون آیا اس کا؟“ وہ بدحواس ہوگئی تھیں۔
”مما میرے سیل فون پہ ابھی ابھی اس کی کال آئی تھی۔“ ”تمہارا نمبر کس نے دیا ہے اسے؟“ ”مما مجھے نہیں معلوم۔ میرا پرسنل نمبر کیسے اس کے پاس پہنچا، ملک محل سے باہر میرا نمبر کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہاں تک کہ میرا یہ نمبر بوا رحمت کے پاس بھی نہیں ہے۔“ وہ بکھرے لہجہ میں بولی۔ ”پھر تمہارا نمبر اس نے کہاں سے لیا۔ پہلے وہ یہاں تک پہنچا پھر تمہارا نمبر حاصل کیا… پھر یہ کیسے ہوا سب؟“
عتیرہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔
”مما مجھے نہیں معلوم یہ سب۔ اس لیے تو آپ کے پاس آئی ہوں۔“ پریشانی سے اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ تم نے کسی اور سے توبات نہیں کی۔“ ”نہیں مما میں سیل فون آف کر کے آپ کے پاس آگئی ہوں۔“ ”اوہ کسی سے فی الحال بات مت کرنا۔“ ”مما وہاب یہاں آیا تھا یہ بات کس کس کو پتہ ہے۔“ اس نے رک رک کر پوچھا۔“ میں نے یہ بات صرف ملک صاحب کو بتائی ہے۔ ہم دونوں کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔
“ ”مما یہ بات ابیک کو تو معلوم نہیں ہے ناں؟“ اس بار اس نے مما سے نظر چرائی تھی۔ ”نہیں اسے یہ بات معلوم نہیں ہے اور نہ ہی جہانگیر بھائی کو۔ یہ مصیبت بھی تم پہ میری وجہ سے آئی ہے میرے ماضی کی وجہ سے آئی ہے۔ تمہاری نفرت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا۔“ عتیرہ دل گرفتگی سے گویا ہوئیں تو ذیان ان کی طرف بس دیکھ کر رہ گئی۔
آج تک تم نے جو دیکھا سنا وہ ایک طرف کا موٴقف تھا۔
میں مانتی ہوں برسوں کی دوری نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ لیکن میں چاہتی ہوں تم ایک بار مجھ سے بھی حقیقت کے بارے میں جان لو پھر تمہیں نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہوگی۔“ عتیرہ کے چہرے پہ امید و بیم کی ملی جلی کیفیت تھی جیسے وہ آج ان کی بات سن لے گی۔ ذیان ان کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں بولی تھی۔ اس کی خاموشی کو عتیرہ نے اس کا اثبات تصور کیا اور تکلیف دہ ماضی کی طرف کھلنے والے دریچے نیم وا کردئیے۔
عتیرہ طلاق لے کر ابو کے پاس لوٹ آئی تھی۔ امیر علی نے بچی ا س سے چھین لی تھی۔
انہوں نے امیر علی کے خاندان کے بڑوں کو درمیان میں ڈال کر مصالحت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ بچی عتیرہ کے سپرد کردے۔ پر امیر علی نے سب کو ٹکا سا جواب دیا۔ وہ تو بچی کی شکل تک ماں کو دکھانے کا روادار نہ تھا کجا کہ اس کے حوالے کردیتا۔ اسے عتیرہ سے شدید قسم کی نفرت تھی۔
اس نفرت کا نشانہ ذیان اور عتیرہ دونوں ہی بنی تھیں۔ دونوں کو جیتے جی ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا۔
عتیرہ کے سامنے عدالت سے مدد لینے کا راستہ بھی موجود تھا۔ پر ابو نے یہ تجویز مسترد کردی۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے اگر انہوں نے بچی کی کسٹڈی کا کیس دائر کیا بھی تو جیت امیر علی کی ہوگی۔ اس کے پاس پیسے تھے وہ وکیل کو خرید سکتا تھا۔ جھوٹے گواہ پیش کرسکتا تھا ان کی رہی سہی عزت کو سرعام نیلام کروا سکتا تھا۔
وہ باپ بیٹی امیر علی کے مقابلے میں کمزور تھے۔ اس لیے چپ سادھ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ عتیرہ کی مسلسل خاموشی قاسم صاحب کے دل پہ قیامت ڈھانے لگی۔ وہ خود کو بیٹی کا مجرم تصور کرنے لگے۔ انہوں نے ہی تو شادی کروائی تھی ایک بار بھی اس کی مرضی یا رضا مندی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چپ چاپ ان کے فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئی پر اس قربانی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا سب رائیگاں تھا۔
راحت نے ملک ارسلان کو اس سانحے کی خبر کردی تھی۔ اس کے بجھے بجھے بے رونق چہرے پہ پھر سے خوشی نمودار ہونے لگی تھی۔ ادھر ملک جہانگیر کو بھی عتیرہ کے حالات سے آگاہی ہوگئی تھی۔ وہ پہلی بار جا کر قاسم صاحب اور عتیرہ سے ملے۔ ان کا چھوٹا سا گھر ایک عام متوسط علاقے میں تھا۔ مالی طور پہ وہ کسی طرح بھی ملک خاندان کے ہم پلہ نہیں تھے۔پر یہاں ان کے چھوٹے بھائی کا دل اٹکا ہوا تھا اس کی خوشی اس چھوٹے سے گھر میں ہی موجود تھی۔
انہوں نے قاسم صاحب سے عتیرہ کا رشتہ اپنے چھوٹے بھائی کے لیے مانگا۔
خلاف توقع عتیرہ نے سختی سے انکار کردیا۔ وہ کسی صورت بھی دوسری شادی کے حق میں نہیں تھی وہ اس امید پہ بیٹھی تھی کہ امیر علی ذیان کو اس کے سپرد کردے گا۔ وہ باقی زندگی اپنی بیٹی کے ساتھ گزار سکتی تھی۔ اس کے انکار نے ملک ارسلان کو پھر سے مایوسی کے اتھاہ غار میں دھکیل دیا۔
امیر علی نے دھوم دھام سے دوسری شادی کرلی۔ عتیرہ نے قاسم صاحب کے ذریعے اپنی فریاد ایک بار پھر امیر علی تک پہنچانے کی کوشش کی۔ پر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ بلکہ الٹا اس نے دھمکی دی کہ تم باپ بیٹی میں سے کوئی میرے گھر کے آس پاس بھی نظر آیا تو میں دونوں پہ جھوٹا مقدمہ بنوا دوں گا۔
اسی غم میں قاسم صاحب نے ایک رات خاموشی سے آنکھیں موند لیں۔
اب اس اکیلے گھر میں صرف عتیرہ اور اس کی تنہائی تھی۔ محلے والوں نے کچھ عرصہ ساتھ دیا لیکن کوئی کب تک خبر گیری کرسکتا تھا سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس کے سامنے تنہائی اور پہاڑ سی زندگی تھی۔ ملک جہانگیر ایک بار پھر اس کے پاس آئے۔ اس بار ان کے سمجھانے بجھانے پہ عتیرہ نے خاموشی سے ان کی بات مان لی۔ اس کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja