Episode 92 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 92 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

رنم سیال ملک محل آرہی تھی۔ ملک جہانگیر اس کے لیے گیسٹ روم از سر نو ڈیکوریٹ کروا رہے تھے۔ ملک جہانگیر رنم سیال کی آمد پہ خوش تھے وہیں پہ ذیان پریشان تھی۔ ابیک کے ساتھ صرف ایک ملاقات کے بعد ہی اس نے گاؤں آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جواباً ملک ابیک نے بڑے خلوص سے اسے گاؤں آنے کی دعوت دی تھی۔
”معاذ ہم ان کے گھر گئے تھے دعوت پہ۔ یقین کرو وہ بالکل نیناں جیسی ہے۔
“ میں تو اسے دیکھ کر چونک گئی تھی وہ ہو بہو نیناں جیسی تھی شکل و صورت میں صرف ڈریسنگ کا فرق تھا حیرت انگیز مشابہت دیکھی ہے میں نے تو پہلی بار۔“ وہ معاذ کے ساتھ سکائپ پہ بات کرتے ہوئے جوش و خروش سے احمد سیال کے گھر جانے اور ان کی بیٹی سے ملنے کا احوال بتا رہی تھی۔ معاذ کو کچھ دن پہلے ہی نیناں کی گمشدگی کے بارے میں علم ہوا تھا۔

(جاری ہے)

وہ اپنی پڑھائی کی وجہ سے مصروف تھا اس لیے اتنی توجہ نہ دے سکا تھا۔

آج فرصت سے ذیان سے بات ہو رہی تھی تو وہ اسے نئی نئی باتیں بتا رہی تھی۔
 ”تو آپ سب سے وہ کیسے ملی؟“ معاذ اندر سے چونک گیا تھا لیکن ذیان کے سامنے اس نے اظہار نہیں کیا۔ ”ہم سب سے تو اچھے طریقے سے ملی تمہارے بھائی جان کو تو اس نے خاص طور پہ کمپنی دی ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی بے تکلف ہوگئی اور اب وہ ہمارے گھر بھی آرہی ہے گیسٹ روم تیار ہے اس کے لیے۔
“ آخر میں ذیان جل کر بولی تو معاذ ہنسنے لگا۔ ”وہ ہمارے گھر کیوں آرہی ہے؟“ ”گاؤں دیکھنے آرہی ہے اور کچھ سوشل ورک کرنے۔“ ذیان نے سادگی سے بتایا۔ ”سوشل ورک کے لیے اسے شہر میں کچھ نظر نہیں آیا جو گاؤں آرہی ہیں وہ اتنی دور۔“ معاذ دل میں کچھ سوچ رہا تھا۔“ وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ رنم کی طرف سے ہوشیار ہوجائیں۔ ذیان پریشان ہوجاتی۔
احمد سیال کے گھر جب اس نے ان کی بیٹی کے فوٹو دیکھے تو نہ جانے کیوں آپ ہی آپ اس کی سوچوں کا دھارا نیناں کے گرد مڑ گیا تھا۔ اسے جان کر تنگ کرتا تھا۔
بہت سے مواقع پہ معاذ کو ایسا محسوس ہوا کہ نیناں اصل میں وہ ہے نہیں جو وہ خود کو ظاہر کرتی ہے اگرچہ اس نے خود کو ملک محل کے رنگ میں ڈھالنے کی پوری پوری کوشش کی تھی پھر بھی معاذ کی حساس اور زیرک نگاہ کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوتا رہا۔
وہ معاذ کے سوالوں سے ڈر جاتی۔ اس کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کرتی۔
احمد سیال کی بیٹی اب اچانک بیرون ملک سے واپس آگئی تھی جس طرح اچانک گئی تھی۔
نیناں غائب ہوئی تو وہ منظر عام پہ آگئی۔ جانے کیا گورکھ دھندا تھا، پہلی ملاقات میں ہی ابیک سے بے تکلفی بھی معنی خیز تھی۔ معاذ اس کے بارے میں شاید کبھی بھی ایسے تجسس کا شکار نہ ہوتا۔
اگر وہ اسے اتفاقاً ذیان بھابھی کی طرف عجیب حسد سے بھری نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نہ پکڑتا۔ وہ کیسی عجیب مبہم نگاہیں تھیں جن کی نفرت کا جواز پیش کرنا مشکل تھا۔
معاذ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے نیناں اور اب رنم سیال ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں۔
اس نے اپنے اندازے اور محسوسات سے ذیان کو لاعلم ہی رکھا تھا۔ وہ بے پناہ حساس طبیعت کی مالک تھی پریشان ہوجاتی۔
ملک ابیک تیار ہو کر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔
سلمیٰ ادھر ہی پاس بیٹھی اس کے جوتے پالش کر رہی تھی۔ ذیان سیل فون ہاتھ میں تھامے خواہ مخواہ ہی مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ابیک پرفیوم اسپرے کر کے بیٹھ گیا تھا۔ سلمیٰ نے بڑی پھرتی سے شوز اس کے پاؤں کے قریب رکھے۔ ذیان نے گردن موڑ کر ابیک کی طرف دیکھا وہ صاف دھلی ہوئی جرابیں پہن رہاتھا۔
اس کی ظاہری حالت بھی بہت منظم تھی اس کی شخصیت کی طرح۔ وہ اسے مجبور کر رہا تھا ذیان اس کی طرف دیکھے کچھ ایسا سحر تھا اس کی شخصیت میں۔
سلمیٰ نے آخری بار اپنے دوپٹے کے کونے سے ابیک کے شوز پہ لگی نادیدہ گرد جھاڑی۔ اس سمے اس کی نگاہوں میں ابیک کے لیے خاموش سی عقیدت تھی کیونکہ وہ بغیر اس کے کہے اس کی ضرورتوں کو سمجھ کر اکثر وبیشتر اس کی مدد کرتا تھا اس لیے وہ اس کا بے پناہ ادب کرتی تھی۔
ذیان کے اندر تک جلن اور کڑواہٹ پھیلی تھی۔“ سلمیٰ جاؤ میرے لیے پانی لے کر آؤ۔“ اس کی آواز اس سمے غراہٹ سے مشابہہ تھی۔ سلمیٰ نے دہل کر چھوٹی بی بی کی طرف دیکھا۔ وہ بہت تیزی سے وہاں سے بھاگی۔ چھوٹی بی بی کے جن سے وہ بھی ڈرتی تھی۔
”آپ سلمیٰ سے آرام سے بھی یہ بات کہہ سکتی تھیں۔“ ابیک نے خاصے رسان سے ذیان کو اس کے روئیے کی بدصورتی کا احساس دلایا تھا۔
”میں نے کیا کیا ہے؟“ ذیان کے انداز میں حیرت آمیز رنج تھا جیسے اسے ابیک کی بات سے تکلیف پہنچی ہو۔
”سلمیٰ کو ہم نے کبھی بھی نوکر نہیں سمجھا ہے۔ ان لوگوں کی بھی عزت نفس ہوتی ہے آپ نرمی سے تحمل سے بات کیا کریں سب کوو ہم ہی رہتا ہے آپ کے بارے میں… نہ جانے آپ بول رہی ہیں یا آپ کا جن…!“ وہ مسکراہٹ لبوں میں دبا گیا تھا۔
وہ آرام سے بول کر اس کے پاس سے گزرتا جا چکا تھا۔
ذیان کو شدید غصہ آرہا تھا۔ لیکن وہ ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے جن کی آڑ میں وہ خوب چیخ چلا سکتی تھی لیکن ابیک جن کی حقیقت سے واقف ہوچکا تھا اب وہ صبر اور جبر ہی کرسکتی تھی خود پہ۔
###
رنم سیال ملک محل میں آگئی تھی۔ نوکرانیاں اسے دیکھ کر ششدر تھیں ایسے لگ رہا تھا نیناں کپڑے بدل کر ماڈرن سوانگ بھر کر پھر سے آگئی ہے۔ حیرت انگیز مشابہت تھی دونوں کی۔
عتیرہ بھی اسے دیکھ کر چونک گئی تھیں پر رنم سیال کی نگاہوں میں شناسائی کی کوئی بھی رمق نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا ملک محل میں اسے ایسے رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے وہ ذہنی طور پہ خود کو سمجھا بجھا کر لائی تھی۔ اپنی اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب تھی۔ کیونکہ نوکرانیاں اور ملک محل میں رہنے بسنے والے اللہ کی شان کے گن گا رہے تھے وہ چاہے تو کیا نہیں بنا سکتا پھر ایک جیسی شکل کے دو انسان کیوں نہیں بنا سکتا۔
عتیرہ، افشاں بیگم خاصی محبت سے ملی تھی اسے۔ ابیک سکول کی طرف تھا۔ وہ بھی رنم سیال کی وجہ سے جلدی گھر آگیا تھا۔کھانے میں خاصا اہتمام تھا۔
ڈائننگ ہال میں سب کے ساتھ کھانا کھا کر رنم کو اپنی انا اور عزت نفس کے سرخرو ہونے کا احساس ہوا۔ اسی ملک محل میں وہ نیناں کی عام حیثیت میں رہی تھی اب رنم سیال کی حیثیت میں سب کیسی عزت اور وقار کے ساتھ پیش آرہے تھے۔
اس کے جلتے دل پہ پھوار پڑ رہی تھی۔
کھانے کے بعد وہ آرام کرنے کے موڈ میں نہیں تھی جھٹ ملک ابیک سے سکول اور انڈسٹریل ہوم دیکھنے کی فرمائش کردی۔ ابیک اسے اپنی گاڑی میں پہلے انڈسٹریل ہوم دکھانے لایا۔
یہاں آ کر رنم کو طاقت اور اختیار کا احساس ہوا۔ یہاں وہ میڈم کی حیثیت میں بیٹھا کرتی تھی۔
چھٹی ہوچکی تھی ورنہ سب عورتیں اسے دیکھ کر حیران ہوتیں۔
اس نے اشتیاق سے ایک ایک حصہ دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ یہاں اچھا خاصا ٹائم لگ گیا تھا۔ سکول دیکھنے جاتے تو رات کا اندھیرا پھیل جاتا۔ سو ابیک نے اسے واپسی کا کہا۔ اس نے فوراً مان لیا۔
رات کے کھانے کے بعد وہ کافی دیر ابیک کے ساتھ میٹنگ ایریا میں بیٹھی رہی۔
ذیان بیڈ روم میں معاذ کے ساتھ بات کرتے ہوئے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کر رہی تھی۔
ابیک اٹھ کر آیا تو ذیان اور معاذ میں رنم سیال کی باتیں چھڑی ہوئی تھیں۔ ابیک کے آتے ہی ذیان نے فوراً موضوع تبدیل کردیا۔ ویب کیم میں معاذ ابیک کو دیکھ کر اس تبدیلی کی وجہ جان چکا تھا۔ ذیان نے جلدی بات ختم کردی۔ ابیک باتھ روم میں نہا رہا تھا۔ دن کا بیشتر حصہ اس نے گھر سے باہر گزارا تھا۔ بری طرح تھکا ہوا تھا۔
وہ نہا کر آیا تو ذیان کمرے میں نہیں تھی۔
ابیک نے تولیے سے بال خشک کرتے ہوئے دروازے سے باہر نظر دوڑائی وہ سخت سردی میں ٹیرس کی دیوار پہ کہنیاں ٹکائے کھڑی تھی۔
”باہر ٹھنڈ ہے ذیان آپ بیڈ روم میں آجائیں۔“ وہ اس کے پیچھے پیچھے آگیا تھا۔ ابیک ہلکی سی شرٹ میں بغیرکسی گرم کپڑے کے تھا۔ ”میں چاند کو دیکھ رہی ہوں آجاؤں گی۔“ وہ قدرے رکھائی سے بولی تو ابیک سرہلاتا پلٹ گیا۔ اس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔
ٹھنڈی ہوا نے اندر کی حرارت کو سرد پنے میں تبدیل کردیا تھا اوپر سے ذیان نے ہیٹر بھی آن نہیں کیا تھا۔ ابیک نے ہیٹر آن کیا اور بک شیلف سے ایک کتاب نکال کر بیڈ پہ آگیا۔ آدھے گھنٹے بعد ذیان بھی آگئی۔ دروازہ بند کر کے اس نے اپنا کمبل اٹھایا اور صوفے پہ لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ابیک نے اس کی طرف دیکھا وہ سوچکی تھی۔ اس نے کتاب رکھ دی آج سردی کافی زیادہ تھی اس نے فالتو کمبل لا کر صوفے پہ دراز ذیان کے اوپر ڈالا، کچھ بھی سہی وہ اس کی ذمہ داری تھی۔
ذیان ہلکی نیند میں تھی۔ ابیک نے اس کے اوپر کمبل ڈالا تو وہ پوری طرح بیدار ہوگئی۔ ابیک اس پہ کمبل ڈال کر جاچکا تھا۔
وہ اس دن کے بعد سے بیڈ پہ نہیں سوئی تھی آخر کو وہ بھی عزت نفس رکھتی تھی۔ اتنی گری پڑی نہیں تھی جب وہ اسے اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا تو اسے بھی زبردستی بچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ سوچوں سے پیچھا چھڑاتے سونے کی کوشش کرنے لگی۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja