Episode 93 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 93 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

رنم سیال ملک ابیک کے ساتھ اس کی جاگیر دیکھنے جارہی تھی۔ گاڑی نہر والی سڑک کے ساتھ ساتھ ہموار رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ کھلے کھلے شیشے سے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے رنم کے بالوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔ اس کے بال بار بار اڑ کر ابیک کے کندھے سے ٹکرا رہے تھے اس کے دل میں گدگدی سی ہو رہی تھی۔ ابیک کی توجہ ڈرائیونگ کی طرف تھی۔ رنم سیال نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر میوزک پلیئر آن کردیا۔
تب ابیک چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا، وہ دھیرے سے مسکرا دی۔
بن پوچھے میرا نام پتہ
رسموں کو رکھ کے پرے
چار قدم بس چار قدم چل دو ناں ساتھ میرے
بن کچھ کہے
بن کچھ سنے
ہاتھوں میں ہاتھ لیے
چار قدم بس چار قدم
چل دو ناں ساتھ میرے
رنم اسٹیئرنگ ویل پہ جمے ابیک کے مضبوط مردانہ ہاتھوں کو دیکھے جارہی تھی۔

(جاری ہے)

اس کی نظروں کے ارتکاز سے ابیک کی توجہ ایک ثانیے کے لیے تقسیم ہوئی۔ رنم کی آنکھیں لو دیتے جذبوں سے دہک رہی تھیں نگاہیں ملنے پہ اس نے چرانے کی یا چہرہ موڑنے کی کوشش نہیں کی۔ گانے کے بول اس کے دلی جذبوں کے عکاس تھے۔ ابیک جز بز ہو رہا تھا۔ رنم سیال بہت تیزی سے اس سے بے تکلف ہوئی تھی۔ اس میں صاف گوئی اور بیباکی تھی۔
بہت آرام سے ہر بات کرلیتی۔
پہلی ملاقات میں ہی اس نے ابیک سے اس کے گاؤں آنے کی بات کی تھی بقول اس کے ابیک کی طرح اسے بھی سوشل ورک سے دلچسپی ہے۔ حالانکہ اسے دور دور تک سوشل ورک سے واسطہ نہیں تھا۔ اپنے علاوہ وہ کسی کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ دوران تعلیم اسے سب دوستوں میں نمایاں رہنے کا جنون تھا اس کی گاڑی، ڈرائیونگ مہنگی برانڈڈ اشیاء کا استعمال فراخدلی سے پیسے کا استعمال اس کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
اس کے قریبی دوست اس بات سے آگاہ ہوجاتے کہ وہ گاؤں میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ پراجیکٹ شروع کرنے لگی ہے تو اس کایا پلٹ پہ ضرور حیران ہوتے۔ ملک ابیک کی قربت حاصل کرنے اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔
اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے دل کی بات کرنے کے لیے اس کے پاس وقت کم ہے۔ وہ گزرتے وقت کی تیز رفتاری سے خائف تھی۔
اس کے دلی جذبے اس کی نگاہوں سے جھلکنے لگے تھے۔ ملک ابیک نے سر جھٹک کر جیسے اس کی طرف سے دھیان ہٹایا۔ ”آپ اپنی وائف کو بھی ساتھ لے آتے۔“ رنم نے پھر خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی جو اچانک ان کے درمیان در آئی تھی۔ وہ فقط سر ہلا کر رہ گیا۔ حالانکہ وہ ابیک سے تفصیلی جواب سننے کی متمنی تھی۔ ”میں آپ کے ساتھ اس طرح گھومتی پھرتی ہوں ذیان کو اعتراض تو نہیں ہوتا۔
آخر کو آپ کی نئی نئی شادی ہے۔“ اس نے کرید جاری رکھی۔
”نہیں ذیان کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ ابیک نے مختصراً جواب دیا۔ ”مجھے کئی بار فیل ہوا ہے کہ آپ دونوں میں کچھ…“ رنم نے بولتے بولتے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ اپنی بات کا تاثر اس کے چہرے پہ دیکھنا چاہ رہی تھی۔ ابیک اور وہ دونوں اس وقت کھیتوں کے درمیان بنی پگڈنڈی سے گزر رہے تھے۔
ابیک اپنی جگہ رک گیا تھا۔ ”آپ کو برا تو نہیں لگا۔“ رنم نے اس کی خاموشی سے کچھ اخذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ”اصل میں مَیں نے ذیان کے روئیے سے اندازہ لگایا ہے کہ اسے آپ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“ رنم نے صاف گوئی سے کہا۔ ابیک کا دل لمحہ بھر کے لیے سکڑا۔ اتنے برے حالات ہوگئے تھے کہ ان دونوں کے درمیان جو سرد خلیج حائل ہوگئی تھی یہ اجنبی نوارد لڑکی کتنی جلدی اس کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔
رنم کا ملک محل سے کوئی تعلق نہیں تھا اسے آئے ایک ہفتہ ہی تو ہوا تھا اور صرف چند دنوں میں ان دونوں کے مابین تعلقات کی نوعیت سے واقف ہوگئی تھی۔
ابیک اب آگے بڑھ گیا تھا۔ اس کی خاموشی اس بات کا ثبوت تھی کہ رنم کے اندازے بالکل درست تھے۔ وہ سرمستی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عین اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وقت، ہوا سانسیں تھم گئی ہوں اور وہ صدیوں سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی ہو آنکھیں بند کیے خود فراموشی کے عالم میں۔
ابیک اس کے سوالوں اور اندازوں کی درستگی سے خائف ہو رہا تھا۔ اس لیے تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا تھا۔
ٹیبل پہ بہت سے پیپرز پھیلائے ابیک اور رنم سیال سکول کی تعمیر اور دیگر پراجیکٹ کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ابیک کے ہاتھ میں پین تھا وہ اسے بتانے کے لیے پیپرز پہ نشاندہی کر رہا تھا۔ ابیک اور وہ کرسی جوڑے پاس پاس بیٹھے تھے۔ ابیک کے مردانہ پرفیوم کی مہک رنم بڑی وضاحت کے ساتھ محسوس کر رہی تھی۔
اس کی توجہ ابیک کی بتائی جانے والی تفصیلات کی طرف چنداں نہیں تھی۔ بلکہ وہ ابیک کی طرف متوجہ تھی۔ ذیان تین چار بار وہاں سے گزری اور تین چار بار ہی انہیں مگن پایا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اس طرف نہیں آئی۔ وہاں ابیک اور رنم کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ ذیان خود کو مصروف رکھنے کے لیے کچن میں آگئی۔
ابیک اور رنم جہاں بیٹھے تھے وہاں سے کچن کافی قریب تھا۔
ذیان کو کچن میں گئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ وہاں سے زور زور سے رونے کی آواز آنے لگی سو فی صد یہ آواز ذیان کی تھی، ابیک نے محسوس کرلیا تھا۔ وہ اور رنم ایک ساتھ وہاں پہنچے تھے۔ گھر میں کام کرنے والی دیگر ملازمائیں بھی صورت حال سے آگاہ ہونے پر بھاگی بھاگی آئیں پر ابیک نے سب کو وہاں سے ہٹا دیا۔ رنم نے معنی خیز نگاہوں سے ابیک کی سمت دیکھا۔
ذیان کی نظر بہت حساس تھی اور ابھی تو ویسے بھی اس کی سب حسیات ان دونوں کی طرف متوجہ تھیں۔ کچن میں آ کر اس نے سبزی کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ دھیان سارا ابیک اور رنم کی طرف تھا اس لیے سبزی کاٹتے کاٹتے اس کے ہاتھ پہ چھری سے اچھا خاصا گہرا کٹ لگ گیا تھا جس سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ اس بہتے خون کو دیکھ کر وہ زور زور سے رو رہی تھی ابیک کو پہلے غصہ آیا پر اس کے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ کر دھیما پڑ گیا۔
افشاں بیگم بھی وہاں پہنچ گئی تھیں۔ وہ ذیان پہ خفا ہو رہی تھیں۔ اس کا رونا دھونا اسی طرح جاری و ساری تھا۔
ابیک نہ تو اس کے قریب گیا نہ کسی ہمدردی کا اظہار کیا بس دیکھ کر پلٹ گیا۔ وہ پھر سے رنم اور پیپرز کے ساتھ مصروف عمل تھا۔ ذیان ہاتھ پہ بینڈیج کروا کر اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ سلمیٰ نے ٹنکچر آیوڈین سے خون صاف کر کے اس کے ہاتھ پہ پٹی لپیٹی تھی۔
یہاں سے ڈسپنسری کافی دور تھی اس لیے ذیان نے وہاں جانے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی ویسے بھی اس کا زخم اتنا خطرناک نہیں تھا۔ اب وہ بستر میں گھسی رو رہی تھی۔
رنم سیال کی نگاہ اس کے دل میں خنجر کی طرح اتری تھی۔ اوپر سے ابیک کا رویہ، وہ بولنا چاہ رہی تھی احتجاج کرنا چاہ رہی تھی پر ازلی خود سری اور ضد نے زبان پہ تالے ڈال دئیے تھے۔ وہ کیوں ابیک کے سامنے اپنی زبان کھولے وہ اتنا زیرک، باشعور اور سمجھدار ہے اس کی ذرا سی حرکت اور تاثرات سے اس کے محسوسات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے پھر اس بار وہ کیوں نہیں سمجھ پارہا ہے۔
اور رنم سیال جانے کیا بلا ہے جو ابیک پہ قابض ہونے کی کوشش کر رہی ہے اسے پھانس رہی ہے۔ اس کے گھر میں بیٹھ کر اسے جلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ہوتی کون ہے…“ ذیان روتے روتے خود سے لڑ رہی تھی۔ اس کی مخصوص حس نے رنم سیال کے بارے میں مخصوص اشارہ دے دیا تھا۔
پر وہ جان کر بھی انجان بننے کی کوشش کر رہی تھی اسے خود سے اقرار کرتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اسے ماننے میں قبول کرنے میں خود کو سمجھانے میں کوئی مشکل نہ پیش آتی اگر وہ رنم کی نگاہوں میں وہی تحریر نہ پڑھ لیتی جو اس کے اپنے دل میں لکھی تھی۔
رنم کی نگاہوں میں محبت جیسا طاقتور جذبہ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
                                    ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja