Episode 98 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 98 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

اب ہم نے کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے…
بھلے ہمیں زخم لگ جائے
بھلے وہ عمر بھر سل نہ پائے
ہمیں خاموش رہنا ہے
اب ہمیں کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے…!
ہم نے رو کے دیکھا ہے
ہم نے شور مچا کے دیکھا ہے
اپنے زخم دکھا کے دیکھا ہے
پر ہوا کچھ نہیں حاصل
اب ہمیں کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے
تمہیں گر یاد ہو تو
ہم نے تمہیں قصہ سنایا تھا
اپنا درد بتایا تھا
تم پل بھر
عمر کے کرب کے مداوا بنے تھے
جلتے زخموں کی دوا بنے تھے
جلتے زخموں کی دوا بنے تھے
اور پھر!!!
ذرا جو وقت گزرا تو
زمانے کے چلن میں ڈھل گئے تم بھی
وقت کے ساتھ بدل گئے تم بھی
تمہیں تو بہت
زمانہ شناسی کا دعویٰ ہے
پھر کیوں نہ پہچان پائے تم
ہمیں کیوں نہ جان پائے تم
اب ہمیں تم سے کچھ نہیں کہنا ہے
ہمیں خاموش رہنا ہے
سب آنسو پی کے…
سب زخم سی کے…
ذیان کا ایڈمشن ہوگیا تھا۔

(جاری ہے)

اس کی رہائش یونیورسٹی ہوسٹل میں ہی تھی۔ ذیان جارہی تھی۔ افشاں بیگم بری طرح تپی ہوئی تھیں۔ وہ دندناتی ہوئی غصے میں عتیرہ کے پاس آئیں۔ انہوں نے غالباً پہلی بار افشاں بھابھی کو اس طرح غصے میں دیکھا تھا۔
”بھابھی کیا بات ہے کیا ہوا ہے؟“ انہوں نے ہولتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ ”ہونا کیا ہے میرے بیٹے کو سوشل ورک سے فرصت نہیں ہے اور ذیان گھر سے ہی جارہی ہے۔
کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے سب آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔ اور وہ جو موئی رنم میرے گھر میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئی ہے کوئی پرواہ نہیں کسی کو۔ ارے میرا گھر اجڑ رہا ہے…“
”اللہ نہ کرے بھابھی کہ آپ کا گھر اجڑے۔ آپ بیٹھیں میں پانی دیتی ہوں آپ کو۔“
عتیرہ نے ہاتھ کا دباؤ ڈال کر انہیں پاس پڑے صوفے پہ بٹھا دیا۔ پانی پی کر ان کے حواس تھوڑے بحال ہوئے۔
”جب سے رنم یہاں آئی ہے میرے گھر کا سکون غارت ہوگیا ہے۔ ملک صاحب سے کچھ کہتی ہوں تو وہ میری بات کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ ابیک سارا دن اس پر کٹی لومڑی کے ساتھ غائب رہتا ہے اور ذیان اسے پوچھتی ہی نہیں۔“ پر کٹی لومڑی کی اطلاع پہ عتیرہ کو بے اختیار ہنسی آگئی۔
 ”وہ اس کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر خود بھاگ رہی ہے یونیورسٹی۔ آجائے معاذ اس سے بات کرتی ہوں۔
وہی میرا دکھ سمجھتا ہے۔ باقی سب اندھے گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔“ افشاں بیگم ایک بار پھر اشتعال میں آرہی تھیں۔ ”بھابھی ذیان اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے باقی باتیں پریشان کن ہیں۔ آپ ابیک سے خود بات کریں یا میں ارسلان صاحب سے کہوں گی۔“ عتیرہ کو ذیان نے یہی بتایا تھا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے۔ باقی اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
عتیرہ نے اسی حوالے سے بات کی تھی۔ باقی قصے کا انہیں عمل ہی نہیں تھا۔ افشاں بیگم جوں جوں بتاتی جارہی تھیں توں توں ان کی فکر بڑھتی جارہی تھی۔ذیان نے ان تمام باتوں کی انہیں ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔
انہوں نے اپنے تئیں فرض کرلیا تھا کہ وہاب والا قصہ بھی دفن ہو چکا ہے۔ ذیان کس عذاب سے گزر رہی ہے اس کا احوال اس کے چہرے اور آنکھوں میں رقم نہیں تھا۔
”مجھے رنم سیال کو اپنے گھر سے دفعان کرنا ہے۔ نوکرانیاں تک اس کے کرتوت سے واقف ہو گئی ہیں آنکھوں آنکھوں میں میرے بچے کو کھانا چاہتی ہے۔ رنم سیال محویت سے ابیک کو تکتی تھی جیسے افشاں بیگم نے آنکھوں آنکھوں میں کھانے سے تشبیہہ دی تھی۔
”ذیان سے کہو۔ ابیک کو ڈھیلا مت چھوڑے۔“ عتیرہ سر ہلا کر رہ گئی۔
ساتھ والے روم میں موجود ذیان ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ سن چکی تھی۔
ابیک کو تو بس اس پہ فرد جرم عائد کرنی تھی اس کے بعد اس کی بلا سے جو وہ چاہے کرتی پھرے۔ ملک ارسلان نے یونیورسٹی میں اس کا ایڈمشن کروایا تھا۔
وہ تیاری مکمل کر کے گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ ادھر اس کی گاڑی گیٹ سے باہر نکلی۔
ادھر ابیک کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ ابیک اسے دیکھ چکا تھا۔ ابیک کے ساتھ بیٹھی رنم سیال کو بھی ذیان نے جی بھر کر دیکھا تھا۔
کس استحقاق اور دھڑلے سے وہ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ذیان کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ اس نے چاہنے کے باوجود پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔
ابیک کے ساتھ ایک گھر میں ایک چھت تلے رہتے ہوئے اس درد کو برداشت کرنا کتنا مشکل تھا جو آجکل وہ سہہ رہی تھی۔ رنم سیال کی نگاہیں والہانہ ابیک کا طواف کرتیں وہ صبح سے شام تک باہر اس کے ساتھ رہتی۔
گھر آ کر بھی وہ ابیک کے ساتھ لگی رہتی۔
ادھر وہاب نے اسے طلاق کی خوشخبری سنائی تھی۔ معاذ اور وہ دونوں کسی نتیجے پہ پہنچنے کے انتظار میں تھے۔ آج کل معاذ کے ساتھ بھی اس کا رابطہ کم کم تھا۔
گاڑی رکتے ہی ملک ابیک لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا افشاں بیگم کی طرف آیا۔ اس نے ذیان کو گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔
ایسے تو وہ کہیں بھی نہیں جاتی تھی ہمیشہ گھر کے افراد میں سے کوئی نہ کوئی اس کے ساتھ ہوتا۔
”امی جان ذیان کہاں گئی ہے؟“ اس کے لہجہ میں بے قراری تھی۔ ”بیوی تمہاری ہے وہ اور پوچھ مجھ سے رہے ہو۔ ویسے آج اس کا خیال کیسے آگیا ہے تمہیں۔ تم سوشل ورک کرو۔ انسانیت کے درد بانٹو اور وہ یونیورسٹی میں پڑھنے جائے۔“ افشاں بیگم نے اپنی توپوں کا رخ سیدھے سیدھے اس کی طرف کیا تو وہ بوکھلا سا گیا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja