Episode 100 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 100 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

”احمد سیال کے پاس جانے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ رنم جب گاؤں دیکھنے کے بہانے دوسری بار ملک محل میں آئی تو احمد نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔میں اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ اس نے مجھے سب بتا کر پیشگی معذرت کرلی تھی۔ رنم ضد میں اپنی بات نہ مانے جانے پہ گھر سے نکلی تھی ایک اتفاق کے تحت وہ ہوٹل میں ارسلان اور عتیرہ سے ٹکرائی وہ اسے اپنے ساتھ لے آئے۔
یہاں کی مشکل زندگی اور بدلی ہوئی شخصیت کے ساتھ جینا رنم کو بہت دشوار لگا اور وہ لوٹ گئی۔ اس نے تسلیم کرلیا کہ وہ غلطی پہ تھی اس کے جذبات میں وقتی طور پہ ابال اٹھا تھا وہ ایسے نوجوان سے شادی کرے جو اسے بغیر جہیز اور مال و دولت کے قبول کرے۔ وہ سہولیات کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ لیکن احمد نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ رنم ابیک کو پسند کرنے لگی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے چالیں چل رہی ہے۔

(جاری ہے)

تمہاری ماں نے کتنی بار شکایت کی لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا شک درست ہوسکتا ہے۔“بابا جان نے اس کی بہت بڑی پریشانی بیٹھے بٹھائے حل کردی ۔
وہ اس لیے اطمینان سے بیٹھے تھے کہ احمد انکل نے انہیں سب بتا دیا تھا سوائے ایک بات کے۔ وہ باپ تھے اپنے منہ سے کیسے بتاتے کہ رنم ابیک کو پسند کرنے لگی ہے اسے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کے خوش فہمی میں حالات اس نہج تک جا چکے تھے اور انہیں خبر ہی نہیں تھی۔
”بابا جان اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے؟“ معاذ امید افزاء نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
”’دیکھو معاذ، احمد سیال میرا بہت اچھا دوست ہے میں اس کی بیٹی کو براہ راست کچھ نہیں کہہ سکتا ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ابیک خود رنم کی حوصلہ شکنی کرے۔ وہ ضدی اور جذباتی لڑکی ہے ایسا نہ ہو کہ کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھے۔ ویسے میں احمد کو شرمندہ نہیں کرسکتا۔
اللہ بھی تو عیب چھپانے والوں کو پسند کرتا ہے۔ باقی میں اس گھر کا سربراہ ہوں۔ میرے جیتے جی ذیان کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وہ میری آنے والی نسلوں کی وارث ہے میری بہو ہے اسے کوئی ٹیڑھی نگاہ سے بھی دیکھے میں برداشت نہیں کرو ں گا۔“ ملک جہانگیر کے انداز میں عزم تھا۔ معاذ نے ہولے سے سر ہلایا۔
                                          ###
معاذ اسے لینے کے لیے پہنچا ہوا تھا۔
پہلے تو وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی پھر اس کے ساتھ لے جانے کے مطالبے پہ ناراض ہوگئی۔
”میں فی الحال گھر نہیں جاسکتی۔ میری پڑھائی ابھی ابھی سٹارٹ ہوئی ہے سمیسٹر کے اینڈ پہ چھٹیاں ہوں گی تو میں آجاؤں گی۔“ اس نے رکھائی سے جواب دیا۔ ”آپ یہاں پڑھائی کے چکر میں بیٹھی رہیں اور ادھر وہ آپ کے شوہر نامدار کو لے اڑے گی اس کے ارادے بہت خطرناک ہیں۔
“معاذ نے اسے ڈرانا چاہا پر وہ ذرا بھی مرعوب نہ ہوئی۔
”جو چیز آپ کے نصیب میں نہ ہو آپ کچھ بھی کرلو آپ کو نہیں مل سکتی۔ تمہارے بھائی نے مجھے کوئی بات کرنے کا موقعہ نہیں دیا اور فیصلہ سنا دیا۔ میں اس کے نکاح میں ہوں اور وہ مجھے کسی بے جان گڑیا کی مانند وہاب کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔ میں اپنی قسمت کا فیصلہ خود کروں گی تم جاؤ اپنا وقت ضائع مت کرو۔
“صاف لگ رہا تھا وہ اس کی بات نہیں مانے گی۔ واپسی کے لیے مڑتے معاذ کے قدم بہت مایوس اور سست تھے۔
معاذ واپسی پہ اکیلا آیا تھا۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ اسے مایوسی ہوئی ہے۔
”بھائی جان اس بار وہ بہت غصے میں ہیں۔ انہیں چھیڑنا مناسب نہیں ہے۔ کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کریں اور اس رنم سیال والے مسئلے کو لگے ہاتھوں نمٹا دیں۔
میں آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“ آخر میں اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ابیک غائب دماغی سے سر ہلا کر رہ گیا۔
ابیک نے گھر سے غائب رہنا شروع کردیا تھا۔ رنم کال کرتی تو وہ ریسیو نہ کرتا۔ اب کسی جگہ وہ اسے ساتھ لے جانے سے احتراز کرتا۔ ہفتے بھر میں رنم بور ہوگئی اور پپا کے پاس آگئی۔ وہ اسے دیکھ کر کھل اٹھے۔
”اب میرے پاس رہو۔مجھے تمہاری کمپنی چاہیے۔
بوڑھا اور محتاج آدمی ہوں۔جانے کب بلاوا آجائے۔“ پپا پلیز ایسی باتیں مت کریں مجھے ڈر لگتا ہے۔“وہ ناراض ہوگئی۔ ”ملنا بچھڑنا زندگی کا حصہ ہے یہ حقیقت ہے۔“ ”پپا مجھے آپ سے نہیں بچھڑنا۔“ وہ ضدی بچگانہ لہجہ میں گویا ہوئی۔ ”ارے ہاں یاد آیا فراز تین چار بار تمہارا پوچھنے آچکا ہے۔“ ”کیوں آیا ہے وہ یہاں؟“
وہ غصے سے بولی۔ ”ارے ملنا چاہتا تھا تم سے۔
تم لوگ اچھے دوست رہ چکے ہو۔“ انہوں نے اسے کچھ یاد کروانے کی کوشش کی۔ ”پپا میں جب اس سے ہیلپ مانگنے اس کے پاس گئی تو اس نے میرے ساتھ بلف کیا فوراً آپ کو کال کر کے بتا دیا کہ میں اس کے گھر ہوں۔“ وہ ابھی تک پرانی ناراضگی دل میں رکھے بیٹھی تھی۔ ”اس نے تمہارے ساتھ بلف نہیں کیا بلکہ بھلائی کرنے کی کوشش کی تھی۔ تم ہمیشہ بے وقوف رہی ہو۔“
 ”ہاں پپا آپ نے میری ذہانت کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔
“ اس نے منہ بسورا۔ ”اور تمہارا Complextion کتنا ڈارک اور ڈل ہو رہا ہے بالوں کا بھی یہی حال ہے میرے بچے۔“ احمد سیال نے اسے غور سے دیکھا تو اس کے سراپے میں آنے والی تبدیلیاں فوراً نوٹ کرلیں۔ ”پپا میں دھوپ میں گھومتی پھرتی رہی ہوں ناں اس لیے۔“
”تم گھر بیٹھو ایڈمشن لو اپنی پڑھائی سٹارٹ کرو۔ یہ گاؤں میں سوشل ورک کرنا تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔
دیکھو آئینے میں خود کو۔“ پپا نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر شیشے کے سامنے کھڑا کردیا۔ وہ کتنی کمزور اور روکھی پھیکی سی لگ رہی تھی۔ جلد بھی عجیب بدرنگ اور ڈل نظر آرہی تھی۔ وہ خود کو غور سے دیکھ کر ڈر سی گئی۔ ”میں آج ہی سیلون جاتی ہوں۔“ اس نے فوراً پروگرام بنایا۔
رنم نے پورا ہفتہ پارلر میں اپنا حلیہ سکن اور بال ٹھیک کروانے میں لگایا تھا۔
اسے واپس آئے چوتھا دن تھا جب فراز سے اس کی ملاقات ہوئی۔ وہ برابر اسے ملنے کے لیے آرہا تھا پر وہ گھر نہیں ہوتی تھی آج شومئی قسمت اس کی شکل دیکھنے کو ملی تھی۔ فراز اسے دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ ”رنم یہ تم ہی ہو یا تمہاری فوٹو کاپی ہے۔“ ”کیا ہوا ہے مجھے؟“
اس نے ایکدم اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا تھا۔اس وقت وہ بھول بیٹھی تھی کہ وہ فراز سے ناراض ہے۔
”تم ایکدم Change ہوگئی ہو۔ کہاں گئی وہ لڑکی جو محفلوں اور پارٹیز کی جان تھی اتنی ڈل اور اووڈ لگ رہی ہو دیہاتی دیہاتی سی۔“ فراز نے اسے چھیڑا تو وہ بدک گئی۔ ”میں گاؤں میں سوشل ورک کر رہی ہوں ناں۔“ اس نے جیسے خود کو بہلایا ۔
”سوشل ورک کرنا ہے تو اپنے شہر میں کرو۔ گاؤں میں مارے مارے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ذرا دیکھو تو اپنا حلیہ۔
بالکل مڈل کلاس کی عورت لگ رہی ہو۔“ اُف یہ طعنہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ تو ابیک کی خاطر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہر سے چلی گئی تھی۔
اس کا خیال تھا کہ وہ وہاب کو پیسے دے کر ابیک کو ذیان کی طرف سے بدگمان کروا کے طلاق دلوا دے گی اور پھر آرام سے اس کی شادی ابیک کے ساتھ ہوجائے گی۔
لیکن یہ تو بہت مشکل تھا وہ ابیک کے طلاق دینے تک گاؤں میں رکتی تو اس سٹائلش پرسنالٹی کا کباڑا ہوجاتا جیسے ابھی ہو رہا تھا۔
وہاب اس سے آدھے پیسے لے کر غائب ہو چکا تھا رابطے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ اور ابیک کسی طرح بھی طلاق دینے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا تھا۔ حالانکہ وہاب نے بڑے وثوق سے پیش گوئی کی تھی کہ دو دن میں ہی ابیک ذیان کو طلاق دے دے گا۔ تنہائی میں کتنے موقعوں پہ رنم نے اس پہ ناز و انداز کے تیر چلانے کی کوشش کی تھی پر مجال ہے وہ ذرا بھی پگھلا ہو۔
وہ آخری بار اس سے بات کرے گی پھر دیکھتی ہے وہ کیا جواب دیتا ہے۔
رنم نے اس دن فراز کے ساتھ اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے ڈنر کیا بعد ازاں وہ اسے لانگ ڈرائیو پہ لے گیا۔ وہ بہت آرام سے گاڑی چلا رہا تھا۔ 
”رنم میں تم سے آج کچھ کہنا چاہتا ہوں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔“ فراز کا انداز بہت خاص تھا۔ رنم جو شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی ایکدم رخ موڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”ہاں بولو۔“ رنم آئی لو یو۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ جب تم مدد مانگنے میرے پاس آئی تھی تو میں اسی وقت تم سے یہ بات کہنا چاہتا تھا لیکن میری بزدلی نے اجازت ہی نہیں دی۔ تم جس نوجوان کو ڈھونڈ رہی تھی وہ میں بھی تو ہوسکتا ہوں۔ میں تمہیں بغیر جہیز کے تمہارے پپا کی حیثیت کے بغیر قبول کرسکتا ہوں میرے کہنے کا مطلب ہے کہ تم کچھ بھی مت لے کر آنا پھر بھی میں تم سے شادی کرلوں گا۔
رنم کی آنکھوں میں اچانک آنسو آئے تھے۔ ”فراز تم یہ بات اس وقت بھی تو بول سکتے تھے ناں جب میں گھر چھوڑ کر تمہارے پاس آئی تھی۔ تمہیں پتہ بھی نہیں ہوگا کہ میں نے گاؤں میں کیسی زندگی گزاری ہے۔ یہ چند ماہ جو میں نے پپا سے تم سب سے دور رہ کر گزارے کتنے ہارڈ تھے تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہاں مجھے بے آسرا بے سہارا لڑکی کا ٹائٹل ملا تھا میری قسمت اچھی تھی جو اللہ نے مجھے اچھے لوگوں سے ملوایا۔
تمہیں پتہ ہے میں جہانگیر انکل کے گھر رہی ہوں وہی پاپا کے دوست۔“ وہ روتے روتے بتا رہی تھی۔ فراز نے گاڑی ایک ذیلی سڑک پہ موڑتے ہوئے روک دی تھی۔ اس نے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو پیپرز نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ ”ہاں احمد انکل مجھے بتا چکے ہیں۔ سوری میں نے تمہیں ہرٹ کیا۔“ فراز نے معذرت کی۔ ”تو تم مجھے آفیشلی پروپوز کر رہے ہو؟“ اس نے بے یقینی سے فراز کو دیکھا۔
”ہاں میں تمہیں پروپوز کر رہا ہوں۔ تمہیں اعتراض نہ ہوتو میری فیملی تمہارے گھر آئے؟“ ”ہاں میں سوچوں گی۔“ وہ مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں اس کا فیصلہ چھپا ہوا تھا۔ فراز کے اظہار نے اسے شانت کردیا تھا۔
گھر جا کر اس نے پپا کو بڑی بے تکلفی سے فراز کے ساتھ ہونے والی باتیں بتائیں۔ وہ خوش نظر آرہی تھی۔ یعنی اس نے فراز کو قبول کرلیا تھا۔
احمد سیال کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ تھوڑے دن میں ہی گاؤں سے اکتا جائے گی اس لیے انہوں نے اسے اجازت دے دی تھی۔ وہ ابیک پہ اپنا حق جتا رہی تھی انہیں علم تھا کہ یہ سب وقتی ہے کیونکہ وہ مشکلات برداشت کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ کہاں وہ ابیک کے حصول کے لیے مری جارہی تھی اور اب فراز کے پروپوزل کے آگے ڈھیر ہوگئی تھی۔ رنم سیال کے بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ وہ حیران کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھی کسی وقت کہیں بھی کچھ بھی کرسکتی تھی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja