Last Episode - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

آخری قسط - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

فراز کے پرپوزل نے رنم سیال کو ابیک اور گاؤں، سوشل ورک سب کچھ بھلا دیا تھا۔
وہ آخری بار ابیک کو کال کرکے بات کرنے کا سوچتی آئی تھی کہ اسے اظہار محبت کرے گی ۔ اگر اس نے قبول کرلیا تو ٹھیک ورنہ آخری آپشن پھر بھی اس کے پاس موجود تھا۔ وہ ملک ابیک کو خود کشی کی دھمکی دیتی بلیک میل کرتی وہ خود ہی ہتھیار پھینک دیتا۔
وہ ابیک کے ساتھ گاؤں میں صحت کی سہولتوں کی دستیابی کے لیے ہاسپٹل بنوانا چاہ رہی تھی۔
ابیک نے ہاسپٹل کے لیے اسے مفت زمین فراہم کی تھی۔ اس کا نقشہ بھی منظور ہوچکا تھا۔
فراز سے ملاقات سے پہلے تک اس کا ارادہ برقرار تھا۔ ہاسپٹل کے لیے تعمیراتی سامان کی لاگت ابیک نے ٹھیکے دار سے معلوم کرلی تھی۔
اب تعمیراتی سامان آتا تو ہاسپٹل کے تعمیر کا آغاز ہوتا۔

(جاری ہے)

وہ بھول بھال گئی تھی۔ حالانکہ صرف کچھ دن پہلے تک اس کا جوش و جذبہ برقرار تھا۔

اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور رنم سیال ہاسپٹل، سوشل ورک، غریب اور غریب کے مسائل سب بھول گئی تھی۔
ابیک نے اس کی ذرہ بھر بھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ وہ اسے بھول بھال کر فراز کے ساتھ محبت کے نئے سفر پہ گامزن تھی۔
فراز کی فیملی ان کے گھر آئی تھی۔
احمد سیال خوش تھے۔ انہیں رنم کا یہ کلاس فیلو پسند تھا۔ انہیں پوری امید تھی کہ فراز رنم سے شادی کے بعد اسے سنبھال لے گا اور اس کی غیر مستقل مزاجی کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
احمد سیال نے فراز کے گھر والوں کو ہاں کردی تھی۔
رنم، فراز کے ساتھ مارکیٹس کے چکر لگا رہی تھی۔ اسے منگنی پہ پہنا جانے والا ڈریس خریدنا تھا اسے کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔ راعنہ، کومل، اشعر تینوں دوست رنم سیال کی کایا پلٹ پہ حیران تھے کہاں تووہ بغیر جہیز کے شادی کے لیے مری جارہی تھی اور اب منگنی کے فنکشن کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ انتظامات پہ زور دے رہی تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ اس کی منگنی کا فنکشن شاندار اور یادگار ہو۔ سب برسوں یاد رکھیں ایک دوسرے کو بتائیں کہ رنم سیال کی منگنی کیسے شاندار طریقے سے ہوئی تھی اس نے کتنا مہنگا ڈریس اور جیولری پہنی تھی ،کھاناکتنا اچھا اور ذائقے میں لاجواب تھا۔
منگنی کے عام سے فنکشن کے لیے اتنے اعلیٰ پیمانے پہ انتظامات ہو رہے تھے۔
رنم کے قریبی دوستوں کو اندازہ تھا کہ رنم اور فراز کی شادی کیسے ہوگی۔
نمودو نمائش اور پیسے کا زیاں۔ شان و شوکت کا مظاہرہ۔ شو آف۔ سب یاد رکھیں گے کہ احمد سیال کی بیٹی جیسی شادی تو اب تک ان کے سرکل میں کسی کی بھی نہیں ہوئی ہے۔
رنم سیال کے دل سے غریبوں کا درد نکل چکا تھا۔ ملک ابیک بھی فراز کی آمد کے بعد نکل چکا تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا ابیک نے اس کی محبت کو کسی صورت بھی قبول نہیں کرنا تھا۔
رنم سیال کی منگنی کا دعوت نامہ ٹیبل پہ پڑا تھا۔
احمد سیال خود ملک جہانگیر کے پاس آئے تھے۔
کہاں تو رنم ایسے نوجوان سے شادی کرنا چاہ رہی تھی جو اسے بغیر جہیز کے تین کپڑوں میں قبول کرے اور اب اس کی منگنی کا فنکشن فائیو سٹار ہوٹل میں ہو رہا تھا۔ اس کا منگنی پہ پہنا جانے والا جوڑا ہی صرف لاکھوں روپے میں تھا۔ معاذ نے کارڈ دیکھ کر بدلے کا نعرہ لگایا۔
معاذ کی شادی اس کی خالہ کی بیٹی سے ہو رہی تھی۔
وہ اعتدال کو شروع سے پسند کرتا تھا۔ کسی کو بھی اس رشتے پہ اعتراض نہیں تھا۔ بس شادی جلدی میں ہو رہی تھی کیونکہ ملک جہانگیر کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ذیان سب ناراضگی بھلائے انہیں دیکھنے کے لیے گھر آگئی تھی۔ یہاں ملک محل بقعہ نور بنا ہوا تھا۔
معاذ کی مہندی تھی۔ ملک جہانگیر نے اسے دیکھتے ہی بازو کھول دئیے۔ وہ بھاگ کر ان کے سینے سے لپٹی تھی۔
”میرے بغیر ہی شادی کر رہے تھے آپ؟“ وہ نروٹھے پن سے بولی۔ ”تمہارے بغیر اس گھر میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ جاؤ اچھی طرح تیار ہوجاؤ۔ ملکانی تمہارے انتظار میں ہے۔“ ملک جہانگیر شفقت سے مسکرائے۔
وہ ان سے الگ ہو کر پلٹی تو دروازے پہ عتیرہ، ملک ارسلان، افشاں بیگم اور معاذ سب کھڑے تھے۔ ایک شرمندہ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آئی۔ افشاں بیگم نے اچانک آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”آؤ تیار ہوجاؤ۔“
وہ بنا چوں چراں کیے ان کے ساتھ ہولی۔ وہ افراتفری میں تیار ہوئی۔ گہرے رنگ کے بھاری جوڑے میں وہ بے حد دل کش لگ رہی تھی۔ باہر سے مسلسل دروازہ پیٹا جارہا تھا کہ”جلدی کرو باہر آؤ۔“
بڑے کمرے میں وہ دیگر لڑکیوں کے ساتھ مہندی کی سجاوٹ میں مصروف تھی۔ ہر طرف شور ہنگامہ اور خوشی تھی۔ ذیان مہندی کی سجاوٹی طشتریوں میں موم بتیاں سیٹ کر کے جلا رہی تھی۔
جب اس کی بے خبری میں اس کا دوپٹہ جلتی موم بتیوں پہ جاگرا۔ ریشمی دوپٹے نے پل بھر میںآ گ پکڑ لی۔ ذیان نے بدحواسی میں چیخنا چلانا شروع کردیا۔
سب لڑکیاں بجائے اس کے دوپٹے کو اس کے وجود سے الگ کرنے کے دور ہٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ وہ ذیان سے خوفزدہ تھیں۔ کیونکہ اس پہ عاشق ہونے والے جن کی مبالغہ آمیز کہانیاں انہوں نے بھی سن رکھی تھیں۔
ایک نے عقل مندی کی بھاگ کر ابیک کو بلا لائی کہ ذیان بھابھی پہ جن آگیا ہے۔
وہ شدت سے اس کی آمد کا انتظار کر رہا تھا وہ نہ آتی تو ابیک نے خود جا کر اسے زبردستی لے کر آنا تھا۔ وہ مردانے میں تھا اس لیے اسے نہیں پتہ تھا کہ ذیان واپس آگئی ہے۔ وہ کچھ منٹ پہلے ہی اپنے کمرے میں آیا تھا۔ وہ نہا کر نکلا تھا شرٹ کے بٹن بھی پوری طرح نہیں لگائے تھے جب ذیان پہ جن آنے کی خوشخبری ملی۔ وہ فوراً بیڈ روم سے نکل کر ہال کی طرف دوڑا۔
لگ رہا تھا ذیان نے اس بار اس کا تماشہ بنوانے کے لیے زبردسست پلاننگ کی ہے۔ وہاں عجیب سی ہڑبونگ مچی تھی۔ ذیان کے دوپٹے کو آگ لگی ہوئی تھی اور وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔ باقی لڑکیاں اسے دیکھ کر خود بھی یہی کام کر رہی تھیں۔ اتنا کسی سے نہ ہوسکا کہ جلتا دوپٹہ الگ کر کے دور کر کے پھینک دیتیں۔ دوپٹے کے جلتے کنارے نے ذیان کی شرٹ کے دامن کو چھو لیا تھا۔
جب ابیک نے بجلی کی تیزی سے دوپٹہ اس کے وجود سے الگ کر کے پھینکا۔
ذیان کو کھینچ کر وہ اپنے ساتھ بیڈ روم میں لے آیا۔ ذیان ڈر رہی تھی کیونکہ ابیک کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا جانے اب یہ غصے کی سرخی تھی یا کسی اور چیز کی کیونکہ ساری لڑکیاں چیختے ہوئے ایک بات دہرا رہی تھیں کہ ذیان بھابھی پہ جن آگیا ہے۔
ابیک اس کے سامنے کھڑا تھا بالکل پاس۔
”ذیان آگ نے کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا۔“
اس کے لہجہ میں بے قراری تھی۔ ذیان نے حیران نگاہیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ ابیک کمرے سے لا کر اس کی کلاس لے گا۔ اتنی نرمی کی وہ توقع نہیں کر پا رہی تھی تب ہی تو چند ثانیے بعد کمرے میں اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔
 ”آئی سوئیر اس بار میری غلطی نہیں ہے ساری لڑکیوں نے خود ہی کہا کہ مجھ پہ جن آگیا ہے۔
“ روتے روتے اس نے ہر ممکن طور پہ اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔
”جن تو تم پہ سچ مچ آنے والا ہے آتم توش سے زیادہ زور آور اور طاقتور۔“
ابیک مسکراہٹ چھپانے کے لیے پلٹا تو ذیان نے پیچھے سے اس کا کندھا پکڑ لیا۔ ”میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔“ اس بار اس کے رونے میں شدت تھی۔
 ”تم نے ہی تو سب کچھ کیا ہے۔ اب معصوم بن رہی ہو۔“ ابیک نے دروازہ لاک کر دیا اور پلٹ کر دوبارہ ذیان کے پاس واپس آیا جو حد درجہ خوفزدہ نظر آرہی تھی۔
حالانکہ وہ دل میں ابیک سے ناراض تھی دھڑلے سے واپس گھر آئی تھی۔ ”کہو تو تمہارے جرائم بتاؤں۔“ ابیک نے اس کے دونوں بازو پکڑ لیے۔ وہ اب اس کے مقابل تھی۔ گھیردار پاؤں کوچھوتے سٹائلش فراک اور چوڑی دار پائجامے میں ملبوس بغیر دوپٹے کے ابیک اس کا ایک ایک نقش وضاحت سے دیکھ سکتا تھا۔ ”اپنی مرضی سے تم نے سب کچھ کرلیا۔ مجھے ذہنی اذیت دی۔ مجھ سے محبت کرتے ہوئے بھی مجھے لاعلم رکھا بچتی رہی مجھ سے۔
بڑے دھڑلے سے مجھے کہا کہ اپنے بارے میں میں خود فیصلہ کروں گی۔ گھرسے چلی گئی تم۔ فیصلہ کیے بغیر۔ میں تو انتظار ہی کرتا رہا۔ اتنے دن جو میں تم سے دور رہا خاموش رہا صرف اس لیے کہ تم اپنی غلطیوں سے سیکھو اور صرف ایک بار مجھے اپنا فیصلہ سناؤ۔ تم نے مجھے اپنی محبت سے لاعلم رکھا لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا تمہیں بتا رہا ہوں صاف صاف۔
کیونکہ میں تم سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکتا۔ اور میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ تمہارے صبر کا پیمانہ پوری طرح بھر گیا ہے۔ اب بھی اگر میں نے کوئی غلطی کی تو میرا حشر کردو گی۔“ مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے وہ انوکھے طریقے سے اعتراف محبت کر رہا تھا۔
ذیان زیادہ دیر حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن نہ رہ پائی تھی۔ ابیک نے اس کی کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے گرد بانہوں کا حصار مضبوط کردیا تھا۔
”آپ چھوڑیں مجھے۔ آپ کو سب پتہ تھا جب اچھی طرح سے آپ میرے جذبات سے آگاہ ہوچکے تھے پھر یہ سب کرنے کی اجنبی بننے کی کیا ضرورت تھی۔“ ذیان نے اپنے ناخن ابیک کے بازو میں چبھونے کی کوشش کی۔ ”میں ایسا نہ کرتا تو مجھے کیسے پتہ چلتا کہ تم مجھ سے اتنی شدید محبت کرتی ہو اتنی زیادہ کہ رنم کی محبت بھری نگاہ بھی میرے اوپر برداشت نہیں کرسکتی۔
“ ابیک نے شرارت سے بولتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اچھا چلیں آپ باہر جائیں مجھے Change کرنا ہے ڈریس۔“ ذیان نے اس کے بازو پرے کیے۔ ”ایسا کرو آج برائیڈل ڈریس پہن لو۔“ ابیک نے معصومیت سے کہا۔
”ہونہہ، کیوں؟“ ”بس میرا دل کر رہا ہے۔“ ابیک نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”پتہ ہے روشنی کی ایک کرن میری مٹھی میں ہے۔“
”کون سی کرن؟“
”ملک ابیک۔
“جواباً وہ کھل کھلائی۔ ”یہ گمان نہیں ہے سراسر یقین ہے۔“
وہ اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
وقت کی گردش اس سمے تھم گئی تھی۔
وہ گھڑی کی ٹک ٹک میں ابیک کے دل کی دھڑکنیں بھی گن سکتی تھی۔
ابیک کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔
”ذیان۔“ ابیک کی نگاہ سرگوشی بن گئی تھی۔
خاموشی اور سکوت۔ شوخ لمحوں کی آہٹ۔
ذیان کا گمان یقین بن کر محبت کے سچے جذبوں پہ مہر ثبت کر رہا تھا۔
                                      ختم شد

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja