Episode 8 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 8 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”وڈیری ماں (تائی امی) نے آرڈر دیا ہے کہ ان کی اکلوتی حسین و جمیل بہویہ شاندار نفیس لباس فاخرہ زیب تن فرمائیں اور اس کے بعد ملک کی نامور بیوٹیشن ثمن آپ کی نوک پلک سنواریں گی کیونکہ نیچے رسم کیلئے مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی ہے۔“ ثانیہ نے میک اپ کا سامان بیڈ پر پھیلایا اور نمرہ اس کے کپڑے نکالنے لگی۔ اشفا غائب دماغی سے اس تمام کارروائی کو دیکھ رہی تھی۔

”پہلے تم چینج کرآؤ۔“ ثمن نے اشفا سے کہا تو وہ سنبھلتے ہوئے چیخ کر بولی۔
”میں یہ کپڑے نہیں پہنوں گی۔“
”ارے اشفا ڈیئر! ہمارے یہاں دلہنیں ایسے ہی کپڑے اپنی شادی کے موقع پر زیب تن کرتی ہیں۔“ سائرہ نہ جانے کیا سمجھی تھی۔ فوراً ہی سمجھانے والے انداز میں بولی تو اس کے چہرے پر ناگواری پھیلتی چلی گئی۔

(جاری ہے)

”مجھے تیار نہیں ہونا اور نہ ہی میں ایسے کپڑے پہنوں گی۔
”تمہیں یقینا یہ بھاری لہنگا دیکھ کر اُلجھن ہو رہی ہے مگر فکر نہیں کرو، رسم کے بعد اتار دینا۔ لیکن فی الحال تو تمہیں یہ کپڑے پہننا ہوں گے۔ کیونکہ دلہن لہنگا نہ پہنے تو وہ دلہن نہیں لگتی۔“
نمرہ نرمی سے مسکرائی تو اشفا ان کی فضول بک بک سن کر جھنجلا گئی۔اسی پل عطیہ کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ انہیں صورت حال سمجھنے کیلئے بس کچھ پل ہی لگے تھے۔
انہوں نے بچیوں کو نرمی سے مختلف کاموں کیلئے چند منٹوں کیلئے باہر بھیجا اور پھر اشفا کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ بس اتنا ہوا تھا کہ جب نمرہ ، ثانیہ لوگ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئیں تو اشفا روئی روئی آنکھیں لئے لہنگا پہنے بیٹھی تھی اور عطیہ چاچی کمرے میں پھیلی چیزیں سمیٹ رہی تھیں۔ انہوں نے نمرہ کو اشارہ کیا۔ ثمن نے آگے بڑھ کر اشفا کا میک اپ کرنا شروع کر دیا تھا۔
جب تک وہ تیار کرتی رہی تھی عطیہ ان کے قریب بیٹھی ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہیں۔ میک اپ کے بعد اشفا کے سر پر دوپٹہ سیٹ کیا گیا اور اس کے بعد عاشر کیمرہ اٹھائے اندر چلا آیا۔ ایک اور ناقابل برداشت کام۔
عامر کسی ماہر فوٹو گرافر کی طرح ہدایات دے رہا تھا اور عاشر تصویریں اتار رہا تھا۔ ”بھابھی! یوں کریں ، ایسے کھڑی ہوں۔ ویسے کھڑی ہوں۔
“ اشفا کا لال بھبھو کا چہرہ دیکھ کر عطیہ نے عاشر کو منع کیا کہ اس وقت کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔
پھر جب نمرہ ،ثانیہ اُسے تھام کر نیچے لائیں تو اتنے لوگوں کے بیچ میں مرکز نگاہ بن کر بیٹھنا اور بھی دشوار ہو گیا۔ تائی امی اُسے آتا دیکھ کر اپنی جگہ سے اُٹھیں ، پھوپھو نے بھی ان کی پیروی کی تھی۔ تائی امی نے اس کے سر سے ڈھیروں پیسے لگا کر خیرات کئے ، محبت سے پیشانی چوم کر ڈھیروں دعائیں دیں۔
”میری دھی رانی تو رج رج کے سوہنی ہے۔“ وہ بڑے فخر کے عالم میں سب کو بتا رہی تھیں۔ لوگوں کی حسد اور رسک سے بھری نگاہیں اشفا کا طواف کر رہی تھیں۔
اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ کسی اور کی رتجگے کی سرخی لئے لہو رنگ نگاہیں بھی اس کے گرد چکرا رہی ہیں۔
اشفا اس بات سے بے خبر تھی کہ کسی اور کا دل اس پل لہو لہو ہو رہا ہے۔ کسی اور کے دل کی سرزمین اُجڑ رہی ہے۔
دل کے شہر میں تلاطم برپا ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خواب کا محل گر رہا ہے اور اُمنگیں دم توڑ چکی ہیں۔
اشفا اپنے ہی غم کو سینے سے لگاتے ادھ موئی ہوئی جا رہی تھیں۔ اُسے کسی اور کی خبر بھی کیا ہوتی۔اس پر تو ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ احتجاج کرتی بھی تو کیا یہ ظلم کرنے والا کوئی اور نہیں تھا بلکہ اس کے اپنے والدین تھے۔
اپنے خود ساختہ غم میں نڈھال اسے پتا نہ چلا کہ کب مہوش اس کے برابر آکر بیٹھ گئی ہے۔
وہ چونکی تو تب جب مہوش کی دھیمی غراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”کسی اور کی جاگیر پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے تم نے۔ مرتضیٰ کو پکے کاغذوں میں اپنے نام کر لیا ہے۔ تیری سیدھی سادی بھولی ماں تو بڑی چالباز نکلی۔“ اشفا غائب دماغی سے اسے سن رہی تھی۔ اس کی توجہ دوسری طرف مبذول ہو رہی تھی جہاں سے شور کی اور اک ساتھ عورتیں اور لڑکیوں کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔
”مرتضیٰ لالا آ رہے ہیں۔“ نمرہ کے چہکنے کی آواز آئی۔
”مرتضیٰ کا دل تو میر جاگیر تھا اور میں اپنی جاگیر کسی اور کے حوالے نہیں کروں گی۔“ وہ چنگھاڑتے ہوئے اٹھی اور پھر تیزی سے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی۔
نہ جانے اور کیا کیا رسمیں ہوئی تھیں۔ اشفا تو سن سی بیٹھی رہی گویا پتھر کا مجسمہ ہے۔
اسٹیج پر پاپا اور تایا ابو کے ساتھ مرتضیٰ بھی آیا تھا۔
پھر کچھ دیر بعد اسے وہاں سے اٹھایا گیا۔ پاپا اور تایا ابو نے اسے ڈھیروں پیار کیا۔ تائی امی اور دادی نم آنکھوں سے اسے دعائیں دیتی رہیں۔بس ثمینہ چاچی اور مہوش کہیں دکھائی نہیں دی تھیں۔ مرسلین چاچو نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر ڈھیروں روپے تھمائے۔
نمرہ ، ثانیہ جس طرح تھام کر اسے باہر لے کر آئی تھیں اسی طرح تائی امی کے کہنے پر دوبارہ تھامے ایک آراستہ پیراستہ کمرے میں چھوڑ گئیں۔
اشفا نے زندگی میں آج سے پہلے کوئی شادی اٹینڈ نہیں کی تھی۔ اسے نہیں پتا تھا کہ شادی میں کیا کیا رسومات ہوتی ہیں اور اپنے خاندان کے رواجوں کے متعلق تو وہ بالکل نہیں جانتی تھی۔ اس کے پاپا کے کزن کی دو شادی شدہ بیٹیاں اور حرا اور افشاں اس کی تنہائی کا احساس کرکے کمرے میں آ گئی تھیں۔
”مجھے لگتا ہے کہ اشفا تھک گئی ہے۔“ افشاں نے خیال ظاہر کیا تھا۔
اشفا کو ان دونوں کی موجودگی اور بولنا سخت برا لگ رہا تھا مگر فی الحال وہ انہیں کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
”اشفا نے اپنے خاندان کی بھلا کہاں کوئی شادی اٹینڈ کی ہے۔ اسے کیا پتا ہمارے رواج کا؟“ حرا بڑی شرارتی نظروں سے اس کے دل میں اتر جانے والے روپ کو دیکھ کر بولی تو افشاں بھی کھلکھلا اٹھی۔ اشفا کا مارے کوفت کے… برا حال ہو گیا۔
”اشفا! اگر تم چاہو تو کپڑے بدل لو۔
“ اشفا کو خود بھی عجوبہ بن کر بیٹھنا سخت برا لگ رہا تھا۔ مگر وہ ان دونوں کی موجودگی کی وجہ سے خاموش تھی۔ ورنہ جی تو چاہ رہا تھا کہ اپنے اس حسین روپ کو نوچ گھسوٹ دے اور اس کمرے کی سجی سجائی چیزوں کو تہس نہس کر دے۔ یہ کمرہ یقینا مرتضیٰ کا تھا۔ اس نے پورا گھر بھی دیکھا ہی کہاں تھا کہ اسے سب کے کمروں کے متعلق اندازہ ہوتا۔
”تم یقینا مرتضیٰ کا انتظار کر رہی ہو مگر یار! کیا ہے کہ ہماری خاندانی رسم کے مطابق مرتضیٰ آج رات ادھر نہیں آئے گا لہٰذا تم اطمینان رکھو۔
“ حرا نے مسکراتے ہوئے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”چلو آج کی رات تو جان بخشی ہو گئی ورنہ شوہر کو بھگتنا کوئی آسان ہے۔“ افشاں نے راز داری سے کہا اور پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ اشفا کو ان کا ہنسی ٹھٹھول زہر لگ رہا تھا۔
”تم شکر کرو یار! کہ تمہاری ساس بہت اچھی ہیں ورنہ شوہروں کے ساتھ ساتھ خطرناک ساسوں سے نبٹنا بہت مشکل ہے۔
”تو اور کیا رات بھر میاں کو بھگتو ،ان کا جی بہلاؤ اور دن بھر سسرالیوں کے نخرے برداشت کرو۔۔“ افشاں نے ایک اور کھنکتا قہقہہ لگایا۔
”ویسے تم خوش نصیب ہو اشفا! کہ تمہیں مرتضیٰ جیسے شخص کا ساتھ ملا ہے۔اس جیسا تو کوئی ہے ہی نہیں، اگر مجھے ابھی بھی مرتضیٰ کی طرف سے شادی کی آفر ہوتی تو میں ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگاتی۔“ حرا انتہائی دلسوزی سے بولی تھی۔
انداز میں بھرپور شرارت تھی۔ وہ دونوں بہنیں بہت زندہ دل تھیں مگر اشفا کو ان کی زندہ دلی اور خوش مزاجی بہت چبھ رہی تھی۔
”یہ خاتون مرتضیٰ سے پورے نو سال بڑی ہیں۔“ افشاں نے راز داری سے اشفا کے قریب جھک کر کہا تو حرا بلبلا اٹھی۔
”تم نے ایک سال زیادہ کر دیا ہے۔میں صرف آٹھ سال بڑی ہوں مرتضیٰ سے۔“
”صرف آٹھ سال۔“ افشاں آنکھیں پھیلائیں۔
”آٹھ سال کا فرق اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔“ حرا ڈھٹائی سے بولی تھی۔ اسی پل اس کا تین سالہ بیٹا بھاگتا ہوا آیا تو وہ اپنے بیٹے کو چومنے لگی تھی۔
”ویسے یار! مجھے تو مرتضیٰ بچارے پر ترس آ رہا ہے۔ آخر اس کا حق ہے کہ وہ اپنی خوب صورت بیوی کا جی بھر کر دیدار کرے۔“ افشاں نے تاسف سے سر ہلایا تو حرا نے بھی بھرپور تائید کی۔
”میرا خیال ہے کہ اس وقت ایک ملاقات کا ہونا بہت ضروری ہے۔“ حرا پر سوچ انداز میں بولی۔
”تم اپنا خیال اپنے پاس رکھو۔ ،اگر ملاقات طویل ہو گئی تو ہماری تمہاری پیشی لگ سکتی ہے۔“افشاں نے مسکراتے ہوئے حرا کے خیال کو رد کیا تو وہ بھی تائید میں سر ہلانے لگی۔
”اس نقطے پر تو میں نے غور نہیں کیا۔“

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi