Episode 9 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 9 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”تم کسی بھی نقطے پر غور نہیں کر رہی۔ دیکھ نہیں رہی ہو کہ دلہنیا کچھ بے زار سی ہو رہی ہے لہٰذا اپنے اس لاڈلے کو اٹھاؤ جو کہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے اپنی ممانی کو دیکھ رہا ہے بلکہ گھور رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں نیند بھی بھری ہے۔“افشاں نے بھانجے کو اک پیار بھری چپت لگا کر حرا سے کہا تو اسے بھی اشفا کی تھکاوٹ کا ایک دم احساس ہوا۔ لہٰذا وہ دونوں اسے آرام کرنے کا مشورہ دے کر چلی گئیں تو اشفا نے اک طویل پرسکون سانس خارج کی۔
ان دونوں کی اس طویل گفتگو میں جو بات اشفا کو پسند آئی تھی بلکہ اس کے دل کو لگی تھی۔ وہ مرتضیٰ کے نہ آنے کی خوشخبری تھی۔ اس کے کندھوں سے منوں بوجھ اتر گیا تھا۔ وہ چند گھنٹوں کیلئے ہلکی پھلکی سی ہو گئی تھی۔
”تھینک گاڈ۔“ اس نے کپڑے بدلنے کا تردد نہیں کیا تھا۔

(جاری ہے)

اس قدر تھکن ہو رہی تھی کہ بس جیولری کو اتارنے کی ہمت کر سکی۔ مگر جوں ہی بستر پر لیٹی تو اک نامعلوم سی بے چینی نے گھیراؤ کر لیا۔

”میں اور مرتضیٰ … اُف میں نے کبھی ایسا سوچا نہیں۔ تم کبھی مجھے نہیں پاسکو گے مرتضیٰ۔ تم میرا آئیڈیل نہیں۔ میری اور تمہاری سوچیں مختلف ہیں  میرے اور تمہارے راستے مختلف ہیں  منزلیں مختلف ہیں مگر پھر ان بزرگوں نے ایسا کیونکر کیا۔ پاپا میں آپ سے ناراض ہوں  میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی اور یہ مرتضیٰ آج نہیں تو کل ضرور اس کمرے میں آئے گا۔
وہ مجھے چھونے کی کوشش کرے گا  حق جتائے گا اور میں اسے واضح لفظوں میں بتا دوں گی کہ میں کوئی معمولی لڑکی نہیں ہوں اور یہ کہ میں اسے قطعاً پسند نہیں کرتی بلکہ اس رشتے کے بعد تو مجھے اس سے شدید نفرت ہو گئی ہے۔ وہ اسی قابل ہے کہ اس کی شادی اسی خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ ہوتی۔
میں اسے بتا دوں گی کہ ماما نے مجھے اپنے آنسوؤں اور بیماری کی بلیک میلنگ سے اس سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور یہ کہ وہ اب میری مجبوری کا مزید فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
میں اسے اتنا ذلیل اور شرمندہ کروں گی کہ وہ میرے ساتھ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کر سکے گا۔ اس پینڈو جاہل کو بھلا بات کرنے کا سلیقہ ہی کہاں ہوگا۔ زرعی یونیورسٹی سے ایم اے کرکے اس نے بڑا تیر مار لیا ہے۔ گھٹیا انسان۔ اس نے تو سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اسے مجھ جیسی لڑکی خوش قسمتی سے مل جائے گی۔“
اور بھی نہ جانے کون کون سی منفی سوچوں نے اس کے ذہن کو آلودہ کر رکھا تھا۔
نہ جانے کب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگی۔ اس کا ذہن اسی وقت بیدار ہوا جب ہلکے سے کھٹکے کی آواز آئی۔ وہ ایک دم ٹھٹک کر اٹھ بیٹھی۔ مندی مندی آنکھوں کو بمشکل کھول کر اس نے اپنے سامنے دیکھا تو حیرت سے ایک جھٹکا سا لگا۔
صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے سفید لباس اور سفید ہی پگڑی نما صافے کو سر اور گردن سے سندھی انداز میں لپیٹے وہ پوری آنکھیں کھولے مسکرا رہا تھا۔
نہیں وہ مسکرا نہیں رہا تھا۔ اشفا کو غلط فہمی سی ہوئی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ پھر قدرے جھجکتے ہوئے دیکھا وہ یک ٹک اسی کو دیکھ رہا تھا مگر اس کی آنکھیں  نہ جانے یہ کیسی آنکھیں تھیں۔ اتنی عجیب اور سحر زدہ کر دینے والی آنکھیں  نہیں بلکہ خوف زدہ کر دینے والی آنکھیں  بے حد روشن چمکیلی اور گہری سیاہ مقناطیسی کشش لئے لمحہ بہ لمحہ مسکراتی آنکھیں۔
یہ وہ مرتضیٰ حیدر نہیں تھا جسے اس نے پرسوں کڑکتی دوپہر میں ڈیرے کی کچی پکی سڑک پر دیکھا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی مرتضیٰ حیدر تھا۔ آنکھوں میں غرور کی چمک لئے  تفاخر سے بیٹھا اس کے پل پل بدلتے چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا انہی گہری لمحہ بہ لمحہ مسکراتی آنکھوں سے۔
اس نے ان آنکھوں کے بارے میں کہیں پڑھا تھا۔ وہ ایک انگریز غیر شہرت یافتہ غریب سا مصنف تھا جس کا خوش قسمتی سے ایک ناول کتابی شکل میں آ گیا تھا۔
اس ناول کے عنوان کا صفحہ بھی پھٹ چکا تھا۔ یہ ناول اُسے آنٹی ڈیزی کے اسٹور سے بڑی خستہ حالت میں ملا تھا۔
اس ناول میں روم کے کسی شہزادے کا ذکر تھا۔ ناول میں شہزادے کے حسن کی بہت تعریف کی گئی تھی۔ خصوصاً اس کی آنکھوں کی… ان آنکھوں میں بھی دنیا کو سکندر اعظم کی طرح فتح کر لینے کی چمک تھی مگر وہ روم کا شہزادہ محبت میں ناکام ہو گیا تھا اور اس ناکامی نے اس کے دل کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔
اس نے ایک مرتبہ پھر ڈرتے ہوئے نگاہ اٹھائی۔ مرتضیٰ کی آنکھوں میں بھی کچھ انوکھی سی چمک تھی۔ اگرچہ اب وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔
”مجھے اس سے خوف محسوس ہو رہا ہے کیا؟“ اس نے خود سے سوال کیا اور پھر بے ساختہ نفی میں سر ہلایا۔
”ہرگز نہیں۔“ اشفا نے یقین سے سوچا۔
”تو یقینا یہ اس کی شخصیت کا رعب ہے؟“ ایک اور سوالیہ نشان ذہن میں روشن ہوا تو وہ چپ سی رہ گئی۔
”مجھے سر تاپا دیکھ کر اگر تسلی کر لی ہے تو کچھ کہوں…“ انداز اجازت لینے والا نہیں تھا نہ ہی طنز بھرا تھا مگر اشفا کو یوں محسوس ہوا کہ وہ ایسے بہت کچھ جتا گیا ہے۔
”تم میرے اس کمرے میں آنے کی توقع نہیں کر رہی تھیں یقینا۔“ اس کا انداز ناقابل فہم تھا۔
”مگر افسوس میں نے ہمیشہ دوسروں کی توقعات کے خلاف کام کیا ہے۔“ اس نے دوسروں کہہ کر ایک مرتبہ پھر اسے جتایا تھا۔
”تمہارے نزدیک یہ شادی بہت آناً فاناً ہوئی ہے مگر یہاں سب لوگ پچھلے تین چار مہینوں سے تیاریاں کر رہے تھے۔“ اشفا کے اعصاب ڈھیلے پڑ رہے تھے۔ وہ یوں بول رہا تھا گویا روٹین کی باتیں ہوں۔ شاید اسی لئے اشفا کے بھی ذہن نے کام کرنا شروع کر دیا تھا اور اسے اپنے ساتھ ہونے والے تمام مظالم ایک مرتبہ پھر یاد آ گئے اور ساتھ ہی تنفر کی ایک تیز لہر من میں اٹھی۔
”میرے نزدیک اس رشتے کی سرے سے نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی میں نے اس شادی کو تسلیم کیا ہے۔“
”تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم نے نکاح نامے پر دستخط کر دیے یہی بہت ہے۔ مسئلہ تو تب بنتا جب تم انکار کر دیتی اور پھر مجھے گن پوائنٹ پر تم سے سائن کروانے پڑتے۔ اپنی عزت اور انا کا سودا میں کسی حال میں بھی نہیں کرتا۔
“ اس کا لب و لہجہ کافی سخت تھا اور آواز دھیمی۔
”میں انکار بھی کر سکتی تھی۔“ اشفا ایک دم پھنکاری۔
”پھر کیا کیوں نہیں۔“ وہ ہی سخت لہجہ اور دھیمی آواز۔
”ماما اور پاپا کی وجہ سے  مگر تم مجھے بزدل یا ڈرپوک مت سمجھنا۔ میں صرف اور صرف مجبور ہو گئی تھی۔“
”بزدل  ڈرپوک۔“ مرتضیٰ ابھی تک سامنے لگی پینٹنگ کو ہی بغور دیکھ رہا تھا۔
اس کی بات سن کر مصنوعی حیرانی سے دہرانے لگا۔
”اچھا  تو تم بہت بہادر ہو۔“
”مجھے تم سے  تمہارے اس گھر سے شدید نفرت ہے۔ میرا بس چلے تو میں تمہیں شوٹ کر دوں۔“ اشفا ایک مرتبہ پھر چلائی۔ وہ اسی طرح چلا چلا کر مرتضیٰ پر ظاہر کر دینا چاہتی تھی کہ وہ اسے قطعاً پسند نہیں کرتی اور یہ کہ وہ اپنی حدود میں رہے۔
”اس نفرت کی کوئی خاص وجہ۔
“ وہ گویا اس کی ہر بات کا مذاق اڑا رہا تھا۔ انداز بھی کافی پرسوچ تھا۔ اشفا آگ بگولا ہو گئی۔
”تم میرا آئیڈیل نہیں ہو۔“
”تمہارا آئیڈیل کیا ہے؟“
”وہ میں تمہیں کیوں بتاؤں؟“اس نے بھرپور تنفر سے غصیلے لہجے میں کہا تو مرتضیٰ نے نگاہوں کا زاویہ بدلا۔
”اتنا اونچا مت بولو کہ مجھے بھی جواباً آواز بلند کرنی پڑے۔“
”بولوں گی  ضرور بولوں گی۔
تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے۔ اتنی غیرت ہوتی تو اتنا سب کچھ سننے کے بعد اس کمرے سے اٹھ کر چلے جاتے مگر تم جیسے…“
”بس…“ وہ اس قدر بلند آواز میں بولا تھا کہ اشفا کا دل لرز کر رہ گیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا تو اشفا نے خود کو داد دینی چاہی۔
”مجھے ایسا پہلے ہی بول دینا چاہئے تھا۔“ اشفا نے مسرت بھرے انداز میں سوچا۔ مرتضیٰ تیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ جان بوجھ کر لاپروا بن گئی۔
وہ باہر نہیں گیا تھا بلکہ کمرے میں دو تین قدم چل کر رکا۔ شاید اپنے غصے کو کنٹرول کر رہا تھا۔ لیکن یہ اشفا کی خام خیالی تھی۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا پھر اس نے جیب میں سے موبائل نکال کر کسی مکرم جان سے بات کی۔ موبائل آف کرکے اس نے صوفے پر پھینکا اور بولا۔
”عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں بلکہ مردانگی کی توہین ہے۔“ وہ آہستہ آہستہ چل کر اس کے قریب آیا۔
اس کی نگاہیں اس کے سراپے پر تھیں۔ اشفا نے پلکیں اٹھا کر دیکھا اور پھر دیکھتی رہ گئی۔ وہ ہی ساکت کر دینے والی سیاہ آنکھیں  نہ جانے اس کی آنکھیں اتنے رنگ کیوں بدلتی تھیں۔
”جو مرد عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ وہ میری ڈکشنری میں بزدل مرد ہوتے ہیں۔ اس کمزور مخلوق جو آپ کے رحم و کرم پر ہے اور صرف زبان ہی چلا سکتی ہے اس پر ہاتھ اٹھانا کہاں کی بہادری ہے۔
“ اب وہ اس کے قریب بیٹھ چکا تھا۔ اشفا دم بخود سی رہ گئی۔
”میں تمہیں صرف زبان سے سمجھانا چاہتا ہوں اور تم بھی اچھی بیویوں کی طرح صرف زبان کی بات سمجھنا۔“ مرتضیٰ نے بہت سہولت سے اس کا سادہ بغیر مہندی لگا دودھیا گداز ہاتھ پکڑ کر بغور دیکھا اور بولا۔
”جو کچھ ابھی کہہ چکی ہو اسے میں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کرتا ہوں۔
آئندہ کبھی تمہاری زبان پر یہ الفاظ نہ ہوں۔“ وہ دھیمی آواز اور رعب دار لہجہ۔
”میرا ہاتھ چھوڑو۔“ وہ انتہائی بدتمیزسے بولی تھی۔
”آئندہ تم کبھی اس انداز میں بات بھی نہیں کرو گی۔“ اس نے دائیں ہاتھ سے اس کا چہرہ تھاما اور بایاں بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کرکے گویا اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ اشفا کا دل خوف سے کانپ اٹھا تھا۔
”میں اپنی باتیں بار بار دہرانے کا عادی نہیں ہوں۔“
اشفا نے اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کیں۔ وہ پیچھے ہٹنا چاہ رہی تھی مگر صرف پھڑپھڑا کر رہ گئی۔
###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi