Episode 10 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 10 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

دیکھو مجھے چھونا نہیں  ہاتھ نہیں لگانا مجھے پلیز چھوڑو۔“ بے ربط سے چند جملے اس کے سرخ لبوں سے آزاد ہوئے تو اک مضبوط ہاتھ نے اس کے لبوں کو ایک دوسرے میں پیوست کر دیا۔ خوف اور اس کے ہاتھ کی سختی کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور تمام دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔
”ڈیئر اشفا! میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو احمقوں کی طرح اپنے حق سے زبردستی نگاہ چرا لیتے ہیں۔
محض تم جیسی سرکش عورتوں کی وجہ سے تم مجھے بہت مختلف پاؤ گی۔ میں دوسروں کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہوں تو اپنے اس جائز اور حسین حق سے کیسے دستبردار ہو جاؤں۔ تم خوب صورت ہو اور تمہارا شوہر ہونے کے ناتے میں تمہیں ضرور سراہوں گا۔“ وہ اشفا کے خوب صورت نقوش کی نرماہٹوں کو محسوس کرتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا تو اشفا دبی دبی آواز میں چیخی۔

(جاری ہے)

”تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔“
”میں نے کہا نا کہ اپنے لب و لہجے پر کنٹرول کرو ورنہ نتائج کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔“مرتضیٰ نے اس کے خوبصورت بالوں کو جھٹکا دیا تو وہ درد سے بلبلا اٹھی۔
”وحشی بے ہودہ  جنگلی انسان۔“
”کچھ اور بھی کہہ دو۔“ وہ اس کی شدتوں سے گھبرا کر ایک دم ہی گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی تھی۔
صبح وہ کمرے میں تنہا تھی اور مرتضیٰ نہ جانے کہاں تھا۔ اس کی تمام جیولری سامنے رکھے ٹیبل پر پڑی تھی۔ وہ اُٹھی تو ایک دم ہی گردن سے ٹیس سی اٹھی۔ دونوں کلائیوں میں موجود چوڑیاں غائب تھیں اور کلائیوں میں بھی چبھن ہو رہی تھی۔ وہ واش روم سے باہر آئی تو ایک مرتبہ پھر رات کے مناظر آنکھوں کے سامنے لہرائے۔ اس نے بیڈ پر بیٹھ کر ایک دفعہ پھر دھواں دھار رونا شروع کر دیا تھا۔
”اس نے مجھے ہاتھ لگایا تو میں اس کے ہاتھ توڑ دوں گی۔“اپنے ہی کہے الفاظ اس کا منہ چڑا رہے تھے۔ تمسخر اڑا رہے تھے۔
”بہت برے ہو مرتضیٰ تم  بہت گھٹیا اور کمینے۔“ اس نے غصے کے عالم میں اپنے بال نوچ ڈالے۔ اسی پل دروازے پر دستک ہوئی اور ماما کی آواز بھی سنائی دی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ماما کے ساتھ خوب لڑے جھگڑے مگر نہ جانے کیوں انہیں سامنے پاکر اس کے لبوں پر قفل لگ گئے تھے۔
نمرہ اور ثانیہ اس کیلئے ناشتہ لے آئی تھیں۔ تائی امی اور دادی اس کے واری صدقے جا رہی تھیں۔ اسے ان سب کی محبتیں دھوکہ اور دکھاوا محسوس ہو رہی تھیں۔
”اگر یہ میرے اپنے ہوتے تو میری خواہشات کا احترام کرتے۔“ وہ اپنی سوچوں میں الجھی تھی جب ثمینہ چاچی کمرے میں داخل ہوئیں۔ تائی امی اور ثمینہ چاچی سگی بہنیں بھی تھیں۔ اسی لئے وہ تائی امی کو بھابھی کی بجائے آپا کہتی تھیں۔
چاچی نے جب تائی امی کی توجہ اشفا کے روکھے آرزدہ انداز کی طرف مبذول کروائی تو اشفا بھی ایک دم ٹھٹک گئی تھی۔
”کیا یہ لوگ میرے چہرے پر لکھی تحریر کو پڑھ رہے ہیں۔“ اسے ایک دم سبکی کا احساس ہوا تھا۔ تبھی چاچی تنہائی پاتے ہی اس کے قریب آ بیٹھیں۔
”زبردستی کے رشتے بھی کبھی پائیدار ہوتے ہیں۔ بھائی جان اور ہارون بھائی کو تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہئے تھی۔
مجھے تو حیرت عطیہ بھابھی کے رویے پر ہے انہیں تو کم از کم ماں ہونے کے ناتے تمہارا ساتھ دینا چاہئے تھا۔ مگر وہ تو خود ہی…“انہوں نے معنی خیزی اندازسے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اس کی سوچوں کو ایک نیا رخ دے کر وہ خود تو اٹھ گئیں جب کے اشفا تھک ہار کے تکیے میں سر دیئے بے سدھ ہو گئی۔
###
”ماما! آپ مجھے چھوڑ کر چلی جائیں گی۔
”اشفا! کیا بچپنا ہے یہ۔ سب لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں اور انہیں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ تمہاری یہ خوش قسمتی ہے کہ تم اپنے اصل گھر میں اپنوں کے درمیان رہو گی اور پھر مجھے مرتضیٰ کی طرف سے بھی کافی اطمینان ہے۔ وہ تمہارا بہت خیال رکھے گا۔ جانا تو ضروری ہے نا۔“
”بڑا خیال رکھتا ہے وہ تو مجھے پتا ہے کہ…“ وہ ماما کے سمجھانے پر کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی۔
”ماما! آپ مجھے ان جنگلی لوگوں میں چھوڑ کر جا رہی ہیں۔“
”اشفا! کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کہ سوچ سمجھ کر بولا کرو۔“ عطیہ نے خفگی سے اسے گھورا اور پھری نرمی سے بولیں۔
”دیکھو بیٹا! اب تم شادی شدہ ہو چکی ہو۔ اپنے شوہر اور اس گھر میں دل لگاؤ۔ اب تمہیں یہیں رہنا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ میری بیٹی کو شاد آباد کرے اور جلد ہی تمہاری گود بھر جائے۔
اگلی دفعہ جب میں آؤں تو اپنی بیٹی کو اتنا مصروف پاؤں کہ میرے لبوں پر یہ شکایت رہے کہ اشفا ہمیں وقت نہیں دے رہی۔“ انہوں نے اس کی پیشانی کو چوم کر گلے سے لگایا۔
”اپنی ماما اور پاپا کے متعلق جو بدگمانیاں ہیں انہیں ختم کر دو بیٹا صرف یہی سوچ کر کہ ماں باپ اولاد کا صرف بھلا ہی چاہتے ہیں۔“ اشفا کو اگر پتا ہوتا کہ یہ اس کی ماں کا آخری پیار ہے اس کیلئے تو وہ کبھی ماما کو جانے ہی نہ دیتی پاپا کو روک لیتی۔
مگر انسان اپنے رب کے فیصلوں کے سامنے بے بس ہے۔
ایک دم اتنا بڑا صدمہ اتنا بڑا غم… والدین کی دائمی جدائی وہ بالکل ہی ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔اسے اب محسوس ہو رہا تھا کہ والدین کا سایہ کتنا ضروری ہوتا ہے۔
اسلام آباد جاتے ہوئے ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ صرف چند گھنٹوں میں ہی زندگی کا تعلق ٹوٹ گیا۔ وہ ان کے بے جان جسموں سے لپٹ لپٹ کر کس قدر روئی تھی۔
اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس کے ماں باپ کو اس کی شادی کرنے کی کیوں جلدی تھی۔ وہ اسے مضبوط سائبان دے کر خود مطمئن ہو گئے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کے مستقبل کو محفوظ کر گئے تھے۔ انہیں بہت جلدی تھی اپنے آخری سفر پر جانے کی۔ انہیں بہت جلدی تھی کہ اشفا اپنے گھر بار کی ہو جائے۔ زمانے کے بے رحم چھیڑے ان کی نازک سی بیٹی کو توڑ پھوڑ نہ دیں۔
مرتضیٰ  نمرہ ثانیہ سب کی دلجوئی بھی اس کے اس عظیم صدمے کو ختم نہیں کر سکی تھی۔
دادی اپنے بیٹے کی میت کو دیکھ کر بالکل ہی نڈھال ہو گئی تھیں۔ تایا ابو کے کندھے جھک گئے تھے۔ وہ سب غمزدہ تھے مگر اشفا کو اپنا غم سب سے بھاری لگتا۔
آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ہی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے تھے ایک وہ ہی تھی جسے کسی پل سکون میسر نہیں تھا۔
عاشر یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرنے لگا تھا۔
عامر ابھی تک زیر تعلیم تھا اور پڑھائی کے سلسلے میں شہر میں مقیم تھا۔ کبھی کبھار چھٹیوں میں یہ دونوں بھائی گھر آتے تو خوب ہی رونق سی ہو جاتی۔
دادی اشفا کو بھی کمرے سے باہر لے آتیں۔ ان کے جانے کے بعد پھر ہر طرف سکوت سا طاری ہو جاتا۔ مہوش اور عروبہ کبھی اپنے پورشن سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ ثمن سائرہ اور نمرہ ثانیہ ہمہ وقت اس کی دلجوئی کیلئے تیار رہتیں۔
گھر میں اگر یہ لڑکیاں نہ ہوتیں تو بالکل ہی اس گھر میں اُلو بولتے۔ مرتضیٰ اکثر ڈیرے پر ہی رہتا تھا کبھی کبھار جب ضرورت محسوس ہوتی تو گھر آتا۔ یہ اس کی روٹین تھی اور اسے بدلنا بہت مشکل تھا۔
تائی امی اور دادی کے بہت مرتبہ کہنے پر بھی اس نے اپنی روٹین نہیں بدلی تھی۔ وہ ہی بے رنگ سے شب و روز تھے اور وہ ہی اشفا کی سب سے اوّل روز کی طرح بے زاری۔ مرتضیٰ کی خوش مزاجی اسی طرح قائم دائم تھی اور اشفا کی بے زاریت عروج پر۔ بس اتنا فرق تھا کہ وہ اب مرتضیٰ کے سامنے تڑتڑ نہیں بولتی تھی۔ اوّل روز کا جو اک رعب و دبدبہ سا اس کے دل پر طاری ہو گیا تھا ابھی تک قائم تھا۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi