Episode 11 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 11 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

ہفتے کے روز مرتضیٰ کی گھر میں موجودگی سب کیلئے باعث حیرت تھی۔ اس روز عجیب بات یہ ہوئی کہ مہوش بھی اپنے پورشن سے تشریف لے آئی۔ اشفا کی توجہ بھی نمرہ نے اس طرف دلائی تھی۔
”آج لالا دن کے وقت گھر میں ہیں تو یہ محترمہ بھی اپنے بل سے باہر نکل آئی ہیں۔“ ثانیہ اور سائرہ کچن میں مصروف تھیں۔ بہت ہی مزے دار پکوانوں کی خوشبو اشفا کو بھی کچن میں کھینچ لائی تھی۔
”یہ کس کیلئے اتنا خاص اہتمام ہو رہا ہے؟“ اشفا نے لاپرواہی سے ایک گرما گرم کباب اٹھاتے ہوئے پوچھا تو نمرہ فوراً بولی۔
”آج آپ کے شوہر نامدار ہمارے ساتھ کھانا کھانے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں اسی سلسلے میں تیاریاں عروج پر ہیں۔“
”بھابھو! لالہ تمہیں بلا رہے ہیں۔“ ثمن نے کچن میں جھانک کر اشفا سے کہا اور کباب اٹھا کر بھاگ گئی۔

(جاری ہے)

ثانیہ ارے ارے ہی کرتی رہ گئی تھی۔ اشفا کا حلق کڑوا سا ہو گیا۔ وہ ادھ کھایا کباب پلیٹ میں رکھ کر بے دلی سے اوپر آ گئی۔
”آپ نے بلایا ہے۔“ انداز لٹھ مارنے والا تھا۔ مرتضیٰ جواب دینے کی بجائے اسے دیکھتا رہا۔ اشفا اس کے مسلسل دیکھنے پر جھنجھلا سی گئی تھی۔
”کوئی کام تھا مجھ سے۔“
”ضروری تو نہیں کہ بیوی کو کام کے سلسلے میں ہی بلایا جائے۔
”آپ تو ہمیشہ کام کے سلسلے میں ہی آواز دیتے ہیں یا پھر مطلب…“اشفا نے ایک دم ہی زبان دانتوں تلے دبا کر بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ مقابل کی آنکھیں اس پل کیسے جگمگ کر رہی تھیں۔اشفا نے آج تک اسے مسکراتے نہیں دیکھا تھا کیونکہ یہ کام اس کی آنکھیں بخوبی سرانجام دے دیتی تھیں۔
”یعنی کہ تم کہنا چاہتی ہو کہ میں بہت مطلبی ہوں۔“وہ لفظوں کو پکڑنے کے فن سے آشنا تھا اشفا تو کہہ کر پچھتائی۔
”میں جاؤں۔“
”میں نے تمہیں جانے کی ابھی اجازت نہیں دی۔ یہاں بیٹھو۔“ اشفا مرے مرے قدم اٹھاتی بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی تھی۔
”اگر تمہیں تین چار چیزوں میں اختیار دے دیا جائے تو تم کس چیز کا انتخاب کرو گی۔ دولت رشتے  آزادی یا پھر محبت۔“
”یہ کیسا سوال ہے۔“ وہ الجھی۔
”یہ بہت اہم سوال ہے۔“
”میں آزادی کا انتخاب کروں گی۔
“ اشفا نے جھٹ سے کہا۔
”وجہ۔“
”کیونکہ دولت تو میرے پاس پہلے سے موجود ہے اور …“ وہ سوچنے لگی تو مرتضیٰ آہستگی سے بولا۔
”اور رشتوں اور محبت کی تمہیں ضرورت نہیں لہٰذا آزادی تمہارا انتخاب ہو گی اور وہ بھی مجھ سے۔“
”آپ عقلمند ہیں۔“ اس نے کافی کھلے دل سے سراہا تو مرتضیٰ نے کہا۔
”تم بے عقل  احمق اور بے وقوف ہو۔
“ اشفا کا منہ بن گیا تھا اور غصہ بھی شدید آیا مگر پی گئی۔ زیادہ بولنے کا خمیازہ وہ بھگت چکی تھی۔
”چھوڑو ان باتوں کو میرا سر دباؤ۔ جب بھی پاس بیٹھتی ہو سر میں درد ہونے لگتا ہے۔“ اشفا اس نئے حکم پر جی بھر کے تلملائی تھی۔
”گلا نہ دبا دوں۔“ اس نے تنفر سے سوچا۔
”زور سے دباؤ…“مرتضیٰ نے اس کے ہاتھ کو سختی سے مروڑا تو وہ چلا اٹھی۔
”چھوڑیں میرا ہاتھ۔“
”اگر نہ چھوڑوں تو…؟“ اس نے ایک مرتبہ پھر اشفا کا نازک ملائم ہاتھ دبایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
”آپ بہت برے ہیں۔“ وہ زور زور سے سر دباتے ہوئے بولی۔
”اچھا…“
”بہت ظالم بھی ہیں۔“
”یہ نئی اطلاع ہے۔“
”بہت بدماغ اور غصیلے ہیں۔“
”میری خوبیوں کے متعلق تمہارے پاس کس قدر جامع معلومات ہیں۔
“ مرتضیٰ نے اسے سراہا۔
”میرا بس چلے نا…“
”تو تم میرا سر دبانے کی بجائے گلا دبا دو۔“ مرتضیٰ نے اپنے ماتھے پر رکھے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر گرفت میں لے کر اک نرم سا بوسہ دیا۔ وہ جھنجھلاتے ہوئے پیچھے ہٹی۔
”اپنی حد میں رہیں۔“
”میری حدود کا تعین کر دو۔“ بڑی دلربائی سے کہا گیا۔
”آپ خاموشی سے سر دبوائیں میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش نہ کریں۔
“وہ ایک ناقابل برداشت کام جانے کیسے دل پر پتھر رکھ کے کر رہی تھی۔ مرتضیٰ کو کافی اطمینان ہوا۔ وہ اسے چڑا کر دلی سکون محسوس کرتا تھا۔
”تو کیا پڑوسیوں کی خواتین سے فری ہونے کی کوشش کروں۔“ اس کا موڈ بدل رہا تھا۔اشفا کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔
”میں جاؤں۔“
”اوں ہوں… یہاں لیٹو۔“ مرتضیٰ نے اپنے برابر جگہ بنا کر اسے زبردستی جھٹکا دے کر لٹایا تو وہ چلا اٹھی۔
”آپ بہت بے ایمان ہیں۔“
”کبھی تعریف بھی کر دیا کرو۔“وہ اس کی دسترس میں قیدی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔
”مرتضیٰ آپ…“ اشفا نے غصے سے اپنا سر اس کے کندھے سے دے مارا۔ پھر دو تین مرتبہ اس نے یہی عمل دہرایا۔ اس نے کروٹ کے بل تھوڑا سا سر اٹھا کر اشفا کے غصیلے چہرے کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔ اشفا حیران حیران سی اسے مسکراتا دیکھتی رہی اور پھر اس کی پیش قدمی پر دانت پیس کر رہ گئی۔
###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi