Episode 12 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 12 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”کبھی اس حجرے سے باہر بھی نکل آیا کرو۔“ آج ہفتے بعد اسے پھر گھر کی یاد آئی تھی اور آتے ساتھ ہی اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔
”کوئی اچھے کپڑے نہیں ہیں تمہارے پاس۔“ اس کے قدرے بے رنگ سے سلوٹ زدہ گلابی کاٹن کے کپڑوں کو انتہائی ناگواری سے دیکھا گیا تھا۔
”آپ تو روزانہ مجھے شاپنگ کرواتے ہیں۔“ اشفا تنک اٹھی تھی۔
”اور یہ جو الماری بھری پڑی ہے یہ کپڑے کیا ہوئے۔
”اب میں اس حالت میں یہ ریشمی بھاری سوٹ پہنوں۔“ اس نے بھی تیزلہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے لا دوں گا کسی دن۔“ مرتضیٰ نے جان چھڑوانے والے انداز میں کہا تو وہ تپ اٹھی۔
”میں نے منت نہیں کی کہ مجھے نئے کپڑے لا کر دیں۔“
”بہت بولتی ہو تم۔“ مرتضیٰ قدرے بھنایا۔ ”ایک سوال کرو تو دس جواب ملتے ہیں۔

(جاری ہے)

”نہیں بولتی  منہ پر ٹیپ لگا لیتی ہوں پھر خود ہی میری جان کھائیں گے کہ خاموش کیوں ہوں میں۔
”بہت نخرے دکھانے لگی ہو۔“ مرتضیٰ نے پرسوچ انداز میں کہا تو وہ بلبلا اٹھی۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں لہٰذا اللہ کیلئے مجھے آرام کرنے دیں۔“
”لیں میں نے کب ملکہ عالیہ کے آرام میں خلل ڈالا ہے۔“ مرتضیٰ مصنوعی حیرت سے بولا۔ وہ سر تک چادر تان چکی تھی۔ مرتضیٰ گہری سانس کھینچتا لائٹ آف کرکے باہر نکل گیا۔
رات کو اس کی واپسی ہوئی تو ہاتھ میں ڈھیروں شاپرز تھے۔
ایک شاپر نمرہ اور ثانیہ کو دوسرا سائرہ اور ثمن کو جبکہ باقی شاپرز اشفا کے کمرے میں بھجوا دیئے گئے۔ ساتھ میں اسے باہر آنے کا آرڈر بھی دیا گیا۔
کچھ دیر بعد وہ منہ پھلائے آ گئی تھی۔ مرتضیٰ کہیں جانے کیلئے تیار بیٹھا تھا۔ دادی نے اسے آتا دیکھ کر محبت سے کہا۔
”جا دھی رانی میر پتر تجھے کہیں گھما پھرا لائے سارا دن گھر میں چپکی پڑی رہتی ہو۔
“ یقینا دادی نے سفارش کی تھی تبھی شہزادہ عالم اس کی ذات پر احسان کرتے ہوئے اسے باہر آنے کا کہہ کر خود چلے گئے۔
اشفا بھی جلتی بھنتی اس کے پیچھے آ گئی تھی۔
”کیا ضرورت تھی اس احسان کی۔“ وہ زیادہ دیر کہاں خاموش رہ سکتی تھی۔
”کون سا احسان…؟“ مرتضیٰ نے حیرانی سے سوچا اور پھر سمجھنے والے انداز میں بولا۔
”اوہ اچھا… ایسے چھوٹے موٹے احسانات ہم کرتے ہی رہتے ہیں۔
“ انداز بھرپور شاہانہ تھا۔ وہ جل کر رہ گئی۔
ڈیرے کے قریب گاڑی رکی تو مکرم جان نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔یہ مرتضیٰ کا ملازم خاص تھا۔ ڈیرے پر ہی اس کی بھی رہائش تھی… مرتضیٰ نے مکرم کو کچھ ہدایات دیں اور پھر اس سے مخاطب ہوا۔
”آج تمہیں اپنی فیورٹ شخصیت سے ملواتا ہوں۔“
”نہ جانے کون ہے؟“ اشفا کو تجسس نے گھیرا۔
کچھ دیر بعد گاڑی ایک جھگی کے قریب رکی اور اس جھگی میں سے ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔
”راجہ حسن دا کنج راہ بھل آیا ہے۔“ (حسن کا راجہ کیسے راستہ بھول آیا ہے۔)
”مائی میرا! یہ اشفا ہے میری بیوی۔“ مرتضیٰ نے تعارف کروایا تو مائی کھل سی اٹھی۔
”ماں واری! سوہنی ہے رج کے سوہنی۔“
اشفا کو اس بوڑھی کی باتیں سن کر بہت لطف آیا تھا۔ اس نے مائی کی بنائی مچھلی کو بھی بہت شوق سے کھایا۔ وہ اک خوبصورت شام گزار کر واپس آئی تو موڈ کافی خوشگوار تھا۔
راہداری میں ہی مہوش سے ٹاکرا ہو گیا۔ وہ انہیں دیکھ کر اک تنفر سے بھری نگاہ ڈالے بڑے کمرے میں گھس گئی تھی۔
انہی دنوں نجمہ پھوپھو نے ثانیہ کو اپنے بیٹے عاشر کیلئے مانگ لیا تو گھر میں شادی کے شادیانے گونج اٹھے۔
”لوگ کافی چھپے رستم نکلے ہیں۔“ نمرہ مسلسل ثانیہ کو چھیڑ رہی تھی۔
”بکواس نہیں کرو۔“ وہ شرمائی شرمائی بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔
پہلی مرتبہ اشفا نے بھی گھریلو امور میں دلچسپی لی تو تائی امی اور دادی خوشی سے کھل اٹھیں۔
عامر اور نقی  تقی کی آمد کے ساتھ گھر میں مزید رونق ہو گئی تھی۔ یہ سب ڈھولکی پر الٹے سیدھے گانوں کی پریکٹس کرکے نہ جانے کون کون سے شہرت یافتہ سنگرز کی روحوں کو تڑپاتے۔ اس فنکشن میں بھی مرسلین چچا کی فیملی دور دور رہی تھی۔ مہوش نے سرے سے شرکت ہی نہیں کی تھی البتہ عروبہ گھڑی دو گھڑی کیلئے اپنی والدہ کے ہمراہ آئی تھی۔
شادی کے ہنگامے سرد پڑے تو زندگی معمول پر آ گئی۔ پورے دو ماہ بعد اس نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا تو گھر میں گویا خوشیوں کی بارات اتر آئی۔
تائی امی اور دادی نہال سی غریبوں میں مٹھائیاں اور پیسے تقسیم کر رہی تھیں۔ ایک ہفتے بعد اس کے بیٹے کا شاندار عقیقہ کیا گیا تھا جس میں پورے خاندان نے شرکت کی۔
یہ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد کی بات ہے جب ایک رات اشفا نے مہوش کو بری طرح روتے دیکھا وہ اس قدر تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی کہ اشفا کا دل پسیج گیا۔
وہ انسانی ہمدردی کے ناتے اس کے قریب گئی تو مہوش نے اسے ایک عجیب سی داسان سنا ڈالی۔
اشفا گم سم سی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔
”کیا یہ سچ ہے؟“
”میری آنکھوں میں دیکھ لو۔“ وہ زخمی لہجے میں بولی۔ اشفا حیرت زدہ سی رہ گئی۔ ان آنکھوں میں رتجگوں کے اتنے عذاب تھے کہ اشفا کو اپنا دل پگھلتا محسوس ہوا۔ یہ عشق تھا یا جنون  اشفا سمجھ نہیں پائی تھی۔
کیا محبت میں کوئی اس قدر پاگل ہو جاتا ہے۔
”تو پھر میں کیا کر سکتی ہوں؟“
”تم ہی تو سب کچھ کر سکتی ہو اگر چاہو تو۔“ مہوش نے لہو رنگ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
”میں کیا کروں؟“ اشفا حیران ہوئی۔
”تم چلی جاؤ کہیں دور بہت دور  واپس امریکہ۔“
”امریکہ…“ بہت عرصے سے دلی خواہش کو مہوش نے زبان دے ڈالی تھی۔
”تم بیچ میں نہیں آتیں تو آج مجھے یوں سسکنا نہ پڑتا۔
تمہارے سامنے تو دنیا پڑی تھی اور میرے لئے پوری دنیا صرف مرتضیٰ تھا۔“ وہ رو رہی تھی۔ اس کے آنسو اشفا کے دل پر گر رہے تھے۔
”عطیہ چاچی اور ہارون چچا نے تایا ابو کو مجبور کیا تھا کہ وہ تمہارا رشتہ دیں۔ اگر تایا اور ابو ہارون چچا کو زبان نہ دے چکے ہوتے تو یہ جنگ میں جیت جاتی مگر… تم بیچ میں آ گئیں۔ میری محبت اور خوشیوں کے درمیان دیوار تم بنی تھیں۔
مرتضیٰ بھی مجبور ہو گیا تھا ورنہ وہ کبھی بھی تم سے شادی نہ کرتا۔ تایا ابو کی کسی بات سے  کسی حکم سے آج تک اس نے سر نہیں اٹھایا تو اس معاملے میں کیسے بول پڑتا۔ اس نے بھی قربانی دے ڈالی مگر نقصان صرف میرے حصے میں آیا۔ سارے عذاب میرے لئے ہیں سارے غم میری جھولی میں آ پڑے ہیں۔ سارے کرب سارے درد مجھ سے چمٹ گئے ہیں۔“ وہ کرلا رہی تھی اور اشفا ساکت سی اسے دیکھتی رہ گئی۔
”محبت کے اس سفر میں میں اکیلی تھوڑی تھی مرتضیٰ بھی میرے ہم قدم تھا۔ مجھے اس مقام پر لاکر اس نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔وہ سب کچھ پا چکا ہے اور میں خالی دامن رہ گئی۔“ مہوش کی سسکیاں رات بھر اس کے کانوں میں گونجتی رہیں۔ اسے آج وجہ معلوم ہوئی تھی کہ مہوش ابھی تک کیوں نہیں شادی کیلئے مانتی۔ ہر رشتے کو انکار مہوش کی طرف سے ہوتا تھا۔ اسے مرتضیٰ کی سنگدلی کا سوچ کر گھن آنے لگی تھی۔
اگر وہ ثابت قدم رہتا تو تایا ابو ضرور اس کی بات مان لیتے مگر وہ بھی سطحی سوچ والا کمزور مرد نکلا۔
خوب صورتی اور دولت کو ترجیح دینے والا۔ وہ مہوش سے زیادہ حسین تھی دولت مند اور تعلیم یافتہ تھی اور مرتضیٰ نے خسارے کا سودا تو ہرگز نہیں کیا تھا۔ ان تمام تلخ سچائیوں کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں دبا غصہ  اس کی نسوانی انا اور غرور کی وہ دھجیاں بھی تھیں جو اس کے ساتھ زبردستی کرکے ماما پاپا نے بکھیر ڈالی تھیں۔
کیا وہ اتنی گری پڑی تھی کہ ماما نے ہاتھ جوڑ کر تایا ابو کو رشتے کیلئے منایا۔ وہ ساری رات روتی رہی اور سوچتی رہی۔
اس نے مہوش کی بات ماننے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ وہ کوئی قربانی نہیں دے رہی تھی۔ وہ تو صرف اپنے اُمڈتے اشتعال پر بند باندھا چاہ رہی تھی۔ وہ ان سب سے اپنے ساتھ کی گئی زبردستی کا بدلہ لینا چاہ رہی تھی۔
وہ ان سب کو جتا دینا چاہتی تھی کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے مگر اس سب کے باوجود ماما پاپا نے خود سے رشتے کی بات کرکے اسے ہلکا کر دیا تھا۔ اسے یہ سب اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi