Episode 13 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 13 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

اگلی صبح اس نے مہوش کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔ مہوش نے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کا وعدہ کیا اور جس رات مرتضیٰ کسی کام کے سلسلے میں سندھ گیا اسی رات چپکے سے مہوش نے اس کی سیٹ کنفرم ہو جانے کی خوشخبری سنائی۔
”تم شازم کو یہیں چھوڑ دو۔“
”نہیں  ہرگز نہیں۔“ اشفا نے شدت سے اس کی بات کو رد کیا۔
”دیکھو اشفا ابھی شازم کو لے جانا مناسب نہیں۔
میں موقع کی تلاش میں رہوں گی اور بہت جلد شازم تمہارے پاس ہوگا۔ ابھی صرف تم یہاں سے نکلنے کی کرو۔ ڈرائیور تمہارا انتظار کر رہا ہے۔“
”مگر میرا بچہ۔“ اشفا کی ممتا بے چین تھی۔
”شازم اگر تمہارے پاس رہا تو مرتضیٰ تمہیں کبھی چین نہیں لینے دے گا۔ تم جانتی ہو وہ اپنے بچے سے کتنی محبت کرتا ہے۔

(جاری ہے)

“ مہوش جھنجلائی۔

”میں بھی تو شازم سے بے حد محبت کرتی ہوں۔
میں کیسے رہوں گی اس کے بغیر۔“ وہ رو دی تھی۔
”اشفا! میری بات سمجھو اور نکلنے کی کرو۔ تم واپس چلی جاؤ گی۔ یہی تھی نا تمہاری سب سے بڑی خواہش  تو پھر دیر مت کرو۔“
”مگر مہوش! تم سمجھ کیوں نہیں رہیں۔ میں شازم کے بغیر نہیں رہ سکتی۔“
”تو پھر ساری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزار دو  جو نہ تم سے محبت کرتا ہے نہ تمہاری عزت۔
جس کی زندگی میں تم زبردستی شامل ہوئی۔ اگر سمجھوتہ کرنا چاہتی ہو تو رہو اس زندان میں۔“ مہوش نے تلخی سے کہا۔
”اپنے ٹوٹے وقار کی کرچیوں کو سمیٹتی رہو۔ سب جانتے ہیں کہ تم ان چاہی ہو۔ تمہارے ماں باپ نے تایا ابو کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے کہ ان کی بگڑی بیٹی کو قبول کر لیں۔“ مہوش نے چنگھاڑ کر کہا تو اشفا کی ہمت جواب دے گئی۔ اب جو وہ فیصلہ کر چکی تھی اس پر سے ہٹنا بہت مشکل امر تھا اور یوں وہ مہوش کی باتوں کے جال میں پھنس گئی  وہ شیطان کے بہلاوے میں آکر اپنی جنت کو ٹھوکر مار آئی۔
وہ خود غرض بن گئی۔ اس نے اپنی انا پر ممتا کو قربان کر دیا۔ وہ اپنے دو ماہ کے شازم کو بلکتا چھوڑ آئی۔
امریکہ پہنچ کر اسے یوں لگا وہ ایک دم خالی خالی ہو گئی ہے۔ اس نے تمام رابطے توڑ دیئے  بس مہوش سے ہی کبھی کبھی فون پر بات ہوتی وہ بھی صرف شازم کیلئے ہی کہ اس کی خیریت کا پتا چلتا رہتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مہوش نے تمام نمبرز بدل دیئے تو وہ نام نہاد رابطہ بھی ٹوٹ گیا۔
یہاں آکر اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گھر اگرچہ بند تھا مگر اس کی حالت کافی خستہ تھی۔ سب سے بڑی پریشانی تو یہ تھی کہ ہوٹل پر کسی انڈین نے ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔ وہ انڈین پہلے ہوٹل کا منیجر تھا اور اب مالک بنا بیٹھا تھا۔ گھر بھی پتا چلا کہ اسی منیجر نے کسی اور انگریز کے ہاتھ فروخت کر ڈالا ہے اور وہ انگریز فیملی چھٹیاں گزارنے کسی اور شہر میں گئی ہے۔
اس تمام صورت حال نے اشفا کے اعصاب بے جان کر ڈالے۔ مرینہ سے رابطہ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دم حالات نے کروٹ بدلی تھی۔ اس نے سب سے پہلے ایک فلیٹ کرائے پر لیا۔ بینک سے رقم نکلوائی اور منیجر کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ ساڑھے چار سال مقدمہ کورٹ میں چلتا رہا اور بالاخر وہ ناصرف مقدمہ جیت گئی بلکہ منیجر انیل کو قید بامشقت کی سزا بھی سنا دی گئی اور جرمانہ بھی کافی سارا سے ادا کرنا پڑا۔
جس شام وہ مقدمہ جیت کر کورٹ سے نکلی اسی شام مقامی مارکیٹ میں اس سے مرینہ کی ملاقات ہوئی۔ وہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ ایک بڑی عمر کا صاف رنگت والا آدمی بھی تھا۔ مرینہ نے اس کا تعارف اپنا شوہر کہہ کر کروایا تو اشفا کو بے حد حیرانی ہوئی۔ اشفا نے دیکھا کہ مرینہ بے حد خوش ہے۔ اس کے چہرے پر اطمینان ہے اشفا کو دلی خوشی محسوس ہوئی۔
مرینہ سے ملاقات کے بعد اشفا کو احساس زیاں مزید کچوکے لگانے لگا۔
وہ جو کچھ کھو چکی تھی اسے امید نہیں تھی کہ وہ دوبارہ اس سب کو پالے گی۔ ایک دن وہ مرینہ کے پوچھنے پر پھٹ پڑی اور اس نے کتاب زیست کا صفحہ صفحہ اسے سنا ڈالا۔ مرینہ تاسف سے سنتی رہی اور جب بولی تو اس کے لہجے میں یقین تھا۔
”تم لوٹ جاؤ اشفا! تم اپنی کھوئی ہوئی خوشیوں کو پا لو گی۔“
”وہ بہت انا پرست ہے وہ مجھے کبھی قبول نہیں کرے گا۔
“ اشفا نے روتے ہوئے کہا۔
”ایک کوشش کر لینے میں کوئی حرج نہیں  پھر اس کے پاس تمہارا بچہ ہے۔“مرینہ نے اسے پاکستان بھیجنے کیلئے اور مرتضیٰ سے معافی مانگنے کیلئے تیار کر لیا۔ وہ بہت ہمت حوصلے اور امید کے دیے کو تھام کر پاکستان آئی تھی۔ مگر پہلے ہی قدم پر مہوش کے رویے نے اسے توڑ ڈالا تھا۔ وہ ابھی تک بے یقین سی بیٹھی تھی کہ یہ وہ ہی مہوش ہے۔
”مجھے معاف کر دیں دادی جان۔“ وہ ان کی گود میں سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
”تم نے ایسا کیوں کیا دھی رانی! کیا ہم سے کوئی غلطی ہو گئی تھی۔“ دادی کی بوڑھی آنکھیں بھی نم تھیں۔
”دادی جان! مجھے نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ میں کیسے شازم کو چھوڑ کر چلی گئی۔ آج بھی سوچتی ہوں تو دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔“ وہ شازم کو سینے سے لگائے رنجیدگی سے بولی۔
”مما! اب نہ جانا…“ شازم نے اپنے نرم منے سے ہاتھ کو ماں کے گال پر رکھ کر کہا تو وہ اس کی اس معصوم ادا پر مسکرا اٹھی۔ اسی پل ثانیہ بھی اپنے چھوٹے بیٹے کو اٹھائے چلی آئی۔
”توبہ یہ شازم بہت تیز نکلا۔ ماں کو دیکھ کر فوراً گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا ہے اس نے۔“ ثانیہ اسے ماں سے لاڈ کرتے دیکھ کر خوش دلی سے بولی۔
گھر میں پہلے سے ہی خوشگوار ہلچل سی تھی۔
تائی امی سے پتا چلا کہ نمرہ اور عامر کی شادی قریب ہے۔ پھوپھو نے دونوں بیٹوں کیلئے بھتیجوں کو مانگ لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب گھر میں بیٹیاں موجود ہیں تو باہر کیوں دیکھیں۔
عاشر اور ثانیہ لاہور میں مقیم تھے اور شادی کے سلسلے میں ہی ان کی آمد ہوئی تھی۔ عامر کو بھی آفس کی طرف سے گھر مل گیا تھا۔ شادی کے بعد نمرہ بھی لاہور شفٹ ہو جاتی۔
اس تمام عرصے میں سائرہ اور ثمن بیاہ کر کراچی اور ایبٹ آباد چلی گئی تھیں۔
مہندی سے ایک رات قبل ان کی آمد ہوئی تھی۔ اشفا کو دیکھ کر انہیں بھی خوشگوار حیرت نے گھیرا۔ اگرچہ سب اس سے بدگمان تھے  نہ جانے مہوش نے کیا بتا کر ان سب کو اس سے متنفر کیا تھا اور پھر اس کا اپنا عمل بھی قابل معافی نہیں تھا اس کے باوجود تایا ابو اور دادی نے اس کی تمام خطائیں معاف کر دیں۔
بس اک خوف تھا تو صرف مرتضیٰ کی طرف سے  نہ جانے اس کا رویہ کیا ہو۔ یقینا وہ اس دفعہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کر سکے گا۔
اس نے بہت ہمت اور اعتماد کے ساتھ شازم کے ہمراہ مرتضیٰ اور اپنے مشترکہ کمرے میں قدم رکھا تھا۔ اسے اپنے روٹھے پیا کو منانا تھا۔ اپنی غلطیوں کی معافی مانگنا تھی اور میر محمد مرتضیٰ حیدر کو بتانا تھا کہ وہ اس سے کتنی محبت کرنے لگی ہے۔
وہ جانتی تھی کہ مرتضیٰ اس کی کسی بات پر یقین نہیں کرے گا مگر پھر بھی وہ پراعتماد تھی۔
”وہ میری محبت سے کہاں تک بھاگے گا۔“ اس نے یقین سے سوچا۔
”مجھے اسے منانے کیلئے اگر گڑگڑانا بھی پڑا  اس کے قدموں میں جھکنا بھی پڑا تو میں جھک جاؤں گی۔“ وہ شازم کو سلاتے ہوئے مسلسل مرتضیٰ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ جوں ہی اس کی نگاہ شازم کے چہرے اور کھلی آنکھوں پر پڑی تو وہ چونک اٹھی۔
”آپ ابھی تک نہیں سوئے بیٹا۔“
”مما! نیند نہیں آ رہی۔“ شازم نے اس کے بازو میں سر گھسا کر باریک سی آواز میں کہا تو وہ اس کی پیشانی پر سے بال ہٹا کر چومتے ہوئے بولی۔
”کیوں نیند نہیں آ رہی مما کی جان کو۔“
”شازم بابا کے پاس سوتا ہے نا۔“ اس نے معصومیت بھری وجہ بتائی تو اشفا نے چونک کر دیکھا۔
”کیا بابا روزانہ گھر آتے ہیں رات کو۔“
”شازم کیلئے آتے ہیں  پھر جب شازم سو جاتا ہے پھر چلے جاتے ہیں۔“

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi