Episode 15 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 15 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

اگلا دن بارات کا تھا۔ بھرپور مصروفیت کا دن  اشفا تمام خیالوں کو جھٹک کر ثانیہ اور سائرہ کے ہمراہ مختلف کام سرانجام دے رہی تھی۔ آتے جاتے کبھی مرتضیٰ پر بھی نظر پڑ جاتی  مگر جس طرح وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا  یہ سب اشفا کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور توہین آمیز تھا۔ اشفا تو اس کی بھرپور محبت اور بے باک اظہار کی عادی تھی۔ اس سے مرتضیٰ کا یہ رویہ برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔

چونکہ فنکشن کی ارینج منٹ ہوٹل میں تھی۔ لہٰذا سب ہی تیار ہو کر گاڑیوں میں سوار ہوئے اور ہوٹل میں پہنچ گئے۔ آخر میں اشفا اور شازم تیار ہو کر نکلے تو پورا گھر بھائیں  بھائیں کر رہا تھا۔ اشفا نے شازم کو باہر بھیجا  تاکہ وہ دیکھ کر آئے کہ کوئی گاڑی موجود ہے۔ تھوڑی دیر بعد شازم منہ لٹکائے آ گیا۔

(جاری ہے)

”مما! گاڑی تو کوئی نہیں۔
اب ہم کیسے جائیں گے؟“
”اچھا۔ ٹھہرو میں عاشر سے فون پر بات کرتی ہوں۔“ اشفا نے خود کو تسلی دے کر عاشرکو فون کیا تو وہ سرعت سے بولا۔
”بھابھی! آپ تیار رہئے  مرتضیٰ بس پہنچنے ہی والا ہوگا۔“
”بابا ہمیں لینے کیلئے آ رہے ہیں۔“ اس نے شازم کو تسلی دی اور خود کچن میں مصروف ملازموں کو کچھ ہدایات دے کر صوفے پہ آ کر بیٹھ گئی۔
شازم بے چینی کے عالم میں اندر باہر کے چکر لگا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی کے ہارن سنائی دیا تو وہ اچھل کر بولا۔
”مما! جلدی آئیں۔“
اشفا اپنی ہی جھونک میں چلتی گاڑی تک آئی تو گاڑی کے پاس ادب سے سر جھکائے کھڑے مکرم جان کو دیکھ کر سلگ اٹھی۔
”بابا! کدھر ہیں؟“ شازم نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر بے چینی سے پوچھا۔ اشفا کو بھی مجبوراً پیچھے بیٹھنا پڑا تھا۔
”وہ مہمانوں کی وجہ سے نہیں آ سکے۔ ان کے کچھ دوست ابھی ابھی پہنچے ہیں۔“ مکرم نے شازم کو تو مطمئن کر دیا تھا  مگر اشفا مسلسل سلگ رہی تھی۔
میرج ہال میں پہنچ کر بھی اس کا موڈ سخت آف رہا۔ اس نے غصے میں کھانا بھی کھایا  بس منتیں کر کرکے شازم کو کھلاتی رہی۔ رخصتی کے بعد دلہن اور دولہا نے گھر ہی آنا تھا۔ لہٰذا جلد ہی ہوٹل سے فارغ ہو گئے۔
گھر آکر اشفا نے غصے کے عالم میں چوڑیاں اتاریں  میک اپ صاف کیا۔ جیولری اتاری اور پھر زبردستی شازم کو تھپک تھپک کر سلایا۔ وہ مسلسل ریں ریں کر رہا تھا۔ مرتضیٰ کے پاس جانے کی ضد کر رہا تھا  مگر اشفا نے اس کی ایک نہ سکی۔
”آج بابا نے شازم کو پیار بھی نہیں کیا  اٹھایا بھی نہیں۔“ اس نے ڈھیروں شکایتیں اکٹھی کرکے رکھی تھیں۔
اشفا اسے سمجھاتی رہی۔
”وہ مصروف تھے بیٹا! ابھی بابا آپ کو آکر بہت پیار کریں گے۔ اب سو جاؤ۔“
”نہیں سونا شازم کو۔“ وہ ضدی لہجے میں بولا۔
”چلو شاباش میں کہانی سناتی ہوں  شازم آنکھیں بند کرے۔“ اشفا نے اسے پچکار کر کہا  تو وہ رونے لگا۔
”شازم! میں ماروں گی آپ کو۔“
”بابا پاس جانا ہے۔“ وہ منمنایا۔
”جاؤ  چلے جاؤ بابا کے پاس۔
“ اشفا نے غصے سے کہا۔
”شازم اکیلا کیسے جائے مما! شازم کو ڈر لگے گا۔“
”تو میں کیا کروں۔“
”آپ شازم کو بابا پاس چھوڑ آئیں۔“ وہ اس کی گردن پر ہاتھ رکھے بازو پر سر رکھے معصومیت سے بولا۔ شازم کی مسلسل ضد کی وجہ سے وہ اپنی بے عزتی بھلا کے مرتضیٰ کو فون کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد کال ریسیو کر لی گئی تھی۔
”کیا تکلیف ہے؟“ اشفا کی آواز سن کر دوسری طرف سے کٹیلے لہجے میں پوچھا گیا تو وہ بڑے ضبط کے ساتھ بتانے لگی۔
”مجھے کوئی تکلیف نہیں  آپ کے بیٹے کو ہی درد اٹھ رہا ہے۔“
”کیا ہوا ہے شازم کو۔“ وہ پریشانی کے عالم میں تقریباً چیخا۔
”آپ کی یاد آ رہی ہے۔“
”اوہو… میری بات کرواؤ شازم سے۔“ اس نے ریسیو شازم کو پکڑایا  تو اس نے دھواں دھار رونا شروع کر دیا۔ مجبوراً مرتضیٰ کو گھر آنا پڑا تھا۔
”میرے بیٹے کو کیا ہوا ہے۔
“ اس نے شازم کو بانہوں میں بھینچ کر چوما  تو وہ سوں سوں کرتے ہوئے بولا۔
”مما نے ڈانٹا ہے۔ غصہ کیا ہے کہ شازم سو جائے  مگر شازم نے بابا کے پاس سونا تھا۔“ اشفا دانت پیس رہ گئی تھی۔
”ایک تو یہ بچے بھی نا۔“ اس نے چیزیں سمیٹتے ہوئے زیر لب کہا۔
”چلو میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے جاتا ہوں۔“ اکثر جب شازم ضد کرتا تو وہ اسے بھی ڈیرے پر لے جاتا تھا  مگر اس وقت شازم نے ایک مرتبہ پھر منمنانا شروع کر دیا۔
”مما بھی شازم کے ساتھ چلیں۔ شازم مما کے پاس بھی سوئے گا۔“
”بہت فتنے ہو تم۔“ مرتضیٰ نے لب بھینچ لئے۔
”بابا! مما سے کہیں ناکہ وہ بھی چلیں۔“
”آرام سے سو جاؤ  بہت ضدی ہو رہے ہو۔“ مرتضیٰ نے ڈانٹا تو وہ منہ بسورنے لگا۔
”مجھے بابا کے پاس نہیں سونا  مما پاس سونا ہے۔“ باپ کی ڈانٹ سن کر وہ اشفا کے ساتھ چپک گیا تھا۔
نا چاہتے ہوئے بھی اشفا کو ہنسی آ گئی۔ وہ اسے گود میں اٹھا کر بیڈ پر لے آئی۔ مرتضیٰ واپس جانے لگا تو شازم نے پھر پکارا۔
”بابا…“
”کیا ہے شازم! سوتے ہو کہ نہیں۔“ مرتضیٰ پلٹ کر اس کے قریب آیا تو وہ سرعت سے ماں کی گود میں منہ چھپا گیا۔ شازم جو ان دونوں سے چاہتا تھا وہ جانتے بوجھتے اس کی باتوں سے نگاہ چرا رہے تھے۔
”شازم بابا اور مما کے ساتھ سونا چاہتا ہے۔“ اشفا کی چادر سے منہ نکال کر شازم نے معصومیت بھرے انداز میں کہا تو مرتضیٰ اس کے قریب ہی لیٹ گیا۔ اشفا نے دل ہی دل میں شازم کی ڈھیروں بلائیں لیں۔
”میری جان تم نے وہ کام کر دیا ہے جو تمہاری ماں نہ کر سکی۔“
###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi