Episode 19 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 19 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”ہاں  تم سے کچھ بعید نہیں کہ فاقے ہی کروانے شروع کر دیتی۔“
”خود ہی تو کہہ رہے تھے آپ کہ میں روزانہ آلو بناتی ہوں۔ اب رات کو چکن بنایا ہے تو آپ گھر نہیں آئے اور سامنے رکھا ہے تو باتیں بنا رہے ہیں۔“ وہ خفگی بھرے لہجے بولی۔
”شازم! اس چکن کی تم ہی تعریف کر سکتے ہو۔ آفٹر آل یہ تمہاری ماں ہے اور تمہیں یہ پیاری بھی بہت ہے۔“ مرتضیٰ نے پیپسی کے خالی گلاس میں چپس ڈالتے شازم کو مخاطب کیا۔
اشفا تو صرف اسی بات پر ہی کھل اٹھی تھی کہ مرتضیٰ نے اسے طلب کیا ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی وہ ضرورت کے وقت اسے آواز دے لیتا تھا  مگر یہ وہ نہیں جانتی تھی کہ مرتضیٰ نے سچ مچ اسے اپنی ”ضرورت“ ہی سمجھ لیا ہے۔ وہ اشفا جس سے اسے محبت تھی  وہ کہیں کھو گئی تھی۔

(جاری ہے)

اب وہ صرف شازم کی ماں اور مرتضیٰ کی ”ضرورت“ تھی۔

اس نے بہت واضح لفظوں میں اشفا کو اس کی ”اوقات“ یاد دلا دی تھی۔
اشفا کو نظر سے گری اور دل سے اتری عورت کے مفہوم کی بھی اب سمجھ آئی تھی۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ تایا ابا نے ایک مرتبہ پھر مرتضیٰ کو اشفا کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کیلئے مجبور کر لیا تھا۔ تائی اماں اور تایا ابا کے آنسوؤں نے یقینا اسے پھر سے زیر کر دیا تھا۔
اس کی ایک غلطی تمام عمر کیلئے پشیمانی بن چکی تھی۔ اسے اس رات بہت رونا آیا  جب مرتضی نے اسے اپنے کمرے میں بلوایا۔
”رات کی تاریکی میں گھر سے بھاگنے والی عورتوں کی تم نہیں جانتی کیا سزا ہے۔ مگر میں شازم اور بابا کی خاطر تمہاری اس سزا کو معاف کیا  مگر تم ساری زندگی بھی میرے دل میں اپنا وہ مقام و احترام بحال نہیں کر پاؤ گی  جو کبھی میرے دل میں تمہارے لئے موجود تھا۔ اب لائٹ آف کرکے ادھر آ جاؤ۔“
اشفا نے مشکل سے ہی سہی اس تلخ حقیقت کو پی لیا۔
اگر وہ اسے اپنی ان تمام بدگمانیوں  غلط فہمیوں اور مہوش کی چال بازی کے متعلق بتا بھی دیتی تو جو جرم اس سے سرزد ہو گیا تھا اس کی تلافی کیسے ممکن ہوتی۔
وہ رات کی تاریکی میں ایک حاسد عورت کی باتوں میں اور وقتی غصے کی لپیٹ میں آکر نکل گئی۔ اگر اسے ان نزاکتوں کا پتا ہوتا تو وہ کبھی بھی ایسا نہ کرتی۔ اس کی پرورش جس ماحول میں ہوئی تھی اور جس معاشرے اور ملک کی وہ رہنے والی تھی  وہاں یہ باتیں معمول کا حصہ تھیں۔
کبھی اولاد ماں  باپ سے جھگڑ کر گھر چھوڑ دیتی۔
کبھی ماں  باپ آپس میں جھگڑ کر اولاد کو چھوڑ دیتے۔
کبھی بیوی  شوہر سے ناراض ہو کر بھاگ جاتی۔
کبھی شوہر  بیوی سے تنگ آکر غائب ہو جاتا۔
یہ تو اس کی ماں کی تربیت کا اثر تھا جو وہ ہمیشہ مضبوط اور ثابت قدم رہی۔ کیا اس کا شوہر کبھی اس کی بات پر یقین کرے گا کہ وہ شخص ہی اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہے جس سے اس نے محبت کی۔
مرتضیٰ کے سرد رویے کی وجہ سے ہر وقت افسردہ سی رہنے لگی تھی۔ اگرچہ روزانہ ہی ثانیہ اور نمرہ سے فون پر بات ہوتی تھی اور کئی مرتبہ تو تایا ابا سے بھی مرتضیٰ نے بھی کروا دی تھی  مگر پھر بھی وہ سب گھر والوں کو بہت مس کر رہی تھی۔ اس کے بار بار کے اصرار پر ثانیہ نے آنے کی ہامی بھر لی۔ ہفتے کی شام عاشر اپنے دونوں بیٹوں کو اور ثانیہ کو چھوڑ گیا تھا  جاتے جاتے اس نے کتنی ہی مرتبہ دہائی دی تھی۔
”دل پر پتھر رکھ کے چھوڑ کے جا رہا ہوں  صرف اور صرف آپ کی خاصر بھابھی۔“
”اس احسان عظیم کا شکریہ۔“ اشفا اس کے مسخرے پن پر مسکراتی رہی  کہیں سے بھی تو دو بچوں کا باپ نہیں لگ رہا تھا۔
ثانیہ کے آجانے سے گھر میں خوب رونق ہو گئی تھی۔ بچوں کے ساتھ شازم کا بھی خوب دل لگ گیا۔ سارا سارا دن وہ تینوں آپس میں کھیلتے رہتے۔ شازم اب ضد بھی نہیں کرتا تھا۔
رات کو جب اشفا اس کیلئے دودھ کا گلاس لے کر آئی تو اس نے بڑے آرام سے پوا گلاس خالی کر دیا۔
”مما! ایک بات بولوں۔“
”جان مما! ایک نہیں ڈھیر ساری باتیں بولو۔“ اشفا نے اس کے سرخ رخسار چوم کر کہا۔
”مما! شازم اکیلا کیوں ہے؟“
”شازم اکیلا کیسے ہے۔ شازم کے پاس مما ہیں بابا ہیں۔“ اشفا قدرے چونک سی گئی تھی۔
”نائیں…“ اس نے غصے سے سر دائیں بائیں ہلایا۔
”شازم کو بے بی چاہئے  نومی جیسا۔“
”شازم…“ اشفا کو ایک دم ہی غصہ آ گیا تھا۔ اندر آتے مرتضیٰ نے بھی ٹھٹک کر منہ بسورتے اپنے لاڈلے کی طرف دیکھا۔ جس کی فرمائشیں دن بہ دن مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی تھیں۔
”مما! شازم کس کے ساتھ کھیلے۔“ وہ ٹھنکا۔
”اتنے تو کھلونے ہیں آپ کے  بابا کے ساتھ جا کر اور لے آنا۔“ اشفا نے مرتضیٰ کو دیکھ کر اسے بہلانا چاہا۔
”شازم کو کھلونے نہیں لینے  بے بی لینا ہے۔“
”اوکے  میری جان بے بی بھی لادیں گے۔“
مرتضیٰ نے اسے گود میں اٹھا کر بھینچ لیا تو اس کا چہرہ مارے خفت کے سرخ پڑ گیا۔
###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi