Episode 20 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 20 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”لالا! جب تک اماں اور بابا نہیں آتے  آپ ہمیں اور بچوں کو کہیں گھما  پھرا لائیں۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ مری چلتے ہیں۔“ ثانیہ نے بڑے دلار سے فرمائش کی تھی۔ مرتضیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلا دیا۔
ثانیہ نے نمرہ اور عامر سے بھی بات کی تھی  مگر عامر کو چھٹی نہ مل سکی  البتہ عاشر اسی شام آ گیا تھا۔
اگلی صبح بہت سویرے انہیں گھر سے نکلنا تھا۔
اشفا اور ثانیہ نے مل کر تمام تیاری مکمل کر لی تھی۔ بچے بے حد خوش تھے  اسی خوشی کے عالم میں کچی نیند سے اٹھائے جانے پر بھی نہ روئے۔ پہلا قیام ان کا اسلام آباد میں تھا۔ تقریباً تین دن وہ اسلام آباد ٹھہرے تھے۔ دامن کوہ  فیصل مسجد  راول ڈیم اور مرتضیٰ کے کزن کی فیملی سے ملنے کے بعد وہ مری کی طرف عازم سفر ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

مری کے ایک قدرے مناسب ہوٹل میں مرتضیٰ نے پہلے سے ہی بکنگ کروا لی تھی۔
شازم  حنان اور نومی بے حد مسرور تھی۔ بھوربن اور نتھیا گلی سے ہوتے ہوئے مال روڈ اور پھر عاشر کے اصرار پر وہ گھر واپسی کے بجائے کاغان کی طرف نکل گئے۔
یہاں کے فلک بوس پہاڑ  سر سبز وادیاں  گیت گاتی  شور مچاتی  گنگناتی ندیاں  طویل و عریض سبزہ زار  خوشنما جھیلیں  تیز و تند جلالی دریا  فطرت کے دیوانوں اور شیدائیوں کیلئے ایک بہت بڑا اثاثہ اور قدرت کا انمول اور بیش بہا تحفہ ہے۔
اشفا نے پورے سفر کے دوران ایک بات نوٹ کی تھی کہ ثانیہ اور عاشر کے درمیان کسی قدر بے تکلفی تھی۔ پورے سفر میں عاشر کی چھیڑ چھاڑ اور ثانیہ کا شرمانا  مسکرانا کس قدر اپنائیت و محبت تھی دونوں کے درمیان۔
کاغان میں ان دنوں بہت رش تھا۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح اور فطری حسن کے دیوانے نہ جانے کہاں کہاں سے ان دلکش نظاروں کو دیکھنے کیلئے آئے تھے۔
دوران سفر ہی بچے اور وہ دونوں خواتین تھک چکی تھیں  لہٰذا ہوٹل پہنچتے ہی شازم سونے کیلئے مچلنے لگا۔ ثانیہ بھی بچوں کو سلانے اور خود آرام کی غرض سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ سامان رکھنے کے بعد عاشر اور مرتضیٰ دونوں کہیں نکل گئے تھے۔ البتہ وہ اور شازم دونوں ہی بہت دیر تک سوتے رہے۔
اشفا کی آنکھ مرتضیٰ کے جھنجوڑنے پر کھلی تھی۔
وہ انتہائی غصیلے تاثرات لئے اسے گھور رہا تھا۔
”میرے کپڑے کہاں ہیں؟“
”وہ بلیک سوٹ کیس میں ہیں۔“
”اس میں تو تم نے جرسیاں  سوئیٹر اور شالیں بھر لی ہیں۔ بے وقوف  احمق عورت کیا یہ گرم کپڑے پہننے کا موسم ہے۔“
”میں سمجھی مری میں ٹھنڈ ہوگی۔“ وہ اپنی شرمندگی چھپانے کی غرض سے کمبل میں منہ چھپانے لگی تو مرتضیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ پر سے کمبل کھینچا۔
”اگر کسی سے مشورہ لے لیا جائے تو بے وقت کی شرمندگی اور خجالت سے بچا جا سکتا ہے۔“ وہ بہت کچھ جتا کہ پلٹا تو اشفا پیچھے سے بولی۔
”آپ کے کپڑے شاید لیدر کے بیگ میں ہیں۔ آپ رکیں میں نکال دیتی ہوں۔“
”شکریہ آپ زحمت نہ کریں اور ہاں شازم کو جگاؤ کچھ کھا پی لے… اور اب پوستیوں کی طرح دوبارہ مت سو جانا۔ خوامخواہ میرا اتنا خرچ بھی کروایا ہے۔
اگر سونا ہی تھا تو گھر میں ہی رہ لیتیں۔“
”توبہ میری تین  چار گھنٹوں کی نیند پر کیسے مشتعل ہو رہے ہیں  میرا سونا تو انہیں کسی بھی صورت گوارا نہیں۔ اتنی باتیں سنا دی ہیں۔“ مرتضیٰ کے جانے کے بعد وہ جلتی کلستی اُٹھ بیٹھی۔ شازم کو جگا کر ہاتھ منہ دھلوایا  کپڑے پہنائے  کچھ ہی دیر بعد ثانیہ بھی بچوں کو تیار کرکے لے آئی تھی۔
چائے پینے کے بعد وہ دونوں بھی بچوں سمیت نیچے آ گئیں۔
مرتضیٰ اور عاشر انہی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ انہیں آتا دیکھ کر مرتضیٰ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ چونکہ رات کافی ہو چکی تھی اور پیٹ میں بھی چوہوں کا میچ شروع تھا  لہٰذا پہلے پیٹ پوجا کرنے کا سوچا۔
عاشر نے اپنی فیورٹ ڈشز یعنی کہ سنگھاڑا مچھلی اور پہاڑی مرچ کلاں اور قیمے کے سالن کا آرڈر دیا۔
ثانیہ اور اس کے لالا کی پسند ایک سی تھی۔ انہوں نے کابلی چنے کا پلاؤ اور تندوری مرغی منگوائی  جبکہ اشفا نے ان تینوں کی پسند سے ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کر لیا۔
”اُف سالن میں کس قدر مرچیں ہیں۔“ ثانیہ نے سوں سوں کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”توبہ  یہ سالن منگوانے کی کیا ضرورت تھی۔“ ثانیہ نے ناک چڑھائی۔
”تم اپنے کابلی چنے کا پلاؤ کھاؤ  میرے مرچوں والے سالن کو نظر لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
“ عاشر نے جذباتی پن سے ڈونگا ثانیہ کے سامنے اُٹھا لیا۔
عاشر اور ثانیہ کی مزے دار ٹوک جھوک کے دوران کھانے سے بھرپور انصاف کیا گیا تھا۔ اگلے تین دن مرتضیٰ اور عاشر نے انہیں کاغان کا چپا چپا دکھا ڈالا اور حد سے زیادہ تھکایا۔ ان تین دونوں میں وہ صرف رات کو ہی سوتی تھیں اور سارا دن بچوں سمیت ان دونوں کے احکامات پر عمل کرتیں۔
”سیر و تفریح کا شوق پورا ہوا ہے کہ نہیں۔
“ مرتضیٰ  ثانیہ کو مسلسل چھیڑ رہا تھا۔ ایک ہفتہ کاغان میں رہنے کے بعد اب وہ مزید کہیں اور جانے کیلئے تیار نہیں تھیں۔ لہٰذا ان پر ترس کھا کر مرتضیٰ نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔ جس رات وہ لوگ گھر پہنچے  اسی رات تین بجے فون کی بیل گونج اٹھی۔ فون مرتضیٰ نے ہی سنا تھا اور کاش کہ وہ کبھی یہ فون سنتا ہی نہیں۔ یہ فون ان کیلئے قیامت کی خبر لایا تھا۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi