Episode 23 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 23 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

اس نے خود کو شازم کے وجود میں گم کر لیا۔ اس نے لوگوں کے طعنوں اور طنز بھری گفتگو سے بچنے کی خاطر ہر کسی سے ملنا چھوڑ دیا۔
اس نے محفلوں میں بیٹھنا ترک کر دیا۔
اسے ہجوم سے نفرت سی ہو گئی تھی۔
اسے زندگی سے بھی نفرت ہو گئی تھی۔
اور اسے ”عورت“ سے بھی نفرت ہو گئی تھی۔
اسی لئے تو جب چاچی نے بابا کے پیر آکر پکڑے کہ وہ مرتضیٰ سے مہوش کی شادی کر دیں تو انہوں نے سختی سے انکار کر دیا تھا۔
وہ اپنے بیٹے کے مزاج کے ہر رنگ سے واقف تھا۔ پھر مہوش بھی بہت روتی گڑگڑاتی رہی تھی  مگر مرتضیٰ تو واقعی پتھر ہو چکا تھا۔
تنگ آ کر چاچی نے زبردستی مہوش کی شادی کر دی۔ وقت بیتتا گیا۔ موسم بدلتے رہے  خزائیں اور بہاریں آتی جاتی رہیں اور پھر ایک روز وہ پھرسے پورے چھ سال بعد اس کا ضبط آزمانے کیلئے چلی آئی تھی۔

(جاری ہے)

اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اشفا کے حسین چہرے کو مسخ کر دے  اسے جان سے مار دے  مگر ایک مرتبہ پھر بابا نے اسے اپنی محبتوں کا واسطہ دے کر روک دیا۔
انہوں نے پھر سے اسے پابند کر دیا۔
”اگر تو نے میری اشفا کے ساتھ زیادتی کی  اسے تکلیف پہنچائی یا کبھی چھوڑنے کی کوشش کی تو مرتضیٰ تیرے بابا کو قبر میں بھی چین نہیں آئے گا۔ میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا۔“
وہ بے بس ہو گیا تھا۔ مجبور ہو گیا اور پھر شازم کی ماں سے محبت کو دیکھ کر اسے دل پر صبر کرنا پڑا تھا۔
دستک کی آواز سن کر اس کی سوچوں کو بریک لگے تھے۔
وہ بے دلی سے اٹھ کر دروازہ کھولنے گیا تو سامنے مکرم کو کھڑا پایا۔
”یہ صحن میں پڑا تھا میر سائیں! میری نظر پڑی تو اٹھا لایا۔“ مکرم نے ایک سبز لفافے کو اس کی طرف بڑھایا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ۔“
”سائیں کھانا…“ وہ رکا۔
”طلب نہیں۔“ مرتضیٰ نے منع کر دیا تو وہ اسی موٴدب انداز میں پلٹ گیا۔
”کیا ہے اس میں۔“ مرتضیٰ نے بے دلی سے لفافہ چاک کیا تو بیچ میں سے تین  چار کاغذ نکالے۔
اس نے خط نما اس کاغذ پر نگاہیں جما دیں۔
”تمہیں کیا کہہ کر بلاؤں… کوئی رشتہ تو میں نے خود نہیں چھوڑا۔ چلو اس بحث کو رہنے دیتے ہیں۔
مرتضیٰ جب یہ خط تمہیں ملے گا  میں اور امی یہاں سے جا چکی ہوں گی۔ آج رات ہم نے اسلام آباد جانا ہے اور پھر وہیں سے نقی کے پاس۔
بہت حسد محسوس ہوتا ہے مجھے تم دونوں کو دیکھ کر  کیا کروں یہ میری فطرت ہے  عادت ہے یا جو بھی سمجھ لو۔
وہ پھر آ گئی ہے تمہاری زندگی میں… میرے تمام منصوبوں پر پانی پھیر کر  مگر دیکھ لو میرا ایک بھی پلان کامیاب نہیں ہوا۔
میں نے جو چاہا اور جیسے چاہا سب میری توقع کے خلاف ہوا۔ میں تو اسے خوب بھڑکا کر  تم سے متنفر کرکے  جھوٹی سچی داستانی سنا کر بھیجا تھا  مگر وہ پھر بھی آ گئی۔
کتنی توہین میں نے اشفا کی خود کی تھی۔
اسے یہ تک کہا کہ تم ان چاہی ہو  زبردستی مرتضیٰ کی زندگی میں شامل کی گئیں۔ تمہاری ماں نے مرتضیٰ کے پیر پکڑ کر اسے منایا کہ اس کی بگڑی بیٹی سے شادی کر لو۔ کتنا زہر بھرا تھا میں نے اس کے دل میں اور ذہن میں۔
میں تو مسرور تھی کہ وہ اب کبھی پلٹ کر نہیں آئے گی  مگر وہ پھر بھی آ گئی۔
تم دونوں میری آنکھوں کے سامنے رہو  یہ میں برداشت نہیں کر سکتی۔
تم نے مجھے اتنی مرتبہ ٹھکرایا ہے کہ جب اشفا گئی تو میں تمہیں بے عزت کرکے بہت مسرور ہوتی رہی۔ تم میری توہین کرتے رہے اور میں تمہاری متوقع بے عزتی کا سوچ کر لطف اندوز ہوتی رہی۔
دراصل نفرت مجھے اشفا سے نہیں تم سے ہو گئی تھی  مگر اس نفرت کی لپیٹ میں اشفا بھی آ گئی۔ میں مقدر پر شاکی ہونے والی نہیں  اسی لیے طلاق کا لیبل لگوا لیا ہے۔
اب یہاں ویسے بھی رکھا کیا ہے  اسی لئے میں اور امی نقی کے پاس جانے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔
امی بھی تم سے بہت شرمندہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نقی اور تقی نے اپنے حق سے بھی زیادہ زمین وصول کر لی ہے  شاید تمہارے اسی رویے نے امی کے موڈ کو بھی بدل دیا ہے۔
اب کیا لکھوں کچھ بچا ہی نہیں لکھنے کو  بس اتنی التجا ہے کہ تم مجھے معاف کر دو۔
پرانی باتیں بھول جاؤ  جو اکثر تم نہیں بھلا پاتے۔“
مرتضیٰ نے غم و غصے کی اک تیز لہر من میں اٹھتی محسوس کی۔ جن دو ٹکے کے لوگوں کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت و اہمیت نہیں تھی۔ اشفا انہی لوگوں کے جال میں پھنس گئی اور یہ مہوش کی باتوں میں آئی کیوں؟ براہ راست مجھ سے اس نے کیوں نہ پوچھا  نہ جانے کون کون سی غلط فہمیاں اس نے دل میں پال رکھی ہیں۔
مرتضیٰ کا رواں رواں سلگ رہا تھا۔ ساری رات وہ جاگتا رہا اور غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی صبح فجر کے وقت ثانیہ کی چہکتی آواز سنائی دی تھی۔
”لالا! بیٹی ہوئی ہے اور وہ بھی اتنی پیاری کہ میں بتا نہیں سکتی۔“
مرتضیٰ نے بغیر کچھ کہے فون رکھ دیا اور اگلا پورا ہفتہ وہ گاؤں ہی میں رہا ادھر اشفا غم سے نڈھال مسلسل رو رہی تھی۔
اسے خود پر بہت غصہ آ رہا تھا اور اپنی دس دن کی بیٹی پر بھی۔
”اتنی اہمیت ہے تمہاری  باپ نے دیکھنا بھی گوار نہیں کیا۔“ اسے رہ رہ کر وہ وقت یاد آ رہا تھا جب وہ شازم کو گود میں اٹھائے ہسپتال سے آئی تھی اور مرتضیٰ اور عاشر نے پورے صحن میں بھنگڑا ڈالا تھا۔ مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔
مرتضیٰ کتنی محبت پاش نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا تھا اور شازم کو پیار کرتا رہا اور اب اس نے آنا بھی گوارا نہیں کیا۔
ثانیہ اسے سمجھا کر تھک چکی تھی۔
”کوئی ضروری کام ہو گا اسی لئے نہیں آ سکے۔“
”کام ہم لوگوں سے زیادہ اہم ہیں۔“ وہ غصے سے پھنکاری۔ ثانیہ کو اس لمحے بہت پہلے والی روتی دھوتی  جھگڑا کرتی اشفا کی جھلک دکھائی دی تھی۔
                                        #########

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi