Episode 25 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 25 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

دھند کے بعد

گھڑی کی ٹک ٹک وقت گزرنے کا احساس دلا رہی تھی۔ وہ یک ٹک گولڈن فریم والے کلاک کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی آنکھیں دھندلا گئیں۔ دائیں ہاتھ کی پشت سے انہوں نے بھیگی پلکوں کو پونچھا اور پھر سامنے لگے کیلنڈر کی طرف دیکھنے لگے۔
”13 فروری۔“ انہوں نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے قدرے جھک کر سیاہ جلد والی اس ڈائری کو اٹھایا جسے ابھی تھوڑی دیر پہلے رحاب پھینک گئی تھی۔
”اس عمر رسیدہ ڈائری میں بند سسکتی محبت کی کوئی حیثیت نہیں چاچو! کیسی محبت کی تھی آپ نے کہ سوائے آنسوؤں اور جدائی کے کچھ بھی نہ دیا پشمینہ چچی کو۔ اتنے سالوں بعد آپ کا یہ اعتراف جرم ان کی زندگی کے اٹھائیس سال لوٹا دے گا۔“ رحاب کے ترش لب و لہجے نے ان کے دل میں نشتر چبھو دیا تھا۔

(جاری ہے)

وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں بول پائے تھے۔

”سچ تو یہ ہے کہ آپ نے محبت کی ہی نہیں تھی۔
وقتی پسندیدگی کو محبت کا نام دے کر نا صرف آپ نے خود کو بلکہ پشمینہ چچی کو بھی دھوکا دیا ہے۔“ رحاب نے تلخی سے کہا تھا۔ ان کی یہ بھتیجی بالکل ایسی ہی تھی صاف گو  بااعتماد  قدرے منہ پھٹ اور دلیر  حق بات کہنے میں ذرا بھی جھجکتی… نہیں تھی مگر پھر بھی اس کے کٹیلے الفاظ اور طنزیہ لب و لہجے نے ان کو تکلیف پہنچائی تھی۔ اک درد کی ٹیس سی سینے میں اٹھی تھی جو پورے وجود میں سرائیت کر گئی۔
”تم کیا جانور ابی کہ کس مجبوری نے میرے قدموں کو زنجیر کر دیا تھا۔“ ڈائری کی پشت پر لکھے سنہری حرفوں سے جگمگاتے ”پشمینہ فراز“ کے الفاظ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے اذیت سے سوچا تھا۔ رحاب کی آواز کی بازگشت ابھی کمرے کے درو دیوار سے گونج رہی تھی۔ اس شاندار بیڈ روم کی ہر چیز گویا ان پر ہنس رہی تھی۔ ان کا مذاق اڑا رہی تھی۔ انہوں نے لب بھینچ کر پلکوں کو موندا تو دو سرکش آنسو گالوں پر لڑھک آئے۔
”گستاخی معاف چاچو آج مجھے کہنے دیجئے کہ صرف اور صرف جائیداد سے عاق کر دیئے جانے کے ڈر نے آپ کو راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔“ انہوں نے بایاں بازو دباتے کرب و اذیت سے سر پٹخا۔ اسی پل بہت آہستگی کے ساتھ دروازہ کھول کر رحاب چلی آتی تھی۔ پھر ان کے قریب بیٹھتے ہوئے اس نے اپنا سر انکے گھٹنے پر رکھ دیا تھا۔ فراز نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔
رحاب آہستہ آہستہ بڑبڑا رہی تھی۔
”مجھے معاف کر دیں چاچو  میں نے بہت بدتمیزی کی ہے۔ بہت غلط بولتی رہی ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ آپ کو میری کڑوی اور طنزیہ باتوں نے تکلیف پہنچائی ہے۔ پلیز چاچو معاف کر دیں مجھے۔“ رحاب نے روتے ہوئے سر اٹھا کر ان کے زرد چہرے کی طرف دیکھا۔ انہوں نے دھیرے سے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ رحاب کے دل میں اطمینان کی لہر سی دوڑ گئی۔
اس نے بے ساختہ فراز کے دونوں ہاتھ لبوں سے لگا لئے۔
”چاچو! آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں۔“
”نہیں۔“ وہ مختصر بولے۔
”چاچو۔“ اس نے آہستگی سے ان کا ہاتھ دبایا۔
”ہوں…“ فراز نے اس کے چہرے کی طرف بغور دیکھا۔ رحاب کی آنکھوں میں اک بھرپور عزم کی چمک تھی۔ وہ کچھ چونک سے گئے تھے۔
”میں ایبٹ آباد  گل مینا آنٹی کے پاس جا رہی ہوں۔
“ ان کے ہاتھ میں موجود ڈائری کو پکڑ کر اس نے گل مینا کا ایڈریس والا ورق پھاڑا اور مضبوط لہجے میں بولی تھی۔
”کک… کیا۔“ فراز کے سر پر گویا حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔
”گل مینا آنٹی آپ کی اور پشمینہ چچی کی مشترکہ فرینڈ تھیں۔ یقینا وہ جانتی ہوں گی کہ پشمینہ چچی کہاں رہتی ہیں۔“ رحاب تو گویا سب کچھ طے کر چکی تھی۔ فراز تو مہربہ لب یک ٹک اسے دیکھے جا رہے تھے۔
”کل صبح چھ بجے آپ مجھے سی آف کریں گے۔“ اب وہ کمرے میں بکھری چیزیں سمیٹ چکی تھی۔ پھر اس نے ماہا کو آواز دے کر پیکنگ کرنے کا آرڈر دیا۔
”یہ سب کیا ہے رابی۔“ فراز نے بے چینی سے قدرے بگڑے لہجے میں کہا تھا۔
”تم کیا کرنا چاہتی ہو؟“
”وہ ہی جو آپ پچھلے اٹھائیس سالوں سے نہیں کر سکے۔“ اس کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی اور مضبوطی تھی۔ کبھی کبھی رحاب انہیں پشمینہ کی طرح ہی لگتی تھی ویسی ہی نڈر اور بہادر  وہ بے بسی سے اسے دیکھتے رہ گئے۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi