Episode 27 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 27 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

ایک لگن تھی اک عزم تھا جو کہ اسے ایبٹ آباد کھینچ لایا تھا۔ چھوٹی دادو جو کہ اس کی دادی کی بہن تھیں ان کا پرانا ملازم رحیم اسے لینے آیا تھا۔ دادو اسے دیکھ کر کھل اٹھی تھیں۔ ان کی بوڑھی آنکھیں جگمگانے لگی تھیں۔ اپنے بوڑھے کمزور وجود میں اسے سموئے وہ کتنی ہی دیر روتی رہی تھیں۔ بار بار فراز چاچو کا پوچھتی۔ کیسی طبیعت ہے اس کی؟ کیا کرتا ہے؟
دادو خود گھٹنوں کے درد کی وجہ سے بستر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔
آنے جانے سے قاصر سب کا حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے اسے فریش ہونے کیلئے بھیج دیا۔ جب تک وہ شاور لے کر آئی دادو کھانا لگوا چکی تھیں۔ لوازمات سے سجی میز کو دیکھ کر وہ قدرے حیران اور خفا بھی ہوئی تھی۔
”دادو! میں اتنا نہیں کھاتی ہوں۔“
”وہ تو تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ تم کھاتی نہیں بس سونگھتی ہو۔

(جاری ہے)

“ انہوں نے مسکراتے ہوئے رحاب کیلئے پلیٹ میں بریانی نکالی۔

”یہ کباب تو لو…“ وہ کچھ نہ کچھ اس کی پلیٹ میں رکھتی جا رہی تھیں۔ رحاب نے جلدی ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ رحیم فریج میں سے سوئٹ ڈش نکال لایا۔
”چلو یہ کھیر تو چکھو  بہت پسند تھی فراز کو کھیر  وہ بھی میرے ہاتھ کی بنی۔“
”کھیر تو انہیں اب بھی پسند ہے مگر شوگر کی وجہ سے کھاتے نہیں۔“
”اتنی سی عمر میں میرے بچے کی جان کو بیماریاں چمٹ گئیں۔
“ دادو افسردہ ہو گئی تھیں۔ ان کی نگاہوں کے سامنے فراز کا وجیہ و شکیل سراپا لہرایا تو اک سرد آہ لبوں سے نکلی۔ پانچ سال پہلے وہ اسلام آباد آ گئی تھیں۔ اسے دیکھ کر ان کے دل کو دھچکا لگا تھا زرد رنگت  بے رونق چہرہ آنکھوں کے نیچے حلقے  اسے دیکھ کر کتنی دیر وہ چپکے چپکے آنسو بہاتی رہی تھیں۔ اب بھی اپنے ہی دھیان میں سر پر دوپٹہ لپیٹتے ہوئے بڑبڑائیں۔
”واہ آپا تمہاری ضد نے بچے کی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔“ رحاب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ٹھٹک کر رکی تھی۔
اگلی صبح وہ دن چڑھے سو کر اٹھی تھی۔ جب وہ نیچے آئی تو دادو تخت پر لیٹی اونگھ رہی تھیں۔ اس نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں اور پھر کچن میں ہونے والی کھٹر پٹر کی آواز سن کر ادھر چلی آئی۔ حلیمہ بی بی اسے دیکھ کر مسکرائیں  سلام جھاڑا اور پھر جھٹ سے میز پر ناشتہ بھی لگا دیا۔
”دادو نے ناشتہ کر لیا ہے۔“
”نہیں جی وہ اس وقت کچھ نہیں کھاتیں۔“ حلیمہ بی بی نے احترام کے ساتھ جواب دیا۔ رحاب چائے کا کپ اٹھا کر لان میں چلی آئی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی پرنم ہوا چہرے سے ٹکرائی تو موڈ خود بخود ہی خوشگوار ہو گیا۔ سرسبز و شاداب لان میں چکراتے ہوئے وہ اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کرنے لگی تھی۔
###

اسے ادھر آئے ہوئے دو دن ہو گئے تھے۔
ماما کا فون سن کر وہ باہر آئی دادو اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔
”تم بور تو نہیں ہو رہیں بیٹا۔“ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے انہوں نے نرمی سے دریافت کیا تھا۔ رحاب نے نفی میں سر ہلایا۔
”میں رحیم سے کہتی ہوں کہ تمہیں یہاں کی مخصوص جگہوں کی سیر کروا لائے۔“
”ہاں میں بھی کچھ یہی سوچ رہی تھی۔“ رحاب نے دھیرے سے کہا تھا۔
وہ اس وقت سوچوں کے تانوں بانوں میں الجھی تھی۔ اسے گل مینا آنٹی سے ملنا تھا۔ مگر وہ یہاں کے راستوں سے قطعاً ناواقف تھی۔ اس مقصد کیلئے اسے رحیم کا تعاون درکار تھا۔ رحیم سبزی وغیرہ لینے بازار گیا ہوا تھا اور اس کے آنے تک وہ دادو کے پاس ہی بیٹھی رہی تھی۔
”دادو کیا فراز چاچو ادھر آپ کے پاس پڑھنے کی غرض سے آئے تھے؟“
”ارے نہیں تو  فراز گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔
پر بیٹا ماں کے بغیر رہ سکتا تھا نہ ماں بیٹے کے بغیر۔ آپا کے فون پر فون آنے لگے اور فراز جلد ہی یہاں سے چلا بھی گیا مگر اسے یہ جگہ یہ علاقہ اتنا پسند آیا کہ دسویں کے پیپر دینے کے بعد وہ مستقل یہاں رہنے کیلئے آ گیا اور آپا سے پوچھے بغیر ہی یہاں کالج میں داخلہ بھی لے لیا۔ آپا اتنی خفا ہوئیں۔ اللہ بخشے تمہارے دادا بڑے اچھے حلیم طبع انسان تھے۔
بہت سمجھایا انہوں نے آپا کو مگر آپا کا غصہ نہ اترا۔ فراز کا ادھر دل بھی خوب لگ گیا۔ کچھ عرصے بعد آپا کا غصہ بھی اتر گیا۔ وہ فراز سے ملنے آتیں تو مہینہ مہینہ بھر میرے گھر رہ کر جاتی تھیں۔ فراز لائق بھی بہت تھا۔ کالج  یونیورسٹی میں ہر سال فرسٹ آتا اور آپا کا سر فخر سے بلند ہو جاتا۔ بڑے دونوں بیٹے کاروباری ذہن رکھتے تھے۔ بس فراز ہی پڑھائی کے میدان میں سب سے آگے نکل گیا اور پھر یہیں پر ہی شادی…“وہ کچھ کہتے کہتے ایک دم ہی خاموش ہو گئی تھیں۔ رحاب کو بے چینی نے گھیر لیا۔
”پھر دادو…“

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi