Episode 30 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 30 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”رابی! آ بھی جاؤ بیٹا۔“ دوسری طرف ماما بڑی حلاوت کے ساتھ کہہ رہی تھیں۔
”اف ماما ابھی تو مجھے آئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔“ اس کے لبوں پر مسکان پھیل گئی۔
”ماہا تمہیں بہت مس کر رہی ہے۔“
”اسے بھی بھیج دیں۔“ وہ مزے سے بولی تھی۔
”وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھی ہے۔“ ماما نے جھنجلاتے ہوئے کہا تھا۔ پھر قدرے راز داری سے بولیں۔
۔
”رابی! دراصل تمہیں دیکھنے کیلئے کچھ لوگ آ رہے ہیں۔ سنڈے تک آجانا…“
”آپ ان لوگوں کو منع کر دیں۔ میں ابھی نہیں آ سکتی۔“ رحاب نے کچھ سختی سے کہہ کر سیل آف کر دیا تھا۔
دادو کی طبیعت پہلے سے کافی بہتر تھی۔ پہلے کی طرح ٹھیک ٹھاک باتیں بھی کر رہی تھیں۔ مگر رباب جانتی تھی کہ ان کا دل کس قدر غم زدہ ہے۔

(جاری ہے)

دو بیٹوں کی ماں نوکروں کے رحم و کرم پر تنہا رہنے پر مجبور تھیں۔

دونوں بیٹے عرصہ دراز سے لندن میں مقیم تھے۔ ناصر بھائی کا فون آیا تو رحاب نے اپنے ازلی منہ پھٹ انداز میں وہ جلی کٹی سنائیں کہ بے چارے شرمندگی کے مارے کچھ بول ہی نہیں پائے تھے۔ اس نے دادو کی بیماری کی ایسی تصویر کشی کی تھی کہ ناصر اور عامر بھائی دونوں کے دل اس حد تک پسیج گئے کہ انہوں نے اگلے چند ہفتوں تک وطن آنے کی خوش خبری ماں کو سنا کر انہیں پھر سے زندہ کر دیا تھا۔
دادو بھی اس کایا پلٹ پر حیران تھیں۔ بار بار رحاب کا منہ سر چومتیں۔ انہوں نے ابھی سے ہی گھر کی ازسر نو صفائی کروانا شروع کر دی۔ رحاب انہیں ہشاش بشاش دیکھ کر مطمئن ہو گئی تھی۔
دوسری شام ماہا بیگم بوریا بستر سمیٹے آ گئی تھیں۔ رحاب کی تیوریاں چڑھ گئیں اسے دیکھ کر۔
”کیا ضرورت تھی آنے کی۔“رحاب نے بے تکے پن سے سوال داغا۔ماہا نے منہ بسور کر پہلے رحاب اور پھر دادو کی طرف دیکھا۔
دادو نے رحاب کو ڈانٹنے کے ساتھ ماہا کو پچکارتے ہوئے ساتھ لگا لیا تھا۔
حلیمہ بی نے ماہا کا بستر بھی اس کے کمرے میں لگا دیا تھا لہٰذا وہ رات دیر تک باتیں کرتی رہی تھیں۔
فجر کی اذان کے ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد اس نے قرآن پاک کی تلاوت کی اور پھر لباس بدل کر بالوں میں ہلکا سا برش پھیرنے کے بعد ماہا کو سوتا چھوڑ کر نیچے چلی آئی تھی۔
دراز میں سے گاڑی کی چابی نکال کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ آج وہ پختہ ارادہ کرکے نکلی تھی کہ گل مینا آنٹی سے پشمینہ چچی کا اتا پتا لے کر ہی دم لے گی۔ گاڑی سائیڈ پر پارک کرکے اس نے بیل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دوسرے ہی پل دروازہ کھل گیا۔ دروازہ کھولنے والی شخصیت نے کچھ چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ رحاب بھی اس اتفاق پر جی بھر کے حیران ہوئی تھی۔
”جی  آپ کو کس سے ملنا ہے…؟“ اسے بت بنا پاکر مقابل نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ استفسار کیا تھا۔
”وہ… گل مینا آنٹی سے…“ رحاب گڑبڑا کر بولی تھی۔
”آنٹی اس وقت سو رہی ہیں۔“
”تو کیا میں چلی جاؤں؟“ اس نے تنک کر پوچھا۔
”آپ کی مرضی ہے چاہے تو چلی جائیں۔ چاہے تو انتظار کر لیں۔“ رحاب نے کچھ پل کیلئے سوچا اور پھر اسے دروازے میں جمے دیکھ کر طنزیہ بولی۔
”آپ سامنے سے ہٹیں گے تو اندر آؤں گی میں۔“
”کیوں نہیں۔“ وہ فوراً ہی پیچھے ہٹ گیا تھا۔ رحاب اندرونی حصے کی طرف جانے کی بجائے لان میں رکھی سفید پالش شدہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ شاید ایکسر سائز کر رہا تھا اسے لان کی طرف بڑھتا دیکھ کر اس نے اپنا ارادہ ترک کیا اور پھر گیٹ کے پاس پڑے اخبار کو اٹھا کر لان کی طرف آ گیا تھا۔ رحاب بار بار اندرونی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔
اس نے اخبار سے نظریں ہٹا کر اس کی بے چینی کو ملاحظہ کیا اور پھر اپنے مخصوص دبنگ لہجے میں بولا۔
”آنٹی کی طبیعت خراب تھی۔ دوا کھا کر سوئی ہیں۔ یقینا دیر سے اٹھیں گی۔“
”ٹھیک ہے پھر میں ابھی چلتی ہوں۔“ وہ کوفت زدہ لہجے میں کہتے ہوئے اٹھی تھی۔ پتھروں کی سرخ روش پر تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس نے پلوشہ کی آواز سنی تھی۔ وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔
”شاہ نور لالا  خانم کا فون ہے۔“ پلوشہ کی بلند آواز سنائی دی۔
رحاب نے بے یقینی کے عالم میں مڑ کر دیکھا تھا۔ اسی پل شاہ نور نے بھی اک پل کیلئے رحاب کے چہرے پر پھیلی حیرانی کو بغور پڑھا تھا دوسرے ہی لمحے وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔رحاب کچھ سوچ کر واپس پلٹ آئی تھی۔ پلوشہ اسے دیکھ کر چونک اٹھی۔
”پلوشہ! یہ کون تھا؟“ رحاب نے سرد لہجے میں دریافت کیا۔
”شاہ نور لالا ہیں…“ پلوشہ سر پر دوپٹہ جماتے ہوئے بولی تھی۔
”گل مینا آنٹی سے اس کا کیا تعلق ہے۔“ اس نے سرسراتے لہجے میں دوسرا سوال کیا۔ ”بی بی کی سہیلی ہے نا پشمینہ خاتم ان کے بیٹے ہیں شاہ نور لالا۔“ پلوشہ نے گویا اس کے سر پر دھماکا کیا تھا۔ وہ گم صم سی پلوشہ کی طرف دیکھنے لگی۔
”خانم کہاں ہوتی ہیں؟“
”وادی دیامر کے قریب ”بسری“ گاؤں ہے نا۔
وہ ہی خانم کا گاؤں ہے۔ ام بھی اسی گاؤں کا ہے۔ خانم نے ہی ام کو ادھر ملازمت دلوایا ہے۔“ وہ بڑے شوق اور جوش کے ساتھ اسے بتانے لگی تھی۔
”یہ بتاؤ کہ دیامر جاتے کیسے ہیں۔ میرا مطلب ہے مجھے بسری کا مکمل پتہ بتاؤ۔“ رحاب نے بہت بے صبری کے ساتھ پلوشہ کے ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا تھا۔ وہ پہاڑی لڑکی خوشی خوشی اپنے گاؤں کے متعلق اسے بتانے لگی تھی۔ رحاب نے اس کی بتائی تمام باتیں ذہن نشین کر لی تھیں اور جب وہ یہاں سے نکل کر گھر آ رہی تھی تو اس کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔
#########

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi