Episode 33 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 33 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”بھنگ پی کر سوئی ہو۔ اب اٹھ بھی چکو۔“ صبح وہ ماہا کے جھنجھوڑنے پر اٹھی تھی۔ ماہا نے آگے بڑھ کر کھڑکیوں کے پردے ہٹائے تو سنہری دھوپ چھن چھن کر اندر آنے لگی۔
”ماما کا فون آیا تھا۔“ ماہا نے کمبل تہہ کرتے ہوئے کہا۔
”کیا کہہ رہی تھیں۔“ رحاب نے بال سمیٹ کر پونی کی۔
”چاچو کی رات کو طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ ابھی ابھی ہسپتال سے آئے ہیں۔
ویسے اب ان کی طبیعت بہتر ہے۔“ ماہا کے بتانے پر وہ فوراً فون اسٹینڈ کی طرف بڑھی تھی۔ جب تک اس نے چاچو سے تفصیلاً بات نہیں کر لی تھی دل کو قرار نہیں آیا تھا وہ اسے تسلیاں دلاسے دیتے رہے اور واپس آنے پر اصرار کرتے رہے تھے۔ رحاب نے بے دلی سے ریسیور رکھ دیا۔ اس نے جس عزم اور جس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے یہاں تک کا سفر کیا تھا کیسے ممکن تھا کہ وہ یوں ہی بے مراد لوٹ جاتی۔

(جاری ہے)

اب وہ سنجیدگی کے ساتھ اگلا قدم اٹھانے کا سوچ رہی تھی۔ اس کیلئے اسے ماہا اور دادو کو اپنا ہم راز بنانا تھا اور جب اس نے ماہا اور دادو کے سامنے اتنا بڑا انکشاف کیا تو ان دونوں کے حیرانی سے منہ کھل گئے۔
اس نے ماہا کو بتایا تھا کہ ناصرف وہ شاہ نور کو جانتی ہے بلکہ اس سے مل بھی چکی ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
”رابی! تم سچ کہہ رہی ہو۔
“ وہ بے یقینی سے کپکپاتی آواز میں بولی۔
”مگر بیٹا تم اکیلی وہاں تک جاؤ گی کیسے۔“ دادو فکر مندی سے گویا ہوئیں۔
”بس دادو آپ دعا کیجئے گا میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں۔ ایک مرتبہ صرف اور صرف ایک مرتبہ میں پشمینہ چاچی اور چاچو کا سامنا کروانا چاہتی ہوں۔“ وہ ایک عزم سے مضبوط لہجے میں بولی تھی۔ دادو اور ماہا نے بیک زبان آمین کہا تھا۔
اگلی صبح وہ دادو اور ماہا کی دعاؤں کے سائے میں رحیم خان کے ہمراہ عازم سفر ہوئی تھی۔ ایبٹ آباد سے تقریباً بیس پچیس کلو میٹر کی دوری پر ”مانسہرہ“ کا خوب صورت شہر واقع ہے۔ یہاں سے دو مختلف راستے نکلتے ہیں ایک تو وادی کاغان کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا وادی دیامر کی طرف۔
”تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کے سفر کے بعد وہ دیامر کے صدر مقام ”چلاس“ تک پہنچ گئے تھے۔
رحیم خان نے اک درمیانے درجے کے ہوٹل کے قریب گاڑی روکی اور پھر اس کیلئے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنے چلا گیا۔ رحاب اردگرد کے مناظر  ہر سو پھیلے سبزے کو بڑی حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ اتنا حسن اس قدر دلفریبی  وہ قدرت کے ان حسین نظاروں کو دیکھ کر کھو سی گئی تھی۔ رحیم خان نے اس کی دلچسپی محسوس کرکے ”شتیال“ کے قریب دریائے سندھ کے کنارے ہزاروں برس پرانے کندہ کاری کے نمونے دکھانے کیلئے گاڑی روکی جو کہ ملکی اور غیر ملکی سیاحت کے شوقین مزاج لوگوں کیلئے بے حد کشش رکھتے تھے۔
شتیال سے بتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ”بسری“ گاؤں واقع ہے۔ اسے بسری تک ہی سفر کرنا تھا۔ یہیں سے ہی ضلع دیامر کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ بلند و بالا فلک بوس پہاڑ  یہاں کی دلکش جھیلیں  ندی نالے  طویل عریض مرغزار  ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے جگہ جگہ بکھرا حسن نگاہوں کو خیرہ کرنے کیلئے کافی تھا۔ اگر وہ سیاحت کیلئے یہاں آئی ہوتی تو ضرور انجوائے کرتی۔
اس وقت وہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے ذرا بھی خوشی محسوس نہیں کر رہی تھی۔
رحیم خان اس علاقے کی ثقافت کے متعلق معلومات فراہم کر رہا تھا۔ وہ بے دھیانی سے سنتی رہی۔ ”اس حسین سرزمین کے شمال میں گلگت اور جنوب کی طرف کشمیر اور کاغان کی دلکش وادیاں ہیں۔“ رحیم خان اپنی ہی جھونک میں بولے جا رہا تھا۔ رحاب بغیر سنے ایسے ہی اثبات میں سر ہلانے لگی۔
تمام سوچوں کو جھٹک کر وہ اردگرد کے مناظر کی دلکشی محسوس کرنے لگی تھی۔
دیام کی وادی میں فطرت کی تمام رعنائیاں اپنے ازلی وقار  حسن اور شان و شوکت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ یہاں کی سربفلک برف سے ڈھکی چوٹیاں۔ سرسبز و شاداب مرغزار  مست سرکش دریا  دلکش آبشاریں  گنگناتے جھرنے وادی کے ایک طرف اخروٹ  انگور  چلغوزہ  ناشپاتی  خوبانی اور سیب کے بلند و بالا درختوں کی بہتات ہے اور دوسری طرف ”بنی“ اور ”کائیل“ کے جنگلات کی بھرمار ہے۔
جن کے متعلق صرف کتابوں میں ہی اس نے پڑھ رکھا تھا۔ آج ان سحر طاری کر دینے والے مناظر کو دیکھ کر دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔
”بسری“ کی حدود شروع ہوتے ہی اک نامعلوم سی بے چینی نے اسے گھیر لیا تھا۔ گاڑی اونچے نیچے راستوں پر روانی سے دوڑ رہی تھی۔ راستے میں اس کی نگاہ بڑے سے سائن بورڈ پر لکھے ”پشمینہ خانم ہائر سیکنڈری اسکول“ پر پڑی تو وہ بے انتہا حیران ہوئی۔ کچھ ہی دور اسکول کی وسیع و عریض بلند و بالا پر شکوہ عمارت شان سے کھڑی تھی۔ اردگرد سیب اور ناشپاتی کے باغات تھے۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi