Episode 35 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 35 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

ایبٹ آباد سے واپسی پر اس کے ساتھ کامران اور ہاشم بھی آ گئے تھے وہ دونوں اس کے یونیورسٹی فیلو تھے۔ ان لوگوں کی وجہ سے ہی وہ پچھلے دو دن سے گھر نہیں جاسکا تھا۔ آج ہی ان کی روانگی ہوئی تھی۔ وہ بہادر خان (نوکر) کو کچھ ہدایات دے کر ڈیرے کی حدود سے نکل آیا۔
آڑو کا پھل پک کر تیار ہو چکا تھا۔ وہ کچھ دیر باغ میں ٹہلتا رہا اور پھل کا جائزہ لیتا رہا۔
پھر ہاتھ بڑھا کر اک صحت مند سرخ آڑو اتارا۔ آڑو میٹھا اور رسیلا تھا وہ مطمئن ہو کر بل کھاتی سڑک پر آ گیا۔
”کچھ دن تک ”تڑائی“ لگوا دینی چاہئے۔“ وہ اپنے ہی دھیان میں سوچتا ہوا چل رہا تھا جب نسوانی کھنکتی ہوئی آواز سن کر چونک پڑا۔ دائیں طرف ناشپاتی کے باغ میں سے آواز آ رہی تھی۔
”یار! ان درختوں پر تو کچھ بھی نہیں لگا۔

(جاری ہے)

مجھے تو ایک بھی ناشپاتی نظر نہیں آ رہی۔

“ بے حد جھنجلائی سی قدرے خفا خفا آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ وہ ماتھے پر سلوٹیں سجائے آواز کی سمت چل پڑا۔
”اوہو بی بی! یہ موسم ناشپتی واشپتی کا نہیں  اگر تم کچھ عرصہ پہلے آتا تو دیکھتا۔ کمبخت ڈالیں (شاخیں) زمین کو سلام دے رہی تھیں۔ اتنا پھل کا وزن تھی۔“ پری چہرہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں تیز تیز بول رہی تھی۔ رحاب کو اس سے باتیں کرکے بہت مزہ آتا تھا۔
اب بھی وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی تھی جب سامنے سے آتے شاہ نور کو دیکھ کراک پل کیلئے اس کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔ شاہ نور بھی ٹھٹک گیا تھا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا جس سے ابھی ڈیڑھ ہفتہ پہلے وہ بالکل اتفاقاً ملا تھا۔ اس علاقے میں اس کی موجودگی کم از کم شاہ نور کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ کڑے تیوروں کے ساتھ اس کی طرف بڑھا۔
”تم یہاں کیا لینے آئی ہو؟“ تمام ادب لحاظ بالائے طاق رکھ کے وہ گرجا تھا۔
رحاب نے اک نظر پری چہرہ پر ڈالی اور پھر دھیمے سروں میں گویا ہوئی۔
”تم سے ملنے…“ انداز میں بلا کی بے نیازی تھی۔ شاہ نور کی آنکھوں میں ناگواری در آئی۔
”کس مقصد کے تحت یہاں آئی ہو؟“
”مقصد تو خاصا ”نیک“ ہے۔“ رحاب نے معنی خیزی سے آنکھیں پٹپٹائیں۔ اسے رحاب سے اس درجہ بے باکی کی امید نہیں تھی۔ اس پر سلگتی نگاہ ڈال کر وہ پری چہرہ کی طرف مڑا۔
”تم کیوں آئی ہو۔“
”وہ لالا! خانم نے بھیجا ہے۔ ام کو بولا کہ بی بی کو سیر کروا لاؤ۔“ پری چہرہ نے سہم کر پہلے شاہ نور اور پھر اس کی طرف دیکھا۔
”تم میرے گھر ٹھہری ہو؟“ شاہ نور نے اس پل اپنی بے خبری کو کوسا تھا۔
”تمہارے نہیں خانم کے گھر۔“ اس نے گویا اطلاع دی تھی۔ شاہ نور اس کے چہرے پر پھیلے تاثرات کو بغور جانچتا رہا اور پھر قدرے رخ موڑ کر پری چہرہ سے کہا۔
”تم جاؤ باقی کی سیر میں بی بی کو کروا دیتا ہوں۔“
”میں مہذب لوگوں کی ہمراہی پسند کرتی ہوں۔ ال مینرڈ اور جنگلی  غیر شائستہ لوگ پسند نہیں مجھے۔“ وہ چبا چبا کر بولتے ہوئے پلٹ گئی تھی۔ پیچھے سے شاہ نور کی واضح بڑبڑاہٹ سنائی دی تھی۔
”اونہہ  مہذب…“ رحاب تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی جبکہ شاہ نور کی نگاہوں کے سامنے ایک اور سوالیہ نشان جگمگا رہا تھا۔
گھر آکر وہ سیدھا اماں کے کمرے میں گیا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ شاہ نور کو کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔ دعا مانگ کر انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور بیٹے کے قریب آئیں جو کہ کافی مضطرب لگ رہا تھا۔
”اماں! یہ لڑکی کون ہے۔“ اس کا اشارہ رحاب کی طرف تھا۔ انہوں نے اس کے چہرے پر پھونک مار کرتسبیح سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔
”اسلام آباد کی رہنے والی ہے۔
ادھر گھومنے پھرنے کی غرض سے آئی ہے۔“ وہ جتنا رحاب کے متعلق جانتی تھیں مختصر سا بتا دیا جبکہ شاہ نور کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔
”اماں! آپ بھی ہر ایک پر فوراً بھروسہ کر لیتی ہیں۔ کیا اتنا سا تعارف کافی ہوتا ہے۔“ وہ بے چینی سے کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
”ویسے یہ محترمہ جائیں گی کب۔“ شاہ نور کے چبھتے لہجے نے خانم کو کچھ حیران اور کچھ خفا کر دیا۔
”کیسی باتیں کر رہے ہو بیٹا! وہ مہمان ہے ہماری۔ جب تک اس کا دل چاہے گا رہے گی۔ آج سے پہلے تو تم نے کبھی کسی بھی مہمان کے بارے میں اس لہجے میں بات نہیں کی۔“ خانم ازلی سادگی بھرے انداز میں کہہ رہی تھی۔ شاہ نور چڑتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔
رات کے کھانے پر اس کی شاہ نور سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ شاہ نور کو زچ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی تھی۔
جب وہ بڑے کمرے میں داخل ہوئی تو رحاب نے بڑی خوش اخلاق قسم کی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر اس سے اپنا تعارف کروایا۔ وہ دانت پیستا اپنی نشست سنبھال کر بیٹھ گیا۔
”میں بھی تم سے اگلوا کر رہوں گا محترمہ کہ کس مقصد کے تحت تم میرا پیچھا کر رہی ہو۔“ اسے خانم سے باتیں بگھارتے دیکھ کر شاہ نور نے تلخی سے سوچا تھا۔
”یہ فرائیڈ فش تو بہت ہی لذیذ ہے۔
تم بھی چکھو نا۔“ رحاب نے لبوں پر مسکان سجا کر ڈونگا اس کی طرف کھسکایا۔
”تم کھاؤ بیٹی  شاہ نور کو فش پسند نہیں ہے  اس کی اسمیل اسے اچھی نہیں لگتی۔“ خانم نے شفقت سے کہا تھا اس نے یوں سر ہلایا گویا سب سمجھ گئی ہے۔ جب تک وہ بیٹھا رہا رحاب کچھ نہ کچھ اس کی پلیٹ میں ڈالتی رہی تھی۔ اک لمحے کیلئے تو شاہ نور کو محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ مہمان ہے اور رحاب میزبان۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi