Episode 36 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 36 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”اچھا یہ سیلڈ تو لو…“ رحاب کی رفتار دیکھ کر اسے جلد ہی کھانے سے ہاتھ کھینچنا پڑا تھا۔ جب وہ اٹھا تو رحاب بھی فوراً کرسی سرکاکر اٹھ گئی۔ خانم پہلے ہی جا چکی تھیں۔ شاہ نور بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ جب وہ سرعت سے اس کے پیچھے دوڑی۔
”کہاں جا رہے ہو اس وقت  چلو آؤ باتیں کرتے ہیں۔ قسم سے سخت بور ہو رہی ہوں۔“ شاہ نور حیرت سے اس نان اسٹاپ بولتی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جسے شاید ضرورت سے زیادہ ہی خود پر اعتماد تھا۔
وہ لب بھینچے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر جب بولا تو لہجے میں غراہٹ نمایاں تھی۔
”باتیں تو مجھے بھی تم سے بہت سی کرنا ہیں۔ بس مناسب موقع کی تلاش میں ہوں۔“ اس کے چہرے پر کٹیلی نگاہ ڈال کر وہ تیزی سے اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا تھا۔ رحاب بھی تھکے تھکے قدموں سے چلتی اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی۔

(جاری ہے)

”چاچو کی طبیعت نہ جانے کیسی ہے۔ اگر فون ہوتا تو کر لیتی۔
“ پلنگ پر لیٹتے ہوئے اس نے یاسیت سے سوچا تھا۔
”پتا نہیں جو میں کر رہی ہوں وہ درست ہے بھی یا نہیں۔ نہ جانے میں ان لوگوں کے دلوں کو موم کر پاؤں گی بھی کہ نہیں  میرا یہ سفر  طویل مسافت اگر رائیگاں چلی گئی تو…؟“ اس خوفناک زہریلی سوچ نے اسے بے کل کر دیا تھا۔ وہ بے اختیار اٹھ بیٹھی۔ وہ چاہتی تھی کہ شاہ نور کو اس کے باپ کے بارے میں بتانے سے پہلے اس سے دوستی اور اعتماد کا رشتہ قائم کر لے اور پھر ان تمام حقیقتوں سے پردہ اٹھائے جو عرصہ دراز سے دلوں کی دوری کا سبب بنی ہوئی تھیں۔
وہ جانتی تھی کہ شاہ نور اس کے بارے میں کافی مشکوک ہے۔ اس کے شک و شبہات کو وہ دور کرنا چاہتی تھی مگر کیسے؟ وہ جس کام کو بہت سہل سمجھ رہی تھی یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ رات کو دیر سے سونے کی جہ سے صبح وہ لیٹ اٹھی تھی۔ فریش ہو کر جب وہ باہر آئی تو خانم اسکول جا چکی تھیں۔ پری چہرہ اور زہرینہ معمول کے کام کاج میں مصروف تھیں۔ وہ ست قدموں سے چلتی ہوئی تخت پر بیٹھ گئی۔
”کب تک سیرو تفریح کا بہانہ کرکے یہاں ٹھہروں گی۔“ ٹھوڑی گھٹنوں پر سجائے وہ گہری سوچوں میں گم ہو چکی تھی اسی لئے تو وہ شاہ نور کی آمد کا اسے پتا نہیں چل سکا تھا۔ وہ تو جب اس نے پری چہرہ کو پکارا تو رحاب چونک کر سیدھی ہو گئی۔
”بی بی! ناشتہ لاؤں؟“ زہرینہ دوپٹے کے پلو سے ہاتھ پونچھتی کچن سے برآمد ہوئی تھی۔ رحاب نے نفی میں سر ہلا دیا اور پھر سلیپر پیروں میں اڑس کر بالوں کو انگلیوں سے سنوار کر اس نے پری چہرہ کو آواز دی دوسرے ہی پل پری چہرہ اس کے سامنے موجود تھی۔
”سنو میں خانم کے اسکول جا رہی ہوں۔“ رحاب بجھی آواز میں کہتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی تھی۔ جب شاہ نور نے اسے آواز دے کر رکنے کیلئے کہا۔
”ٹھہرو  میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔“
رحاب کو خوشگوار حیرت نے گھیر لیا تھا۔ کچھ دیر پہلے کی بے چینی اڑنچھو ہو گئی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے ہی باہر نکل گئی۔
”سر پہ دوپٹہ لے لو۔
“ گھر سے نکلنے سے پہلے اس نے تحکم سے کہا تھا۔ رحاب نے الجھن بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تاہم کہا کچھ نہیں۔ اسکول کے گیٹ پر اسے چھوڑ کر وہ خود چلا گیا تھا جبکہ رحاب بے خودی کے عالم میں وہیں کھڑی رہی تھی۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہونے تک۔ اس پل اسے اپنا آپ ہواؤں میں اڑتا محسوس ہو رہا تھا۔ دل کے طاقچے پر اک ننھا سا دیا ٹمٹمایا تھا جس کی روشنی نے اس کے اردگرد اجالے بکھیر دیئے تھے۔
######
”تم کیا سمجھتی ہو کہ میں احمق ہوں جو کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا۔ اماں کو تم نے ٹال دیا ہے مگر مجھے نہیں۔ شرافت سے بتا دو کہ ایبٹ آباد سے لے کر یہاں تک آنے میں کون سا راز پوشیدہ ہے۔ کیوں میرا پیچھا کرتی رہی ہو تم  ان فون کالز کا کیا مقصد تھا۔تم چاہتی کیا ہو؟“
”محبت…“ شہتوت کی لدی پھندی شاخوں کو بغور تکتے ہوئے وہ بے انتہا سنجیدگی سے بولی تھی۔
شاہ نور نے پوری شدت کے ساتھ اس کے لہجے میں چھپی سچائی کو محسوس کیا تھا تاہم اس غیر متوقع جواب نے اسے کھولا کر رکھ دیا۔
”بکواس بند کرو اور جو میں پوچھ رہا ہوں وہ بتاؤ۔“ شاہ نور نے غرا کر کہا تھا۔ رحاب نے بے بسی سے انگلیاں مروڑتے ہوئے اس کے غصیلے تاثرات والے چہرے کی طرف دیکھا۔ ”تم نے خود ہی تو پوچھا ہے کہ میں کیا چاہتی ہوں اور سچی بات تو یہی ہے کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں اور بدلے میں بالکل ایسی ہی محبت چاہتی ہوں۔
”اوہو… تو یہ واردات کب ہوئی؟“ وہ استہزائیہ ہنسا۔
”شاید اس روز جب میں یہاں آئی تھی یا پھر ایبٹ آباد میں جب میں نے پہلی مرتبہ تمہیں دیکھا تھا یا پھر اس سے بھی بہت پہلے جب تمہارا ذکر پہلی دفعہ اس شخص کے لبوں سے سنا تھا جسے میں بے انتہا چاہتی ہوں۔“ وہ آنکھیں موندے بھرائے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے جبکہ وہ ستم گر تو کب کا جا چکا تھا۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi