Episode 37 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 37 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”اماں! میں شہر جا رہا ہوں کوئی چیز تو نہیں منگوانی۔“ شاہ نور نے قمیص کے بٹن بند کرتے ہوئے مصروف سے انداز میں ماں سے پوچھا تھا۔
”نہیں بیٹے! کچھ بھی نہیں منگوانا۔ ہاں ذرا رحاب کو بھی چالاس تک لے جاؤ۔ فون کرنا چاہتی ہے اپنے گھر…“
”میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے کہ جگہ جگہ رکتا پھروں۔ آپ اسے قریبی قصبے میں خود لے جایئے گا۔
“ وہ رکھائی سے کہتا ہوا پلٹ گیا تھا جبکہ رحاب گم سم سی سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہ گئی۔
اگلی صبح خانم کے ہمراہ قریبی قصبے میں وہ فون کرنے آئی تھی۔ ماہا سے بات کرنے کے بعد اس نے گھر کا نمبر ڈائل کیا تھا۔ اس کا ارادہ چاچو سے بات کرنے کا تھا مگر اس کی بدقسمتی کہ ماما نے کال ریسیو کی۔ اس کی آواز سنتے ہی ان کا پارہ چڑھ گیا تھا۔

(جاری ہے)

”سیاحت کا شوق ابھی پورا نہیں ہوا۔
کب آ رہی ہو تم دونوں گھر؟ جب بھی فون کرتی ہوں ماہا بتاتی ہے کہ تم باہر ہو۔ کچھ گھر داری ہی سیکھ آؤ خالہ سے کہ بس آوارہ گردی ہی کرنا ہے۔“ رحاب نے بے ساختہ اک لمحے کیلئے ریسیور کان سے ہٹایا۔ اس پل اسے اپنی چھوٹی بہن پر ٹوٹ کے پیار آیا تھا۔
”یعنی کہ ماما کو نہیں پتا کہ میں کہاں پہنچی ہوئی ہوں۔“ رحاب نے سوچا اور پھر قدرے بشاش لہجے میں بولی۔
”ماما! یہاں کی آب و ہوا نہایت ہی خوشگوار ہے۔ جگہ جگہ حسن و رعنائی کے ایسے نمونے نظر آتے ہیں کہ دل خود بخود اللہ بزرگ برتر کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ میں یہیں پر ہی رہ جاؤں۔ اتنا سکون ہے یہاں پر نہ کوئی شور نہ ہنگامہ…“ وہ اپنی ہی جون میں کہے جا رہی تھی۔ خانم نے کچھ چونک کر اس کے حسین چہرے کو نگاہ بھر کر دیکھا۔
اک خوشگوار سی ہلچل دل و دماغ میں ہوئی تھی۔
”اُف میں نے بھی چند سیکنڈوں میں کیا کیا سوچ لیا ہے۔“ انہوں نے بے ساختہ خود کو ڈپٹا اور ایک دفعہ پھر رحاب کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
”ماما! آپ بھی نہ بس ایک ہی بات کے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔ مجھے نہیں کرنی ابھی شادی وادی۔ آپ ان لوگوں کو منع کر دیں۔“ اس نے دھیمے مگر سخت لہجے میں کہا تھا۔
”چھوڑیں ان باتوں کو آپ یہ بتائیں کہ چاچو کی طبیعت کیسی ہے۔
“ رحاب نے ریسیور دوسرے کان کی طرف منتقل کرکے کن انکھیوں سے خانم کی طرف دیکھا تھا۔ وہ بد رنگ شیشے کے پار حسین مناظر کی خوبصورتیوں میں کھوئی ہوئی تھیں۔ رحاب نے مزید دو چار باتیں کرکے فون رکھ دیا۔
وہ دونوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں گم گاڑی تک آئیں۔ ہیبت خان نے انہیں آتا دیکھ کر دروازہ کھول دیا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے ہیبت خان سے کہا۔
”خان! وادی داریل تک چلو… رحاب بی بی کو دیامر کی سب سے حسین اور منفرد وادی کی سیر کروا لائیں۔“ داریل پہنچنے سے پہلے راستے میں جتنے بھی خاص مقامات آئے تھے خانم نے گاڑی رکوا کر رحاب کو ان کی خصوصیت ان علاقوں میں بسنے والوں کے رہن سہن اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں تفصیلاً بتایا تھا۔
داریل کے باسی دور قدیم سے ہی بے انتہا مذہبی اور عقیدت مند لوگ ہیں۔
انہیں مذہب سے حد درجہ لگاؤ ہے۔ جب اسلام ان علاقوں میں ابھی نہیں پھیلا تھا تب بھی یہاں کے لوگ انتہائی مذہب پرست تھے۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہاں پر بدھ مذہب کو مانا جاتا تھا۔ جب اسلام دور دراز کے علاقوں تک پھیلا اور دلوں میں ایمان کی روشنی نے اجالے بکھیرے تو اہل ایمان نے اپنے دلوں اور علاقوں سے بدھ درس گاہوں کو مٹا دیا۔ یہاں کی عورتیں بے حد جفا کش اور بہادر ہیں۔
اس کی ایک مثال تو خود خانم بھی تھیں۔ جو کہ انتہائی پسماندہ گاؤں سے اٹھ کر ایبٹ آباد تک گئیں اور ناصرف علم کے زیور سے خود کو آراستہ کیا بلکہ اپنے گاؤں میں تمام سہولیات سے مزید تعلیمی درس گاہ بنا کر جہالت کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدل دیا۔
یہاں پر بھی پھلوں کے باغات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ تقریباً دو بجے کے قریب وہ داریل پہنچے تھے۔
رحاب کا تھکن کے مارے برا حال تھا۔ خانم اسے اپنے چچا کے گھر بھی لے کر گئی تھیں۔ گھنٹہ بھر آرام کرنے کے اور پرتکلف کھانا کھانے کے بعد انہوں نے جانے کی اجازت مانگی تو خانم کی دونوں چچا زاد بہنیں ٹھنکنے لگی تھیں۔
”رک جائیں خانم۔“ وہ دونوں اصرار کر رہی تھیں۔ خانم نے بمشکل ان سے اجازت مانگی تھی دوبارہ آنے کے وعدے کے ساتھ۔ خجستہ اور خوش بخت نے بمشکل ہی اجازت دی تھی۔
رحاب کو یہ پڑھی لکھی بااخلاق فیملی بہت پسند آئی تھی۔ دونوں لڑکیاں ناصرف تعلیم یافتہ بلکہ بہت سلیقہ مند اور سگھڑ بھی تھیں۔ اتنے مختصر سے وقت میں انہوں نے بے حد پھرتی سے کھانا تیار کیا تھا رحاب حیران ہی تو رہ گئی تھی۔ اتنے سے وقت میں اس سے تو چائے تک نہیں بن سکتی تھی۔ کجا کہ کھانا پکانا  رحاب نے پہلی مرتبہ اخروٹ  بادام  کشمش اور چلغوزہ کے تڑکے والی بریانی کھائی تھی۔
جانے سے پہلے مرجان بی بی نے انتہائی خوبصورت شال اور کڑھائی والا سوٹ بطور گفٹ دیا تھا اسے۔
رات نو بجے کے قریب وہ لوگ گھر پہنچے تھے۔ رحاب تو آتے ہی پلنگ پر ایسی گری کہ اگلی صبح ہی آنکھ کھل سکی تھی۔ وقت دیکھا تو آٹھ بج چکے تھے۔ نماز تو قضا ہو چکی تھی۔ لہٰذا وہ وضو کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی۔ تلاوت کے بعد اس نے سچے دل کے ساتھ گڑگڑا کر دعا مانگی تھی۔
دل کا بوجھ کچھ ہلکا سا ہو گیا تھا۔ اس نے یونہی کھڑکی میں سے جھانکا تو شاہ نور پر نگاہ پڑی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے نیچے چلی آئی تھی۔ شاہ نور اپنے ہی دھیان میں مگن پودوں کی جھاڑ جھنکاڑ اور اضافی شاخیں کانٹ چھانٹ رہا تھا۔ رحاب اس کے قریب پہنچ کر ہولے سے کھنکاری اور پھر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولی تھی۔
”ہم سے بہتر تو یہ پھول پودے ہی ہیں جن پر اتنی توجہ دی جا رہی ہے۔
“ شاہ نور نے قدرے رخ موڑ کر ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈالی تھی اور پھر دوبارہ سے اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”آج گھر میں کیوں نظر آ رہے ہو  خیریت تو ہے نا۔“ عموماً وہ اس کے اٹھنے سے پہلے ہی چلا جاتا تھا۔ خلاف توقع اسے گھر میں موجود پا کر اسے حیرت ہوئی تھی۔ شاہ نور نے کٹر پھینک کر ہاتھ جھاڑے۔
”یہ گھر میرا ہے محترمہ۔“ شاہ نور دانت پیس کر جتایا تھا۔
”باپ کا گھر اپنا ہوتا ہے۔ یہ گھر تمہارے نانا کا ہے تمہارا نہیں۔“ غلط موقع پر غلط بات اس کے منہ سے نکل گئی تھی۔ شاہ نور کے چہرے کا رنگ یک لخت بدل گیا۔ آنکھیں خون چھلکانے لگی تھی۔ لب بھینچتے ہوئے اس نے بمشکل خود پر قابو پایا تھا۔ ورنہ دل تو چاہ رہا تھا سامنے کھڑی لڑکی کا گلا دبا دے۔ جو انجانے میں اس کے زخموں پر کھرنڈاتار گئی تھی۔
اگر وہ اماں کی مہمان نہ ہوتی تو وہ اسے اس گستاخی کی ایسی کڑی سزا دیتا کہ ساری زندگی وہ بھول نہ پاتی  اسے پتا تو چلتا  احساس تو ہوتا کہ دلوں کو چھیدنے کی تکلیف کیا ہوتا ہے۔ رحاب اسے غصے سے باہر نکلتا دیکھ رہی تھی وہ چاہ کر بھی اسے روک نہیں پائی تھی۔
اگلے اکتیس گھنٹے اس کے اس پشیمانی میں گزرے تھے۔ جب تک وہ آ نہیں گیا تھا اور رحاب نے اس سے معذرت نہیں کر لی تھی وہ اسی طرح جلے پیر کی بلی کی طرح چکراتی رہی تھی۔
خانم نے ایک دو مرتبہ اس کی بے قراری محسوس کرکے وجہ معلوم کرنا چاہی مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہو گئیں۔
اگرچہ شاہ نور نے اس کی معذرت قبول کر لی تھی۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں رحاب مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی۔ قریبی مسجد میں عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ خانم تخت سے اٹھ کر وضو کرنے چل دیں اور رحاب بھی قمیص کی نادیدہ سلوٹیں درست کرتی باہر نکل آئی۔
موسم بہت خوشگوار تھا۔ آسمان پر بادل تیر رہے تھے۔ ہلکی ہلکی پرنم ٹھنڈی ہوا چہرے سے ٹکرائی تو موڈ خود بخود ہی فریش ہو گیا۔
ڈیرے کی حدود شروع ہوتے ہی اس کے قدموں میں تیزی آ گئی تھی۔ آڑو کا پھل اتارا جا رہا تھا۔ اسی لئے ڈیرے پر اچھی خاصی گہما گہمی تھی۔
بہادر خان کو ہدایات دیتا جونہی وہ پلٹا نگاہ سامنے سے آتی رحاب پر پڑی۔
شاہ نور نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور پھر خود تیزی قدموں سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔ ”کیوں آئی ہو؟“ خلاف معمولی وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
”ایسے ہی بور ہو رہی تھی۔ سوچا تم سے گپ شپ ہی کر لی جائے۔“ رحاب نے لاپروائی سے کہا۔ ”ہمارے درمیان تو گویا بہت ہی اچھے دوستانہ تعلقات قائم ہیں نا؟“ شاہ نور مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
”تعلق بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے۔
“ وہ معنی خیزی سے گویا ہوئی تھی۔ شاہ نور ہنوز مسکرا رہا تھا۔
”بعض تعلق مبہم ہوتے ہیں اور بعض واضح۔ جیسا کہ میرے اور تمہارے درمیان (دل) کا تعلق اور میرا اور تمہارا خون کا رشتہ۔“ رحاب بے اختیار سوچنے لگی تھی۔
”تم گھر چلو شام کے سائے پھیل رہے ہیں۔“ اس کے چہرے کے تاثرات کا بغور جائزہ لیتا ہوا وہ نرمی سے بولا تھا۔ رحاب سرہلا کر پلٹ گئی۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi