Episode 39 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 39 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا۔“ ٹھنڈے صاف شفاف پانی میں ننھے منے کنکر پھینکتی رحاب کو اس نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ جھیل کے کنارے اونچے سے پتھر پر بیٹھی وہ پانی میں بنتے بکھرتے بھنور دیکھ رہی تھی۔ وہ اس شغل میں اس قدر محو تھی کہ شاہ نور کی آواز بھی نہ سن سکی۔
”اے محترمہ! میں آپ سے مخاطب ہوں۔“ شاہ نور نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگی تھی۔
شاہ نور مسکراتے ہوئے اس کے قریب ہی بیٹھ گیا تھا اور ایک دفعہ پھر اپنا سوال دہرایا۔
”ہم دو بہنیں ہیں  بھائی کوئی نہیں۔ ماما ہاؤس وائف ہیں جبکہ پاپا کا گاڑیوں کا شور روم ہے۔ میں نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا ہے جبکہ ماہا ابھی زیر تعلیم ہے۔“ اس نے مختصر سا اپنے بارے میں بتایا۔

(جاری ہے)

”اب تم بتاؤ اپنے بارے میں۔“ رحاب نے آخری کنکر پھینک کر اس کی طرف رخ کیا تھا۔
”میرے بارے میں تم مجھ سے بھی زیادہ جانتی ہو۔“ شاہ نور مسکرایا تھا۔ رحاب بھی ہنس پڑی۔
”میں تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں۔“ 
”میں اپنی اماں کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ تھوڑا بہت ہم نے بھی پڑھ رکھا ہے۔ ایم بی اے کرنے کے بعد جاب کی ایک دو اچھی آفرز آئی تھیں مگر میرا دل نہیں مانا۔ مجھے اپنے اس خطے سے بہت محبت ہے جبکہ یہاں کے لوگوں سے عشق۔
اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی کیلئے میرے نانا اور اماں نے انتھک محنت کی ہے۔ بستی میں موجود دو بڑے میڈیکل اسٹور اور چھوٹا سا کلینک نما ہسپتال اماں اور نانا کی محنت کا نتیجہ ہے جبکہ اس اسکول کی عمارت کا خواب میں نے اس وقت دیکھنا شروع کیا تھا جب خوابوں کے معنی و مفہوم کا پتا بھی نہیں ہوتا۔ پانچ سال کے مختصر سے عرصے میں اسکول کی عمارت کھڑی ہو گئی تھی مگر بدقسمتی سے میرے نانا اس شاہکار کو دیکھ نہیں پائے تھے۔
“ اس کے لہجے میں محسوس کی جانے والی آزردگی تھی۔ رحاب نے اس کے شانے پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور کچھ سوچ کر آہستگی سے بولی۔
”تم نے اپنی اماں اور نانا کا ذکر کیا ہے جبکہ بابا۔“ وہ جھجک کر خاموش ہو گئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اسے جھڑک کر خاموش کروا دے گا۔
”میرا باپ میرے لئے مر چکا ہے۔“ وہ کٹیلے لہجے میں گویا ہوا۔
”میں سمجھی نہیں۔
“ رحاب نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا تھا۔
”اس شخص نے میری ماں کو اس وقت چھوڑ دیا تھا جب میں ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ میرا بس چلے تو اس شخص کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ اسے جلا کر راکھ کر دوں یا پھر زندہ ہی زمین میں گاڑ دوں۔“ اس کے لہجے میں بھوکے شیر کی سی غراہٹ تھی۔ رحاب کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی تھی۔
”دفع کرو اس ذکر کو  چلو آؤ گھر چلتے ہیں۔
“ شاہ نور نے بوجھل سانس خارج کرکے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ رحاب بھی کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھی۔ وہ گھر آئے تو خانم کو اپنا منتظر پایا۔
”ولی خان بتا کر گیا ہے کہ گل مینا کا فون آیا ہے۔ عرش چھٹیاں گزارنے آ رہی ہے۔ لوکل بس کے ذریعے چالاس تک آئے گی۔ تم جا کر اسے لے آنا۔“ خانم بے حد پرجوش تھی۔ رحاب ”گل مینا“ کے ذکر پر ٹھٹک گئی۔
”میں فارغ نہیں ہوں اماں! آپ ہیبت خان کو بھیج دیجئے گا۔“ عرش کے ذکر پر اس کا انداز اور لب و لہجہ ایسے ہی روکھا پھیکا اور کڑوا ہو جاتا تھا۔
”میری بہت ہی پیاری سہیلی کی بیٹی ہے عرش  ڈاکٹر ہے اور کالج میں پڑھاتی بھی ہے۔“ خانم اب رحاب کو عرش کی چیدہ چیدہ خوبیوں کے متعلق بتا رہی تھیں۔ شاہ نور بے زار سے ہو کر اٹھ گیا تھا۔ رحاب نے اس کی بے زاری واضح نوٹ کی تھی۔
پری چہرہ اور زہرینہ کچن میں مصروف تھیں۔ خانم کے اٹھنے کے بعد وہ ان کے پاس کچن میں آ گئی تھی۔
”عرش بی بی آ رہا ہے۔ اب امارا خیر نہیں۔ بھاگ بھاگ کر جان نکل جاتی ہے اماری ٹانگوں میں سے۔ اوپر سے باتیں اور نخرہ اللہ کی پناہ۔“ پری چہرہ بلند آواز میں زہرینہ سے کہہ رہی تھی۔
”سنا ہے بی بی ڈاکٹر ہے۔ ام اماں کی دوا لکھوا لے گا اس سے اور۔
“ زہرینہ ڈاکٹرنی کے آنے کا سن کر بہت خوش ہو رہی تھی۔ پری چہرہ نے تاسف سے اس کی طرف دیکھا اور پھر بات کاٹتے ہوئے بولی۔
”بی بی ڈاکٹرنی تو ہے پر امیروں کی  ماڑے غریبوں کی نہیں۔ اس کو تو ام جیسوں سے وہ کیا کہتے ہیں۔ ہاں اسمل آتا ہے۔“ پری چہرہ نے گوشت دھوتے ہوئے تلخی سے کہا تھا اور پھر دروازے میں کھڑی رحاب کو دیکھ کر سٹپٹا گئی۔
”بی بی! کچھ چاہئے۔
”ہاں اگر ایک کپ چائے مل جائے تو۔“
”کیوں نہیں ام ابھی لایا۔ تم چلو۔“ وہ نہایت احترام سے بولی تھی۔ اپنی اچھی عادتوں اور ہمدرد فطرت کی وجہ سے خانم کی یہ مہمان نوکروں تک کو بہت پسند تھی۔
چھ بجے کے قریب عرش صاحبہ تشریف لے آئی تھیں۔ آتے ہی خانم کے پاس تخت پر بیٹھی انتہائی خوبصورت لڑکی کو دیکھو کر وہ ٹھٹک گئی تھی۔ جس طرح کے تفتیشی انداز میں عرش نے رحاب کے متعلق استفسار کیا تھا۔
خانم کو بھی کچھ اچھا نہیں لگا تھا تاہم وہ بولی کچھ نہیں تھی۔ عرش کے ہر ہر انداز میں مالکانہ تاثر چھلکتا تھا۔
”تم کب سے آئی ہو؟ کیوں آئی ہو؟ جانا کب ہے؟“ جیسے سوال پوچھ پوچھ کر ڈاکٹرنی نے رحاب کو بے حد بے زار کر دیا تھا۔ اس لئے وہ کھانا لگنے سے پہلے ہی اوپر چلی گئی۔
”شاہ نور کیوں نہیں مجھے لینے آیا۔“ وہ خانم کے گلے میں بانہیں ڈالے دلار سے بولی تھی۔
”ضروری کام سے کہیں جانا تھا اسے۔ تم یہ بتاؤ کہ ماما کیوں نہیں آئیں۔“
”آنا تو وہ بھی چاہ رہی تھیں مگر بالکل اچانک ہی لاہور سے پھوپھو اپنی فیملی کے ساتھ چلی آئی تھیں۔ اس لئے پروگرام بدلنا پڑا۔“ عرش بے قراری سے بار بار بیرونی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد پری چہرہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی۔ عرش کی شاہ نور سے ملاقات کھانے کی میز پر ہوئی تھی۔
وہ اپنی خفگی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”جناب! آج کل کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئے ہیں۔“ شاہ نور نے اک نظر اس کے خفا خفا چہرے پر ڈالی اور پھر کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ پری چہرہ گرم گرم کباب لے آئی تھی۔
”رحاب کہاں ہے  کھانا نہیں کھائے گی۔‘
”بی بی کے سر میں درد ہے۔ دوا کھا کر سو گیا ہے وہ“ پری چہرہ کے بتانے پر اس نے سر ہلایا۔ عرش نے تیکھی سی نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی اور پھر بے دلی سے چاول ٹونگنے لگی۔
آئندہ آنے والے دنوں میں رحاب سخت بوریت کا شکار ہوئی تھی۔ شاہ نور ان دنوں کم کم ہی گھر آتا تھا۔ زیادہ تر اس کا وقت ڈیرے پر ہی گزرتا۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi