کافی دنوں بعد اسے گھر میں موجود پاکر رحاب کو خوشگوار حیرت نے گھیر لیا تھا۔ اسے جو بے نام سی بے چینی اذیت دے رہی تھی وہ ایک دم ہی رفع ہو گئی۔ وہ سرعت سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو عرش صاحبہ پہلے سے موجود تھیں۔ کوفت و جھنجلاہٹ کے مارے رحاب کا برا حال ہو گیا۔ وہ بے دلی سے پلٹ گئی تھی۔
ادھر ڈاکٹرنی صاحبہ شکوے شکایات کا دفتر کھولے بیٹھی تھیں۔
شاہ نور چونکہ رحاب کو مڑتے دیکھ چکا تھا لہٰذا جلد از جلد عرش کے ٹلنے کی دعا کرنے لگا۔
”مجھے آئے ہوئے آج چوتھا دن ہے اور تم مجھے کہیں بھی گھمانے پھرانے نہیں لے کر گئے؟“
”ایک سو بیس دفعہ تو تم نے یہ علاقہ دیکھا ہے۔ وہ ہی پہاڑی ہیں وہ ہی درخت ہیں وہی آبشاریں اور جھیلیں ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ اب تو تمہارے دیکھنے کیلئے اس جگہ میں کچھ بھی نہیں رہا۔
(جاری ہے)
میری بات مانو تو بنی کے جنگلات کی سیر کر آؤ۔ بس اسی جگہ کے دیدار سے تم محروم ہو۔“
”تم ساتھ چلو تو جنگل ہی کیا صحراؤں کی خاک بھی چھان لیں گے۔“ عرش انتہائی دلبرانہ انداز میں بولی تھی۔ شاہ نور بے نیازی سے مسکراتا رہا۔
”لگتا نہیں کہ تم ڈاکٹر ہو۔“ اس نے افسوس سے سر ہلایا۔ عرش اگرچہ اس کے طنز کو سمجھ چکی تھی لیکن ڈھیٹوں کی طرح مسکراتی رہی۔
دوسرے ہی دن صبح صبح وہ اس علاقے کی پسماندگی کو کوستی ساتھ والے قصبے میں ماما کو فون کرنے چلی گئی تھی۔ ولی خان عرش کو دیکھ کر احتراماً کھڑا ہو گیا اور پھر فون سیٹ اس کے قریب رکھ کر خود باہر چلا گیا۔
”کب آ رہی ہیں ماما آپ“ عرش نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
”خیر تو ہے بیٹا! تم پریشان لگ رہی ہو۔“
”بس آپ جلدی سے آ جائیں اب جلد از جلد میری اور شاہ نور کی انگیج منٹ کا اعلان ہو جانا چاہئے۔
مجھے آس پاس خطرے کی بو آ رہی ہے۔“ عرش فکر مندی سے گویا ہوئی تھی۔
”سیدھی طرح بتاؤ کہ کیا مسئلہ ہے۔ الٹی سیدھی ہانکے جا رہی ہو۔“ دوسری طرف گل مینا چیخ کر بولی تھیں۔
”مجھے تو رحاب اور شاہ نور کے درمیان کوئی چکر لگ رہا میری چھٹی حس مجھے غلط انفارم نہیں کر رہی ہے۔“
”یہ رحاب ہے کون۔“ گل مینا نے غصے سے پوچھا۔
”پتا نہیں کون ہے۔
آنٹی بتا رہی تھیں کہ سیرو تفریح کی غرض سے آئی ہے۔“
”پشمینہ کے رشتے داروں میں سے تو نہیں۔“
”نہیں۔“
”اچھا تم پریشان مت ہو۔ میں دو تین دن تک آ جاؤں گی۔“ گل مینا نے اسے تسلی دلاسے دے کر فون بند کر دیا تھا۔ ان کے چہرے اور آنکھوں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
######
رات کا نجانے کون سا پہر تھا۔ رحاب کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔
عرش کی آمد اس کیلئے بے فشمار الجھنوں کا باعث بنی تھی۔ اب وہ جلد از جلد شاہ نور سے دو ٹوک بات کرنا چاہتی تھی مگر نجانے کیوں اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ یہ بزدلی گھبراہٹ و بے قراری محبت کے کھو جانے کے ڈر سے تھی۔ وہ جتنا سوچتی اتنا ہی الجھتی۔ شاہ نور کس طرح سے پیش آئے گا؟ خانم کیا سوچیں گی؟ اور سب سے بڑی بات یہ لوگ میرا یقین کریں گے بھی یا نہیں۔
اسی پل رحاب کو یوں محسوس ہوا تھا جیسے دروازے پر دستک ہوئی ہے۔ پہلے اس نے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کرنا چاہا تھا مگر دستک کی آواز متواتر آ رہی تھی۔ وہ پیروں میں سلیپر اڑس کر سیڑھیاں اتر کر نیچے آ گئی۔ برآمدہ اور صحن عبور کرکے وہ بیرونی گیٹ تک پہنچ گئی تھی۔
”کون ہے…؟“ اس نے جی کڑا کرکے بلند آواز میں پوچھا۔ دوسری طرف زہرینہ کی منمناتی آواز سنائی دی تھی۔
رحاب نے حیرانی کے عالم میں دروازہ کھولا۔
”کیا بات ہے زہرینہ؟“
”بی بی! مارا بھائی کی بیوی بوت بیمار ہے۔ لالا سے کہنا ہے ہیبت خان کو بولے اس کو شہر لے چلے۔“ وہ بھرائی آواز میں تفصیل بتانے لگی تھی۔
”شہر جانے میں تو بہت وقت لگے گا جبکہ تم بتا رہی ہو کہ اس کی حالت کافی نازک ہے۔ تم ایسا کرو میرے ساتھ آؤ۔ ڈاکٹر عرش سے کہتے ہیں کہ وہ تمہاری بھابھی کو دیکھ لے ڈلیوری کیس ہے ذرا سی تاخیر ماں اور بچے کی جان لے سکتی ہے۔
“ رحاب تیز تیز بولتے ہوئے اندرونی حصے کی طرف بڑھی تھی۔
چوتھی دستک پر عرش نے بمشکل ہی اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔ رحاب اور زہرینہ کو دیکھ کر وہ قدرے حیران ہوئی۔
”عرش! پلیز تم ہمارے ساتھ آؤ۔ اس بے چاری کی بھابھی بہت بیمار ہے۔ ذرا اسے دیکھ لو۔ یہاں اردگرد کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ہے جسے بلا لیا جائے جبکہ شہر بہت دور ہے۔ پلیز جلدی آؤ…“ رحاب کے ساتھ پاؤں زہرینہ کی حالت دیکھ کر پھولے جا رہے تھے۔
عرش نے بہت اطمینان کے ساتھ اس کی ساری بات سنی تھی۔
”آئم سوری! میں نے گائنی میں اسپلائزیشن نہیں کیا۔“ اس نے بے حد روکھے لہجے میں کہتے ہوئے ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ رحاب اس کا جواب سن کر سلگ اٹھی۔
”تم ڈاکٹر ہو کچھ نہ کچھ تو ٹریٹمنٹ دے سکتی ہو۔ کم از کم شہر لے جانے تک اس کی حالت کچھ تو سنبھل جائے۔“ رحاب کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اس بے حس کے منہ کو ہی نوچ لیتی۔
”میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی تم لوگ اپنا وقت ضائع مت کرو۔“ وہ پلٹتے ہوئے رکھائی سے بولی تھی۔ رحاب حق دق سی اس کی پشت کو دیکھنے لگی۔ عرش بلند آواز میں بڑبڑا رہی تھی۔
”اونہہ… میں ان پہاڑی عورتوں کے بچے پیدا کرواؤں۔ بہت شوق ہے ان عورتوں کو درجنوں کے حساب سے بچے پیدا کرنے کا۔ خوامخواہ نیند خراب کر دی ہے۔“ عرش کو دل ہی دل میں گالیوں سے نوازتی وہ مجبوراً شاہ نور کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔
اسے دروازے کے بیچ کھڑا دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ ”زہرینہ! تم جاکر انہیں تیار کرو۔ میں آ رہا ہوں۔“ زہرینہ کے پیچھے وہ بھی گاڑی کی چابی اور والٹ لے کر نکل گیا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے اک لمحے کیلئے رحاب کے قریب رک کر کہا۔
”تم سو جاؤ… خان گیٹ بند کر لے گا…“ شہادت کی انگلی سے اس کے رخسار کو چھو کر وہ نرمی سے بولا تھا اور پھر سرعت سے باہر نکلتا چلا گیا۔
######