Episode 41 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 41 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”تم یہاں بیٹھی ہو اور پوری بستی میں تلاش کرتا پھر رہا ہوں تمہیں۔“ وہ اپنی پسندیدہ جگہ جھیل کے کنارے اسی پتھر پر بیٹھی پانی میں کنکر پھینک رہی تی جب شاہ نور اسے آوازیں دیتا ڈھونڈتا ہوا ادھر آ گیا تھا۔ رحاب بے دلی سے مسکرا دی۔
”تمہیں یہ جگہ کچھ زیادہ پسند ہے۔“
”ہوں… بہت سکون ہے یہاں پر  دل کرتا ہے آنکھیں موندے خاموشی سے بیٹھی رہوں۔
کوئی آواز نہ ہو  شور نہ ہو  بس تنہائی اور خاموشی ہو۔“
”خیریت تو ہے اتنی یاسیت…“ شاہ نور نے کچھ حیرت سے کہا تھا۔
”شاہ نور! ایک بات کہوں…“ کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے تھے اور پھر جب وہ بولی تو بے انتہا سنجیدہ تھی۔ شاہ نور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
”کل صبح میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔

(جاری ہے)

تمہاری ایک ”امانت“ میرے پاس ہے۔

جو کہ رائٹنگ ٹیبل پر رکھ کر آئی ہوں میں۔“ اک پل کی خامشی کے بعد اس نے آہستگی سے کہا تھا۔
”تم اس حقیقت کو مان جاؤ گے کہ میرا اور تمہارا بہت گہرا نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے…؟ تم… تم میرے چاچو فراز سکندر کے اکلوتے بیٹے ہو شاہ نور۔“ رحاب نے لب کاٹتے ہوئے اس کے سر پر گویا بم بلاسٹ کیا تھا۔ وہ حیرت  دکھ اور بے یقینی کے احساس سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
اس انکشاف نے اسے گم سم کر دیا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں۔ شاہ نور کو تو گویا زمان و مکان بھول گئے تھے۔ بس ہر طرف سے ایک ہی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ ”تم میرے چاچو فراز سکندر کے بیٹے ہو۔“
کیسی دل چیر دینے والی تلخ حقیقت تھی۔ شاہ نور کے دل میں نفرت کا ایک طوفان سا اٹھا تھا۔ آنکھیں یک لخت ہی لہو رنگ ہو گئیں۔
کانوں سے دھویں کی گرم لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اس نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے رحاب کی طرف دیکھا۔ وہ دھیمے اداس لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”میں نہیں جانتی کہ اس حقیقت کو تمہیں بتا دینے کے بعد میں تمہیں پالوں گی یا ہمیشہ کیلئے کھودوں گی۔ جب میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا تو اس بات کا مجھے یقین تھا کہ میں جیتوں گی لیکن اس وقت تمہیں دیکھ کر مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ میں ہار گئی ہوں میرا یقین ہار گیا ہے اور… اور میرا دل بھی ہار گیا ہے… سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ میں یہاں ایک خاص مقصد لے کر آئی تھی مگر اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔
یہ ٹھنڈے پانی کی جھیل  بلند و بالا  یہ اونچے پہاڑ اور سر سبز و شاداب پیڑ اس بات کی گواہی دیں گے۔ میں تم سے…“
”بکواس بند کرو…“ وہ پوری شدت سے چلایا تھا۔ ”دھوکے باز  جھوٹی مکار عورت۔“ مغلظات کا اک طوفان اس کے لبوں سے نکلا تھا اور رہاب کو ششدر رہ گیا۔
”اتنا عرصہ ہمیں بے وقوف بناتی رہی ہو۔ گھٹیا عورت۔“ وہ چیخ چیخ کر بول رہا تھا۔
”یہاں آنے کے فوراً بعد میں تم کو یہ سب بتا دینا چاہتی تھی مگر…“ رحاب نے لب کاٹتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
”تمہیں اس جگہ کا پتا کس نے دیا ہے…؟“ اس نے کٹیلے لہجے میں پوچھا۔
”پلوشہ نے…“ رحاب سر جھکا کر بولی۔
”اوہو… تو گویا تم پوری پلاننگ کے ساتھ آئی ہو۔ تمہارا مجھ سے ٹکرانا  فون کالز کرنا اور یہ چاہتوں کا ڈھونگ… خوب بہت خوب  اتنی اچھی ایکٹنگ پرتمہیں ایوارڈ دینا چاہئے۔
“ شاہ نواز نے غرا کر کہا اور پھر ایک لمحے کی خاموشی کے بعد بولا۔
”تم یہاں گھومنے پھرنے سیاحت کا شوق پورا کرنے آئی تھی نا یہی کہا تھا تم نے اماں کو۔ تمہاری کون سی بات پر یقین کیا جائے۔ کیسے کرواؤگی اماں سے اپنا اصل تعارف کہ تم اس شخص کی بھتیجی ہو جس کا ذکر بھی سننا گوارا نہیں کرتیں۔ اس گھٹیا ذلیل آدمی نے تم کو اپنی وکالت کرنے کیلئے بھیجا ہے۔
اب کیا ضرورت پیش آ گئی ہے اسے ہمدردی۔ یا پھر یہ دیکھنے کیلئے آئی ہو کہ ہم کس حال میں رہ رہے ہیں۔ اس بے غیرت کو جا کر بتانا کہ تم نے تو میری ماں کو ٹھکرا دیا تھا۔ دھتکار دیا تھا مگر یہاں آکر دیکھو کہ لوگ کس طرح اس کے راستوں کو چومتے ہیں۔ کتنی عزت و تکریم سے پیش آتے ہیں۔ میری ماں نہ تو اس وادی کی سردار ہے نہ بہت بڑے جاگیردار کی بیٹی اس کے باوجود وہ اس بستی کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتی ہے۔
اسے بتانا کہ پشمینہ خانم آج بھی اسی شان سے جی رہی ہے اور یہ کہ تم صرف اور صرف اس کانٹے کی مانند ہو جو اذیت دیتا ہے چبھن دیتا ہے اور جس نے پشمینہ خانم کے ہونٹوں کی مسکراہٹ چھین لی ہے۔“
”نہیں شاہ نور پلیز اس لہجے میں میرے چاچو کا ذکر مت کرو۔ تمہیں نہیں پتا کہ وہ کتنا عظیم شخص ہے۔ اس جیسی محبت تو کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ اس کی زندگی کو  اس کے دل کو تو ایک وعدے نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔
تم نہیں جانتے شاہ نور کہ وہ پچھلے اٹھائیس سالوں سے تم لوگوں کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔“ رحاب نے بے قراری سے کہا۔
”اس کی سزا بھی یہی ہے کہ وہ تڑپتا رہے سلگتا رہے۔“ شاہ نور نے نفرت سے کہا تھا اور پھر کچھ پل اس کے چہرے کی طرف دیکھنے کے بعد اسی کھردرے  سخت نفرتوں سے لبریز لہجہ میں بولا۔
”تم یہاں سے چلی جاؤ رحاب! ورنہ…“
رحاب بھیگی پلکوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتی اٹھی اور شکستہ قدموں سے چلتی ہوئی بہت دور نکل گئی تھی۔ شاہ نور دھندلائی نظروں سے اس کی پشت کی طرف دیکھتا رہا اور بڑبڑاتا رہا۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi