Episode 42 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 42 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”میں کیسے ناتا جوڑ لوں تم سے رحاب کہ تم اس شخص کی بھتیجی ہو جس نے میری ماں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔جو میرے بچپن میری معصومیت کا قاتل ہے۔ جس نے سوائے دکھوں کے ہمیں کچھ نہیں دیا اور جو میرے وجود سے ہی انکاری تھا۔جس نے مجھے اپنی اولاد ہی تسلیم نہیں کیا تھا اور جس نے میرے نانا کو خط لکھ کر میرے ماں کے کردار پر کیچڑ اُچھالا تھا۔“
وہ ساری رات گھر نہیں آیا تھا اور رحاب آخری مرتبہ جانے سے پہلے اس سے ملنا چاہتی تھی۔
کچھ سوچ کر وہ پری چہرہ کے ہمراہ ڈیرے پر آ گئی تھی۔ شاہ نور نے اسے دیکھتے ہی منہ موڑ لیا تھا۔
”شاہ نور! کیا تم میرے ساتھ نہیں چلو گے؟اپنے باپ سے نہیں ملو گے۔ان کے سینے سے نہیں لگو گے۔“رحاب نے اسے جھنجوڑتے ہوئے کہا تھا۔
”کل میں نے گھر فون کیا تھا۔

(جاری ہے)

ماما بتا رہی تھیں کہ چاچو کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔

اسپتال میں ہیں وہ۔ چاچو مجھے یاد کر رہے ہیں وہ تمہیں بھی یاد کر رہے ہیں۔ ان کی اس اذیت کو ختم کرکے ایک مرتبہ مل لو ان سے۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے… پلیز شاہ نور اتنے پتھر دل مت بنو۔ میرے ساتھ چلو اگر دیر ہو گئی تو مسافر اپنے آخری سفر پر نکل جائے گا۔ آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ مجھے تنہا دیکھ کر ان کا کمزور بیمار دل مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے گا۔
“ رحاب نے گڑگڑاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تھا۔ شاہ نور اجنبی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
”میں نے تم سے کہا تھا نا کہ چلی جاؤ یہاں سے۔ میں تمہاری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔“
”تمہیں اس محبت کی قسم جو تم مجھ سے کرتے ہو۔“ وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی۔
”یوں مت کرو شاہ نور! مجھے نامراد مت لوٹاؤ…“ رحاب کے آنسو اس کے قدموں پر گر رہے تھے۔
اس نے بے بسی سے رحاب کے جھکے سر کی طرف دیکھا اور پھر ایک جھٹکے سے رخ موڑتا واپس چلا گیا تھا۔ رحاب پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی اور اسے پتا ہی نہیں چلا تھا کہ اس کے ساتھ پری چہرہ بھی رو رہی ہے۔
”تم مت رو بی بی  ام کو بوت تکلیف ہوتا ہے۔ ام تم کو روتا نہیں دیکھ سکتا۔ تم… تم ہنستا ہوا اچھا لگتا ہے ام کو…“ پری چہرہ نے اس کے ہاتھ پکڑ کر التجا کی تھی۔
رحاب بے اختیار اس کے شانے پر سر رکھ کر رونے لگی۔ اس کا دل قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا۔ پری چہرہ نے اپنے کھردرے ہاتھوں سے اس کے گالوں پر بکھرے آنسو پونچھ کر اس کی طرف دیکھا۔ ان حسین آنکھوں میں موسم ہجر گویا ٹھہر گیا تھا۔
”رحاب بیٹا! تم جا رہی ہو اتنی جلدی  ابھی تو تم نے دیامر کی کئی حسین وادیوں کی سیر بھی کرنا ہے۔ ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی ہے بیٹا!“ پری چہرہ نے خانم کو بتایا تھا کہ رحاب جا رہی ہے۔
خانم تو سنتے ہی پریشانی کے عالم میں اس کے کمرے کی طرف بڑھی تھیں۔ رحاب بے دلی سے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔ انہیں آتا دیکھ کر پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔
”جی خانم  جانا تو ہے۔ ماما خفا ہو رہی تھیں اور پھر اتنے دن تو ہو گئے ہیں مجھے آئے ہوئے۔ مہمان زیادہ سے زیادہ تین دن کا ہوتا ہے اور میں تو پھر بھی اتنے ڈھیر سارے دن آپ کے پاس رہی ہوں۔
اتنی تکلیف دی ہے آپ کو۔“
”لو بھلا تکلیف کیسی۔“ خانم خفگی سے بولی تھیں۔ ان کے بے حد اصرار پر بھی اس کی ناں ہاں میں نہیں بدلی تھی۔
”یہ دن جو میں نے یہاں گزارے ہیں۔ میری زندگی کے انمول دنوں میں سے ہیں۔ کبھی نہیں بھول پاؤں گی میں ان لمحوں کو یہاں پر گزاری صبحوں کو شاموں کو۔ آپ کی محبت اور مہمان نوازی کو۔“ وہ قدرے بشاشت سے بولی تھی۔
خانم نے اسے اپنے علاقے کی سوغاتیں اور بہت سے تحائف دیئے تھے۔
پری چہرہ اور زہرینہ نے اسے کانچ کی چوڑیاں دی تھیں۔رحاب ان محبتوں کو محسوس کرکے نم آنکھوں سے مسکراتی رہی۔ دل میں اک حشر برپا تھا۔ آنکھ میں آنسو تھے جبکہ لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
وہ پری چہرہ سے مل کر زہرینہ کی طرف بڑھی تو وہ بے اختیار رو دی تھی۔ ”ام تم کو روکنے پر قادر ہوتا تو کبھی بھی نہ جانے دیتا۔
تم بوت اچھا ہے بی بی  سب سے اچھا۔“
خانم نے پری چہرہ  زہرینہ اور گیٹ پر کھڑے خان نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ الوداعی کلمات کہے تھے۔ عرش نجانے کہاں تھی۔ اس کے جانے کی وجہ سے سب ہی غمگین اور افسردہ تھے سوائے عرش کے۔ وہ بے حد خوش اور مسرور تھی۔ اک بھاری بوجھ ہٹتا ہوا محسوس ہوا تھا اس لمحے عرش کے دل سے۔
گاڑی جانے پہچانے راستوں پر رواں دواں تھی۔
رحاب نے لب کچلتے ہوئے ان حسین نظاروں سے نگاہ چرائی۔ اس کے ذہن کے دریچوں پر فارم ہاؤس کی وہ گلابی شام گویا دستک دے رہی تھی۔
”یہ بتاؤ کہ لڑاکا بلی کی طرح کاٹ کھانے کو کیوں دوڑ رہی تھی۔ آنا فاناً جانے کا فیصلہ۔“ شاہ نور آنکھوں میں ڈھیروں شرارت لئے مسکراتے ہوئے بولا تھا۔ رحاب نے کچھ چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر بے اختیار مسکرا دی۔
”ہاں تو کیا چور ڈکیت کا الزام سن کر بھی رُکی رہتی۔ مجھے بہت افسوس ہوا تھا کہ تم میرے بارے میں ایسا سوچتے ہو۔ کب جائے گی رحاب؟ اتنے بے زار تھے مجھ سے۔“ اس نے شاہ نور کے لہجے کی نقل اتاری۔
”تم نے اماں کی باتیں سن لی تھیں بے وقوف کچھ دیر اور رک کر میرا جواب بھی سن لیتی۔“ شاہ نور نے قہقہہ لگایا تھا۔ رحاب نے خفگی سے اس کی طرف دیکھا۔
”ویسے ”چورنی“ تو تم ہو ہی  میرے دل کو چرا لیا ہے تم نے۔“ وہ اب بھی ہنس رہا تھا۔ رحاب نے چونک کر اردگرد دیکھا۔ وہ اس کی آواز کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اس نے گہرا سانس خارج کرکے تمام سوچوں کو جھٹکا اور سرسیٹ کی پشت سے ٹکا دی اور ابھی تو اس نے ماہا کے سوالوں کیلئے بھی خود کو تیار کرنا تھا۔ وہ کیسے ماہا کو بتائے گی کہ اس کا یہ سفر رائیگاں گیا ہے۔ اس مسافت نے اسے اک نئے درد سے آشنا کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi