Episode 45 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 45 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”ارے کہاں گم ہو گئیں۔ اٹھو ناشتہ کر لیں۔ قسم سے بہت بھوک لگی ہے۔“ اسے گہری سوچوں میں گم پاکر پشمینہ نے اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ ہلایا۔ خالہ امی کو ناشتہ دینے کے بعد اس نے گل مینا کے من پسند قیمے والے پراٹھے بنائے اور چائے کپوں میں انڈیل کر باہر چلی آئی۔
”بابا کی طبیعت کیسی ہے؟“
”پہلے سے کچھ بہتر ہیں۔ رات دو بجے کے قریب فراز لے کر آئے ہیں مجھے ہسپتال سے۔
بابا کی وجہ سے اتنی ٹینشن سے ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ نجانے اگلے پل کیا ہوگا۔“ وہ بھرائے لہجے میں بولی تھی۔ گل مینا نے اطمینان سے کپ لبوں سے لگایا اور پھر اس کے چہرے کی دیکھتے ہوئے عجیب سے انداز میں بولی۔
”ابھی تو تم بابا کی بیماری کی وجہ سے پریشان ہو اور اتنی جلدی ہمت بھی ہار رہی ہو۔

(جاری ہے)

کل کو جب فراز کی ماں کی طرف سے ٹینشن ملے گی تب کیا کروں گی کیا تم نے فراز کی ماں کے ردعمل کے بارے میں سوچا ہے؟ اچانک ، چوری چھپے شادی کر لینے کے جرم میں وہ تم دونوں کو معاف کر دیں گی؟“ گل مینا کے چبھتے سوال نے ایک پل کیلئے اسے متوحش کر دیا تھا تاہم دوسرے ہی لمحے وہ قدرے اطمینان سے بولی۔

”یہ فراز کا ہیڈک ہے۔ یہ کس طرح اس معاملے کو سلجھائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے جب تک ان کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی وہ اپنی امی کو شادی کے متعلق نہیں بتائیں گے۔ خالہ امی نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔‘
”چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاؤ کالج کب سے آنا شروع کرو گی۔“ گل مینا نے موضوع بدلتے ہوئے لاپروائی سے پوچھا۔
”بابا کی طبیعت کچھ سنبھل لے پھر دیکھوں گی۔“ وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔اسی پل فون کی گھنٹی گونج اٹھی۔ دوسری طرف فراز تھا۔ پشمینہ اس کے ساتھ باتوں میں مگن ہو گئی۔ وہ کچھ دیر تو پشمینہ کے انتظار میں بیٹھی رہی تھی پھر بے دلی سے اٹھ کر خالہ امی کے کمرے میں چلی گئی۔ خالہ امی کمرے میں موجود نہیں تھیں۔ واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔
گل مینا یونہی وقت گزاری کیلئے سائیڈ ٹیبل پر رکھی کتابوں کو الٹنے پلٹنے لگی۔ تکیے کے اوپر فون نمبرز والی ڈائری رکھی تھی۔ اس نے نہایت احتیاط سے ڈائری کو اٹھا کر کھولا۔ کچھ ہی دیر بعد اسے مطلوبہ نمبر مل گیا تھا۔ وہ اٹھی اور اسی طرح دبے قدموں سے باہر چلی گئی۔
”ضروری نہیں کہ ہمیشہ جیت تمہاری ہو اور سب کچھ تمہیں ہی مل جائے دولت ، ذہانت اور محبت ، پہلی دو چیزیں تم سے چھیننا میرے اختیار میں نہیں آخری چیز تو میں تم سے چھین کر رہوں گی“ گل مینا نے زہر خند لہجے میں کہا۔
اسے ابھی تک یاد تھا کہ وہ لوگ کب ،کس وقت اور کیوں پشمینہ کے گھر گئے تھے۔ آج سے سات برس پہلے وہ اور ابا دونوں ان کے بہت ہی پیارے دوست دل شیر خان کے گاؤں گئے تھے۔ دل شیر خان کا گاؤں گویا جنت کا خطہ معلوم ہوتا تھا۔ اتنا حسن اس قدر دلکش گل مینا کھوئی کھوئی سی آس پاس کے مناظر دیکھتی رہی۔ دل شیر خان کا گھر ان کی امارت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
قیمتی فرنیچر ، کمروں میں بچھے قالین نوکر چاکر۔
دل شیر خان کے پھلوں کے بہت سارے باغات تھے۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو اپنے گھر میں ہمیشہ ڈھیروں کے حساب سے فروٹ آتے دیکھا۔ خشک میوہ جات کے علاوہ انگور ،آڑو ، سیب اور ناشپاتی کے ٹوکرے اور کریٹ آیا کرتے تھے۔
پہلے پہل وہ یہی سمجھتی رہی تھی کہ اس کے ابا ڈھیروں کے حساب سے پھل ان کیلئے لایا کرتے ہیں مگر کچھ ہی عرصہ بعد یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ ابا کے دوست دل شیر خان اپنے گاؤں کی سوغاتیں بطور تحفہ ان کو بھیجتے ہیں۔
نجانے کیوں اسے دل شیر خان کی ان نوازشات سے چڑ ہونے لگی تھی۔
اس کے ابا کی چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی۔ قدرے سنسان علاقے میں بنی اس دکان سے کوئی شاذو نادر ہی سودا لینے آیا کرتا تھا۔
پھر ایک مرتبہ ایسی طوفانی بارش برسی کہ ناصرف ان کے چھوٹے سے دڑبا نما مکان کی دیواریں ہل گئیں بلکہ دکان کی چھت بھی جگہ جگہ سے پھٹ گئی۔ ساری رات بارش برستی رہی تھی۔
صبح جب ابا نے دکان کا دروازہ کھولا تو ہر چیز پانی میں ڈوبی نظر آئی۔ ابا ان حالات کو دیکھ کر بے حد غمگین اور پریشان تھے۔ اماں کے مشورے نے ابا کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا چنانچہ وہ دوسرے ہی دن بیٹی کے ہمراہ ”بسری“ روانہ ہوئے۔
دل شیر خان اپنے عزیز ازجان دوست کو دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی بے انتہا خاطر مدارات کی۔
کھانا کھانے کے بعد ج وہ سبز چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے تب پشمینہ چلی آئی تھی۔ دل شیر خان نے اپنی بیٹی کا ان سے تعارف کروایا۔
”گل مینا بیٹے ،یہ میری بیٹی پشمینہ خانم ہے۔ بہت ہی لائق ذہین اور دلیر“ ان کا تعارف کروانے کا انداز بہت پیارا تھا۔ گل مینا کو وہ انتہائی مغرور ، نک چڑھی سی لگی تھی۔
”اللہ بھی بعض لوگوں کو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔
“ اس نے سلگتے ہوئے سوچا۔ وہ آج کل ویسے بھی بے حد چڑچڑی سی ہو رہی تھی۔ دل شیر چچا کی آن بان اور شان و شوکت دیکھ کر اس کے دل میں ڈھیروں نفرت کے ساتھ بے زاری بھر آئی۔ رہی سہی کسر پشمینہ کے رویے نے پوری کر دی تھی۔
”ابا! واپس چلیں۔“ وہ دوسرے ہی دن قدرے تلخی سے ابا سے مخاطب ہوئی تو وہ پہلے حیران ہوئے اور بعد میں انہوں نے اسے اچھا خاصا ڈانٹا بھی۔
”میں جس کام کیلئے آیا ہوں وہ تو کر لوں پھر چلتے ہیں۔“
وہ لوگ چار دن دل شیر چچا کے گھر رہے تھے۔ اس دوران پشمینہ اپنے کمرے میں ہی بند رہی تھی۔
ابا جس کام کے سلسلے میں دل شیر چچا کے پاس آئے تھے وہ نہیں ہو سکا تھا۔ گل مینا نے سنا تو غصے اور اہانت کے احساس سے برا حال ہو گیا۔ وہ ابا سے جھگڑ پڑی تھی۔ ابا بھی بہت پریشان ہو گئے تھے۔
رات کو انہوں نے دل شیر سے کچھ قرض مانگا تھا۔ پہلے تو وہ کافی دیر خاموش رہے پھر جب بولے تو ان کے لب و لہجے میں شرمندگی کا عنصر نمایاں تھا۔
”چند دن پہلے تم آ جاتے یا پھر مجھے پیغام بھجوا دیتے تو میں تمہارے لئے کچھ پیسے الگ کر دیتا۔ زر ولی کی دو بیٹیوں کی شادی تھی۔ میرے پاس جو رقم محفوظ تھی وہ میں نے اب بچیوں کے جہیز کیلئے دے دی ہے۔
صرف یہی معمولی سی رقم اس وقت میرے پاس ہے۔ ابھی تم ان پیسوں سے کام چلاؤ۔ ڈیڑھ مہینے بعد میں گھر آکر تمہیں پیسے دے جاؤں گا بس فصل اٹھانے کی دیر ہے۔“ انہوں نے دس ہزار روپے رب نواز کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا اور پھر اپنے وعدے کے عین مطابق وہ دو لاکھ روپے ان کے گھر آکر دے گئے تھے۔ مگرگل مینا کے دل سے یہ کانٹا کبھی بھی نہیں نکلا تھا۔ پھر پشمینہ میٹرک کرنے کے بعد ایبٹ آباد… چلی آئی تھی مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے۔ پشمینہ کی مہربانیوں کی وجہ سے ہی وہ اچھے ادارے میں پڑھتی رہی تھی۔ مگر نجانے کیوں ، کب اور کیسے وہ پشمینہ سے متاثر ہونے کے بعد اس سے حسد کرنے لگی تھی۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi