Episode 46 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 46 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

یہ حسد نفرت میں اس وقت بدلا تھا جب اس نے فراز اور پشمینہ کو ایک ہوتے دیکھا صرف چند گھنٹوں کے اندر اندر بازی پلٹ گئی تھی۔ کالج میں وہ سارا دن اس کے ساتھ رہا تھا۔ گل مینا نے ہی اسے پشمینہ کے بابا کی خرابی طبیعت کے متعلق بتایا تھا۔ اگر اسے خبر ہوتی کہ وہ دل شیر خان کی عیادت کرنے کیلئے جائے گا اور پشمینہ سے بندھن باندھ کر آئے گا تو وہ کبھی بھی اسے نہ بتاتی۔
اس نے تقدیر سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور بے شک انسان نادان ہے اور اپنی نادانی میں وہ خسارے کا سودا کر لیتا ہے۔
گھر آکر اس نے احتیاط سے پرس میں سے نمبر نکالا اور فون سیٹ گود میں رکھ کر بیٹھ گئی۔ اس سے پہلے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کر دیا تھا۔ ساتویں بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔ گل مینا نے ریسیور مضبوطی سے پکڑا۔

(جاری ہے)

”میں فراز کی ماں ہوں  آپ ہیں کون اور مجھ سے کیوں بات کرنی ہے؟“ گوہر بیگم نے اپنے مضبوط پر جلالی لہجے میں کہا تھا۔
”میں آپ کی خیر خواہ ہوں اور جو بات میں ابھی آپ کو بتانے والی ہوں۔ اسے غور سے سنئے گا اور چاہے تصدیق کیلئے یہاں ابیٹ آباد آ جایئے گا میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں یہ جو بھی کہوں گی سچ کہوں گی۔“ ”بات کیا ہے؟“ گوہر بیگم نے کچھ سختی سے پوچھا تھا۔ ان کے لب و لہجے سے پریشانی چھلکنے لگی تھی۔
”آپ کے بیٹے فراز نے پشمینہ نامی پہاڑی لڑکی کے ساتھ شادی کر لی ہے۔
وہ لڑکی اس وقت آپ کی بہن کے گھر میں فراز کی بیوی کی حیثیت سے رہ رہی ہے مگر۔“
”کیا بکواس کر رہی ہو لڑکی۔“ گوہر بیگم کے سر پر گویا آسمان آن گرا تھا۔ وہ آگ بگولا ہو کر چلا اٹھیں۔
”یہی سچ ہے۔ آپ کو اگر یقین نہیں آتا تو یہاں آکر دیکھ لیں۔“
”تم کون ہو؟“
”آپ کی خیر خوا۔“ گل مینا نے مزید ان کے بولنے سے پہلے ہی فون بند کر دیا تھا۔
اب وہ بے حد اطمینان کے ساتھ پلنگ پر دراز آنکھیں موندے گنگنا رہی تھی۔
گوہر بیگم نے جنون کے عالم میں بہن کے گھر کا نمبر ملایا تھا۔ بدقسمتی سے فون فراز نے ہی اٹینڈ کیا۔ ماں کے غیض و غضب سے بھرپور لہجے کو محسوس کرکے وہ کچھ فکر مند ہو گیا تھا۔
”امی جان کیسی ہیں آپ۔“
”مر گئی امی ، جہنم میں گئی۔“ دوسری طرف انہوں نے چلا کر کہا۔
”خیریت تو ہے؟“
”خیریت ہی تو نہیں۔ تو نے یہ کیا ، کیا ہے فراز۔ میرے کانوں نے ابھی ابھی کیا سنا ہے۔ یقین نہیں آ رہا مجھے۔ تم اس طرح نہیں کر سکتے۔“ وہ ٹوٹے لہجے میں بولیں۔
”تو نے بیاہ رچا لیا مجھے بتائے بغیر مجھ سے پوچھے بغیر ، تجھے شرم نہیں آئی بے غیرت۔ ابھی تو تم سے پانچ سال بڑا مہران کنوارا ہے۔ گھٹیا لڑکی کو ابھی اور اسی وقت چلتا کرو اسے۔
میرے آنے سے پہلے نکال دو اسے گھر سے۔ ورنہ ، نہ میں اسے چھوڑوں گی نہ تمہیں۔“ وہ نفرت و حقارت بھرے لہجے میں غرائیں۔
”امی میری بات تو سنیں۔“ انہیں مسلسل چیختے اور واویلا کرتے سن کر وہ دبی آواز میں بولا تھا۔
”کیا سنوں ، ہاں بتاؤ کون سی صفائیاں پیش کرو گے۔“
”امی پشمینہ کے بابا بہت بیمار تھے۔ اسی لئے اچانک ہی نکاح۔
”بکواس نہ کرو۔ میرے سامنے ذلیل بے شرم اور بدچلن عورت کا ذکر مت کرو۔“ انہوں نے گرج کر کہا۔
”امی! پشمینہ میری بیوی ہے۔ اس کے متعلق ایسے گھٹیا الفاظ مت استعمال کریں۔“ وہ دھیمے لہجے میں انتہائی ناگواری سے بولا۔ خالہ امی کو آتا دیکھ کر اس نے ریسیور ان کے ہاتھ میں تھما دیا تھا اور خود لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔
”آپا! کیا ہو گیا ہے ذرا صبر و تحمل سے بات کرو۔
”فریدہ! یہ ساری چال تمہاری ہی ہے۔ پہلے میرے بیٹے کو اپنے پاس پڑھائی کے بہانے رکھ لیا۔ اب اس کو ورغلا کر نہ جانے کس سے بیاہ کر دیا ہے تاکہ وہ ساری زندگی تمہارے پاس ہی رہے۔ اپنے بیٹے تو دونوں ہی باہر دفعان ہو گئے ہیں۔ بہت چالاک ہو تم ، اپنی تنہائی دور کرنے کیلئے ہر غلط کام میں اس کا ساتھ دیتی رہی ہو۔ میں بھی کہوں میرا بچہ ایسا نہیں کر سکتا۔
یقینا تم ہی نے اسے مجبور کیا ہوگا۔“ گوہر بیگم اب ان پر گرجنے برسنے لگی تھیں۔ وہ اپنی صفائی میں بولنے کیلئے الفاظ ہی تلاشتی رہ گئیں اور گوہر بیگم نے کھٹاک سے فون رکھ دیا۔ پورا مہینہ اسی پریشانی اور ٹینشن میں گزرا تھا۔ پھر گوہر بیگم کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تو فراز اور خالہ امی دونوں ہی اسلام آباد روانہ ہو گئے۔
”تو اس کلموہی کے پاس نہیں جائے گا۔
“ ہوش میں آنے کے بعد وہ فراز کے سینے سے لگی۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ فراز بے بسی سے انہیں دلاسے دیتا رہا۔
فریدہ کو دیکھ کر ان کا پارہ ایک دفعہ پھر چڑھ گیا تھا۔ دونوں بہنوں میں زبردست قسم کی تکرار ہوئی اور اگلی سہ پہر فریدہ ایبٹ آباد سدھار گیں۔ گوہر بیگم کی طبیعت سنبھلتے ہی فراز نے بھی کوچ کرنے کا سوچا۔ بھائی کو ہم راز بنا کر وہ بھی ایبٹ آباد چلا گیا تھا جب اس کے پہنچنے کے تیسرے دن گوہر بیگم نے تیز چاقو کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی رگیں کاٹ لیں۔
ماں کی ایسی حالات دیکھ کر وہ ذہنی کرب و اذیت کا شکار ہو گیا تھا۔ اسے اپنی جلد بازی پر رہ رہ کر غصہ آتا۔
پورے آٹھ دن بعد گوہر بیگم نے آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ اپنے بیٹے کی طرح ہی جذباتی تھیں۔ فراز کو دیکھ کر انہوں نے غصے سے منہ موڑ لیا۔
”امی جان پلیز یوں مت کہیں۔“ وہ ان کے قدموں میں سر رکھ کر رو دیا تھا۔
”نہ تو میرا فراز نہ میں تیری ماں۔
میرا اور تمہارا تعلق ختم۔“ وہ تکیے پر سر پٹختے ہوئے چلا رہی تھیں۔
”پورے خاندان والوں کے سامنے مجھے رسوا کرکے رکھ دیا ہے۔ لوگ تھو تھو کر رہے ہیں۔ اتنی ذلت اتنی رسوئی۔ میں جی کر کیا کروں گی، نہیں جینا مجھے اب۔“ انہوں نے ٹیبل پر رکھی دوائیوں کی شیشیاں اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیں۔ فراز نے بمشکل انہیں بازوؤں سے پکڑ کر قابو کیا۔
”تو اب واپس گیا نا تو میں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی تمہیں۔ سن رہے ہو۔“ گوہر بیگم نے اس کے ہاتھ تھام کر سختی سے کہا۔ فراز سن سا کھڑا انہیں دیکھتا رہ گیا۔
”بول نہیں جائے گا نا۔“ وہ ایک دفعہ پھر چلائیں۔
”وعدہ کرو مجھ سے کہ ساری زندگی اس عورت کی شکل تک نہیں دیکھو گے۔“ انہوں نے دونوں ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیئے تھے۔
”آج کے بعد تم اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھو گے۔
“ گوہر بیگم کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
”میں وعدہ کرتا ہوں کہ۔“ وہ اپنی ماں کے پیروں پر سر رکھے ٹوٹے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ اس کا چہرہ بھیگتا جا رہا تھا۔
پشمینہ نے نہایت دلیری کے ساتھ تمام حالات کا جائزہ لیا اور فراز کی بے وفائی کے بعد بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ اپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کیا۔ اسی دوران اس نے بے حد خوبصورت بیٹے کو جنم دیا تھا۔
اس نے فراز سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر سوائے ناکامی کے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ تھک ہار کر وہ اپنے چند ماہ کے بیٹے کو لے کر ہمیشہ کیلئے اپنے گاؤں چلی گئی تھی۔
پشمینہ کے چلے جانے کے بعد بھی گل مینا نے فراز کے ساتھ رابطہ رکھا۔ خط و کتابت کے ذریعے وہ اسے جھوٹے سچے واقعات بتاتی رہی۔ پہلی مرتبہ جب اسے فراز کا خط ملا اور اس میں لکھی تحریر کو پڑھ کر کتنی ہی دیر ہنستی رہی تھی یہاں تک کہ اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
”گل مینا! تم اسے بتانا کہ فراز نہ جھوٹا ہے نہ ہر جائی۔ میں نے راستہ نہیں بدلا ، میں تو آج بھی اسی مقام پر تنہا کھڑا ہوں۔ کتنے ہی طوفان آئے اور مجھے چھو کر گزر گئے مگر میرے دل کو بدل نہیں پائے۔ یہ آج بھی اسی کا نام لیتا ہے۔ اس کی طلب کرتا اس کی یاد میں روتا ہے۔“
گل مینا نے کتنی ہی مرتبہ اس تحریر کو پڑھا تھا اور پھر خط کو پرزے پرزے کر دیا۔
تقریباً دس دن بعد فراز نے منی آرڈر کے ذریعے پچاس ہزار روپے بھیجے تھے۔ اس نے نہایت سفاکی سے رقم وصول کرکے خود پر خرچ کر دی۔ یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا تھا۔ ہر مہینے فراز باقاعدگی کے ساتھ پیسے بھیجتا رہا اور گل مینا اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرواتی رہی۔ وہ یہ رقم گل مینا کے نام بھیجتا تھا تاکہ وہ اسے پشمینہ تک پہنچا دے۔ وہ پشمینہ سے نفرت کرتی تھی اور اس نفرت نے اسے انتہا پسند بنا دیا تھا۔
پھر اس نے دل شیر خان کے نام خط لکھا ، یہ خط اس نے فراز کی طرف سے لکھا تھا۔
اس خط میں اس نے پشمینہ کے کردار پر کیچڑ اچھالا ، اس کے بچے کو کسی اور کی اولاد کا طعنہ دے کر اس نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بدظن کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور اسے اس معاملے میں کامیابی بھی ہوئی۔ اپنی بیٹی کے متعلق اتنے گھٹیا نازیبا الفاظ پڑھ کر دل شیر خان کو دوسرا اٹیک ہوا۔
باقی کی زندگی انہوں نے بستر پر تڑپتے گزاری تھی۔ ان سب کی زندگیوں میں زہر گھولنے والی بڑے اطمینان کے ساتھ اپنا اسٹیٹس ہائی کر رہی تھی۔ اس نے بینک میں جمع شدہ رقم سے گھر خریدا ، گاڑی لی پھر اس کی بہت اچھی فیملی میں شادی بھی ہو گئی۔
ادھر گوہر بیگم نے بڑی بہن کے ساتھ معاملات طے کرکے فراز اور ناعمہ کی شادی کا شوشا چھوڑ دیا۔ فراز کی ضد ، اس کی التجاؤں اور رونے گڑگڑانے کو وہ کسی خاطر میں نہیں لائی تھیں۔
وہ تو ناعمہ عین بارات والے روز گھر سے بھاگ گئی تھی۔ یوں فراز نے خود ہی بلا ٹل جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ گوہر بیگم اتنی ذلت و رسوائی کے بعد بھی ویسے ہی اکڑی رہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے مہربان کی شادی نہایت دھوم دھام سے کی تھی۔ پھر جب تک وہ زندہ رہیں ان کا غرور تکبر اس طرح قائم و دائم رہا۔
اور بعض لوگوں کو اللہ اسی طرح غافل رکھتا ہے اور وہ اسی غفلت میں گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں اور عقل پر پردے جبکہ دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ گوہر بیگم اور گل مینا انہی لوگوں میں سے تھیں جو زمین کا بوجھ ہوتے ہیں۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi