Episode 48 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 48 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

عرش کی فون کال نے انہیں بے حد ڈسٹرب کر دیا تھا۔ جب کسی پل چین نہ آیا تو انہوں نے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا آرڈر دیا۔
گھر سے وہ مکمل تیاری کرکے نکلی تھیں۔ ان کا ارادہ تھا کہ آج شام کو ہی عرش او رشاہ نور کا نکاح کر دیا جائے۔
وہ شاہ نور کو بہت چاہتی تھیں۔ شاید اس لئے کہ وہ ہو بہو فراز کی تصویر تھا۔ جب وہ پڑھنے کی غرض سے ایبٹ آباد آیا تو ان کا بہت دل تھا کہ شاہ نور ان کے پاس رہے۔
لیکن نجانے کیوں اس نے ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے شروع سے ہی عرش اور شاہ نور کے حوالے سے خواب دیکھنے شروع کر دیئے تھے۔ عرش کو بھی انہوں نے یہ بات اچھی طرح سمجھا دی تھی کہ اسے شاہ نور کی بیوی ہی بننا ہے۔ اس لئے تو اس نے ڈاکٹر عمار کے پرپوزل کو ٹھکرا دیا تھا۔ بھلا ڈاکٹر عمار جیسے معمولی بندے کی حیثیت ہی کیا تھی کہ عرش اس سے ناتا جوڑ لیتی۔

(جاری ہے)

عرش نے کل ہی انہیں بتایا تھا کہ رحاب نامی لڑکی دفع ہو گئی ہے لہٰذا آپ مطمئن ہو جائیں مگر وہ مطمئن ہی تو نہیں ہو پا رہی تھیں۔ ان کا دل انجانے خدشوں سے بوجھل اور لرزیدہ تھا۔ عجیب سی بے چینی رگ جان کو کرب و اذیت سے ہم کنار کر رہی تھی۔
”یہ رحاب نامی لڑکی ہے کون ، جو اچانک آئی بھی ہے اور چلی بھی گئی اور جس کی وجہ سے عرش اس حد تک پریشان تھی۔
“ متنفر سوچوں نے انہیں بہت جلد تھکا دیا۔ انہوں نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکاتے ہوئے آنکھیں موندیں تو چھم سے اک نازک سا سراپا نگاہوں کے سامنے لہرایا اور ساتھ ہی کلک کے ساتھ کچھ روشن بھی ہوا۔ اگلے ہی پل وہ یوں سیٹ سے اچھلیں گویا بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
”رحاب ، اسلام آباد۔ فراز کی بھتیجی۔“ وہ ہکلاتے ہوئے بڑبڑائیں۔
”گاڑی واپس موڑو۔
“ انہوں نے چلا کر کہا تھا۔ اپنے ہی دھیان میں مگن بشیر نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔
”بیگم صاحبہ کیا ہوا۔“
”سامنے دیکھو ٹرک آ رہا ہے۔“ گل مینا نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر کہا تھا مگر گاڑی بشیر کے کنٹرول میں نہیں رہی تھی۔ ایک زور دار دھماکا ہوا تھا۔
######
”آپ کی رحاب ہار گئی چاچو۔ ہار گئی۔“ وہ ان کے گھٹنوں پر سر رکھے بے تحاشا روتے ہوئے بولی تھی۔
فراز لرزتے ہاتھوں سے اس کے بالوں کو سہلاتے رہے۔ وہ ان کے ساتھ شاہ نور کی باتیں کرتی رہی تھی اور وہ پرنم مسکراہٹ لئے سنتے رہے جبکہ رحاب اب بھی رو رہی تھی۔ دل کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ وہ اسی طرح روتے ہوئے سر جھکائے اٹھی اور لرزیدہ قدموں سے چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔ مگر دوسرے ہی پل وہ ایک دفعہ پھر ان کے کمرے میں موجود تھی۔
”چاچو! وہ آ رہا ہے ، شاہ نور آ رہا ہے۔
چاچی بھی ساتھ ہیں۔“وہ بہتی آنکھوں کے ساتھ ہنس رہی تھی۔ فراز ساکت نظروں سے اسے دیکھتے رے اور وہ اس طرح قلانچیں بھرتی بھاگ گئی۔
”یہ رابی کیا کہہ رہی ہے۔ پشمینہ آ رہی ہے ، شاہ نور آ رہا ہے میرا بیٹا۔ میری جان۔“ وہ زیر لب بڑبڑائے اور پھر بے ساختہ ہنس پڑے اور ہنستے ہی چلے گئے۔
”میں اپنے بیٹے سے ملوں گا۔“ انہوں نے حیرت سے سوچا۔
”پتا نہیں کب آئے گا وہ۔ آئے گا بھی یا نہیں ، اتنے سالوں سے اس کا انتظار کر رہا ہوں۔ اسے دیکھنے کیلئے تڑپ رہا ہوں۔“ وہ ہنستے ہوئے ایک دم ہی خاموش ہو گئے تھے ان کی نظریں سامنے دیوار پر لگی تصویر پر تھیں۔ یہ تصویر ان کی ماں کی تھی گوہر بیگم نے گویا بے حد ناراضی کے عالم میں بیٹے کی طرف دیکھا تھا۔
”فراز! کیا تو اپنا عہد بھول گیا ہے۔
انہوں نے بے بسی کے عالم میں سر کو جھٹکا اور بھرائی آواز میں بولے۔ ”نہیں ماں میں کچھ بھی نہیں بھولا ، سب کچھ یاد ہے مجھے۔ لفظ لفظ دل پر لکھا ہے۔ چاہوں بھی تو کھرچ نہیں سکتا۔ کچھ بھی نہیں بھلا سکتا۔ کچھ بھی نہیں۔“ وہ ایک دم چلائے تھے۔
ان کے سر میں شدید درد کی ٹیسیں سی اٹھیں تھیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر کرا ہے۔ وہ پچھلی کئی راتوں سے مسلسل جاگ رہے تھے۔
اس وقت ان کی آنکھیں بے حد سرخ ہو رہی تھیں اور نیند نہ آنے کی وجہ سے سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ انہوں نے سائیڈ ٹیبل سے پانی سے بھرا گلاس اٹھایا اور دراز میں سے سلیپنگ پلز نکالیں۔ ”مجھے کچھ دیر سو لینا چاہئے۔“ وہ ایک دفعہ پھر بڑبڑائے۔ تکلیف دہ زہریلی سوچوں نے انہیں ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا تھا۔
ان کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھی۔
”ماں! دیکھ لو۔ میں وعدہ خلاف نہیں۔ میں بد عہد نہیں۔ مگر میں اب اس وعدے کی پاس داری نہیں کر سکتا میں ایک مردے پر دو زندہ لوگوں کو نہیں مار سکتا۔“
شاہ نور اور پشمینہ نے جب سکندر ولا میں قدم رکھا تو اندر بے حد خاموشی تھی۔ وہ دونوں ہی آنکھوں کی نمی ایک دوسرے سے چھپاتے شکست خوردہ قدموں سے اندر کی طرف بڑھے۔ رحاب نے اندر آتے شاہ نور کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی پل خوشی سے چیخ رہی تھی۔
”مجھے یقین تھا آپ لوگ ضرور آئیں گے۔“
پشمینہ اک ٹرانس کے عالم میں چلتی ہوئی فراز کی کی طرف بڑھیں۔ ان کے پیروں پر اپنا سر رکھ کر وہ بے تحاشا رو دی تھیں۔
”کیسی محبت کی تھی فراز کہ خود بھی سلگتے رہے مجھے بھی سلگاتے رہے۔“ وہ بے آواز روتے ہوئے بڑبڑاتی رہیں۔ فراز نے بے تابانہ دونوں کو گلے لگایا تھا۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi