Episode 49 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 49 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

اسلام آباد سے ”بسری“ تک کے سفر نے اسے بے تحاشا تھکا ڈالا تھا۔ تھکن کی وجہ سے انگ انگ دکھنے لگا تھا۔ کمر الگ اکڑ کر تختہ ہو رہی تھی۔ اتنا طویل سفر طے کرنے کے بعد بسری کی حدود شروع ہوئیں تو رحاب نے اطمینان سے بھرا سانس لیا۔ کچھ عرصہ پہلے جب وہ یہاں سے جا رہی تھی تو اسے یہ یقین نہیں تھا کہ اب وہ کبھی بھی دوبارہ یہاں آئے گی اور وہ بھی اس طرح۔
اس نے اپنے وجود سے اٹھتی مہندی ، اُبٹن اور موتیے کے پھولوں کی دلفریب خوشبو کو محسوس کیا۔
چاچو سے ملتے ہی پشمینہ اپنے دائیں ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر رحاب کو پہنا آئی تھیں۔
”بھابھی! رحاب اب میری بیٹی ہوئی۔ آپ اب اس کی نہیں ماہا کی فکر کریں۔“ ماما تو بے چاری حیرت اور خوشی کے احساس سے کچھ بول ہی نہیں پائی تھیں۔

(جاری ہے)

پھر آناً فاناً سب کچھ ہی طے پا گیا تھا۔

ماما نے کچھ ڈرتے ڈرتے اس سے ذکر کیا تھا مبادا کہیں وہ انکار نہ کر دے مگر اس کے چہرے پر پھیلے رنگوں کو دیکھ کر خوشگوار حیرت نے ان کو گھیر لیا تھا۔ انہوں نے بے ساختہ اسے خود سے لپٹا کر پیشانی کو چوم لیا۔
شادی سے پہلے شاہ نور کی اس کے ساتھ کوئی خاص بات نہیں ہوئی تھی وہ ایک دو مرتبہ آیا تھا اور وہ چاہ کر بھی اسے سے مل نہیں سکی تھی۔
ماما نے روایتی ماؤں کی طرح سخت پردہ کروایا تھا کبھی کبھی تو وہ جھجلا اٹھتی۔
”آپ تو اس طرح مجھے چھپا رہی ہیں گویا شاہ نور نے مجھے دیکھا ہی نہیں۔“ ماما اس کے یوں بے شرمی سے کہنے پر اسے گھور کر رہ گئی تھیں۔
بدگمانیوں کی دھند دور ہوئی تو سارے منظر روز روشن کی طرح واضح اور صاف شفاف ہو گئے۔ گاڑی نجانے کب سیاہ گیٹ کے سامنے رکی تھی۔
سوچوں میں گم اس نے کچھ چونک کر دیکھا تھا۔ پھر نجانے کون کون سی رسومات ہوئیں۔ پری چہرہ ، زہرینہ کے ساتھ پلوشہ کی چہکتی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔
”بی بی! تم بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔ ام تم کو لالا کی دلہن بنے دیکھ کر بہت خوش ہو رہا ہے۔“ پری چہرہ نے اس کی حنائی نرم و گداز ہاتھ کو چھو کر بہت محبت سے کہا تھا۔
”تم بہت اچھا ہے بی بی۔
ام نے کتنی ہی دعائیں چپکے سے اللہ پاک سے مانگ ڈالی تھیں کہ تم ہمیشہ کیلئے امارے پاس آ جاؤ۔“ زہرینہ اس کے حسین روپ کو پیار سے تکتے ہوئے بولی تھی۔ اتنی بولڈ ، منہ پھٹ سی رحاب اس پل شرم و حیا سے پسینہ پسینہ ہو رہی تھی۔ اسی پل پشمینہ دودھ کا باؤل لے کر آئیں جو انہوں نے رحاب کے سر سے وار کرکے پلوشہ کو پکڑا دیا تھا۔
”تم لوگ اب اٹھو رات بہت ہو گئی ہے اور رحاب بھی بہت تھکی ہوئی ہے جو باتیں رہ گئی ہیں صبح کر لینا۔
”بہتر خانم۔“ وہ سب بیک زبان بولیں۔ خجستہ اور خوش بخت نے اسے تھام کر کمرے میں پہنچایا تھا۔
شاہ نور کے کمرے کو بہت ہی نفاست کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ سرخ گلابوں کی مہک نتھنوں سے ٹکرائی تو خوشگوار احساس نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ دل گویا پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔ تین بجے کے قریب باہر کچھ ہلچل سی ہوئی تھی کچھ دیر بعد شاہ نور نپے تلے قدم اٹھاتا اندر چلا آیا۔
وہ جو نیند کے غلبے اور تھکن سے بے حال ہوتی نیم غنودگی میں تھی اس کی آواز سن کر چونک گئی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو اشتعال اور غصے سے اس کی بھنویں تن سی گئیں۔
”اب بھی نہ آتے۔“ اس نے بے حد غصے سے بغیر سوچے سمجھے کہا تھا۔ شاہ نور پہلے تو حیران ہوا اور پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
”انتظار کر رہی تھی میرا تم۔“
”کیا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
“ اس نے پلکیں اٹھا کر اک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی۔
”اتنی بے شرم دلہن آج تک نہیں دیکھی۔ ادھر تو عورتیں شرم و حیا کی وجہ سے دو ، دو سال کلام نہیں کرتیں شوہر سے اور۔“ شاہ نور آنکھوں میں ڈھیروں شرارت بھر کر اس کے سجے سنورے روپ کو نگاہوں کے راستے دل میں اتارا۔ رحاب غصے سے کھول اٹھی تھی تاہم کہا کچھ نہیں۔ شاہ نور کی پرشوق نظروں کی حدت نے اسے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیا تھا۔
”خیر جیسی بھی ہو مجھے قبول ہو۔“ وہ ایک دفعہ پھر اسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔
”کیا مطلب۔“ رحاب نے اس کی توقع کے عین مطابق مشتعل ہو کر تیکھے انداز میں پوچھا تھا۔
”اب لگ رہی ہو میری رحاب۔“ شاہ نور نے اس کا نرم ملائم ریشمی ہاتھ پکڑ کر ہولے سے دبایا۔
”بہت بااعتماد ، نڈر تھوڑی غصیلی ، انتہائی نرم دل و حساس ، کچھ کچھ لڑاکا بھی۔
“ وہ دھیمے بوجھل لہجے میں کہتا ہوا رحاب کے دل کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے شفاف قطرے جگمگانے لگے تھے۔
”وہ پل ، وہ گھڑی گویا میرے دل پر نقش ہو گئی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی پسند اپنی محبت پر فخر محسوس ہوا تھا۔جب تم پریشانی کے عالم میں اک معمولی سی عورت کی خاطر عرش جیسی بے حس ڈاکٹر سے جھگڑ رہی تھیں اسے احساس دلا رہی تھیں۔
اس پل مجھے اپنے انتخاب پر کس قدر اطمینان کا حساس ہوا تھا مگر پھر تم نے وہ انکشاف کر دیا جس نے میرے حواس معطل کر دیئے تھے۔ میں اپنے باپ اور اس سے جڑے تمام رشتوں سے کسی حد تک نفرت کرتا رہا ہوں۔ اس پل مجھے تم سے بھی شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی اگر تم عورت نہ ہوتی تو شاید میں تمہیں نہ چھوڑتا۔ میں اتنا ہی بے حد اور وحشی ہو رہا تھا۔ تمہیں کھو دینے کا دکھ ایک طرف اپنی محرومیاں ، ماں کی بے رونق آنکھوں میں بلکورے لیتا دکھ ، وہ درد اذیتیں میرے اندر طوفان کے بگولے اٹھ رہے تھے۔
اپنے ٹوٹے جذبات کی کرچیاں سمیٹتے گھر آیا تو اماں کو اپنے کمرے میں بے حس و حرکت پاکر میرے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اپنی اب تک زندگی میں ، میں نے کبھی اماں کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھے تھے مگر اس وقت اماں رو رہی تھیں اور بڑبڑائے جا رہی تھیں۔
اتنا بڑا دھوکا دیا تو نے مجھے گل ، میرے اعتماد کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ انہوں نے وہ تمام رسیدیں میری طرف بڑھائیں جو تم میرے کمرے میں رکھ گئی تھیں۔
اس وقت تمام تلخ کڑوی حقیقتوں کو جان لینے کے بعد میری آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اماں مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں انہیں اسلام آباد لے چلوں مگر میں سنی ان سنی کرتا ، فل لوڈڈ پستول لئے اس عورت کا قصہ تمام کرنے نکل گیا جس نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر وہاں جا کر پتا چلا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میرا انتقام قدرت نے لے لیا تھا۔
میرے اندر بھڑکتی آگ پر چھینٹے پڑنے لگے تھے۔ پھر جب میں اماں کو لئے اپنے باپ سے ملنے آیا تو میرے دل کی دھرتی سیراب ہو گئی میں شرمندہ ہوں کہ حقیقت جانے بغیر ان سے نفرت کرتا رہا وہ خود ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔“ وہ ہولے سے بڑبڑایا اور گہری سانس کھینچتا کھڑا ہو گیا۔
”تم تھک گئی ہو رابی ، چینج کرکے ایزی ہو جاؤ۔“ وہ نرمی سے کہتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔
رحاب بمشکل لہنگے کو سنبھالتے ہوئے اٹھی تھی۔ پھر جب وہ چینج کرکے واپس آئی تو شاہ نور کو پلنگ پر لیٹے دیکھ کر اس کا دل دھڑک اٹھا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی پلنگ تک آئی اور آہستگی سے سمٹ کر دراز ہو گئی۔ شاہ نور نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر دیکھا۔ وہ اس کے قریب سمٹی سمٹائی قدرے بے چین سی تھی۔ شاہ نور نے مسکراتے ہوئے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
 
”سونے لگی ہو یار! ابھی تو… تم کو اپنے دل کی حکایتیں بھی سنانی ہیں۔“ رحاب کے کان کے قریب سرگوشی نما آواز ابھری تھی۔ دوسرے ہی پل شاہ نور نے اس کے لرزتے کانپتے وجود کو اپنے مضبوط ہاتھوں کے حلقے میں لے لیا تھا۔ رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی۔ آنے والی صبح بہت روشن تھی۔ وادی دیامیر کا گوشہ گوشہ اس ملن پر جھوم اٹھا تھا۔
######
سپیدی سحر نمودار ہو رہی تھی۔
دھند چھٹنے کے بعد کا منظر انتہائی دلکش و حسین تھا۔ پشمینہ نے دبیز پردے ہٹا کر باہر سے آنے والی تازہ مہکتی ہوئی ہوا کو اندر آنے کی گویا اجازت دی تھی۔
ان کا دل خوشی کے احساس سے لبریز تھا اپنے بیٹے کو اس کی خوشی کی سونپ کر وہ بے انتہا مطمئن تھیں۔ انہیں امید تھی ، یہ یقین کامل تھا کہ شاہ نور اور رحاب بسری گاؤں کی قسمت بدل دیں گے۔
جنہیں اللہ کے بندوں سے پیار ہو ، جو اس ذات پاک کی پیدا کی گئی مخلوق کے درد کو اپنا درد سمجھیں اللہ کی ان لوگوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی راہوں میں صرف اور صرف کانٹے بکھیرتے ہیں۔ گل مینا بھی دل کے راستوں پر اندھا دھند بھاگتی انجام سے بے گانہ انتہا پسندی کی آخری حدود تک پہنچ گئی تھی جہاں سے صرف اور صرف تباہی اور بربادی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
اتنا شدید ایکسیڈنٹ ہونے کے باوجود وہ بچ گئی تھی جبکہ ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا تھا۔ گل مینا کو معمولی سی خراش تک بھی نہیں آئی تھی۔ کچھ خوف و صدمے کی وجہ سے وہ تین چار دن بے ہوش ہسپتال میں رہی تھی۔ اپنا بچ جانا اسے معجزہ ہی محسوس ہوتا تھا۔ گل مینا کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ اس کی زندگی کو اللہ نے اس کیلئے سزا بنا دیا ہے۔
ہسپتال سے گھر آئی تو عرش پہلے سے ہی موجود تھی۔ ماں کے آنے کے ایک گھنٹے بعد اس نے تمام چیزیں سمیٹیں اور لڑ جھگڑ کر ان کے کالے کرتوتوں کے پردے فاش کئے ٹک ٹک کرتی چلی گئی۔ شاہ نور سے مایوس ہو کر اس نے پچپن سالہ سرجن فرید کے ساتھ کورٹ میرج کر لی تھی ماں کو بتائے بغیر۔ گل مینا حق دق سی اسے جاتے دیکھتی رہیں پھر جب چکراتے سر کو تھامتے ہوئے اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھیں تو خالی درازیں اور لاکر کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ابل پڑیں۔
”ذلیل بے حیا ، کمینی سب کچھ لے گئی ، بے غیرت باپ کی بے غیرت اولاد۔“ انہوں نے غصے کے مارے اپنے بال نوچنے شروع کر دیئے اکلوتی بیٹی کے یوں چلے جانے کے بعد بھی ان کے ہوش و حواس قائم دائم تھے۔ اپنے خوبصورت گھر میں پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے وہ اپنے حواس کھو جانے کی دعائیں کرتی تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے عقل و شعور نہ چھین کر عذاب مسلسل میں مبتلا کر دیا تھا۔
تمام ملازم بھی ایک ایک کرکے چلے گئے تھے اب وہ تھیں اور ان کی تنہائی۔ باقی کی زندگی اسی طرح پچھتاوے کی آگ میں جلتے ہوئے گزرنی تھی۔
”خانم! ام اب گل مینا بی بی کے پاس نہیں جائے گا۔ ام کو اس سے ڈر آتا ہے۔ ام ادھر آپ کی کھدمت کرے گا۔“ پلوشہ ڈیڑھ مہینے پہلے ایبٹ آباد سے بسری آ گئی تھی۔ اسی نے ہی پشمینہ کو گل مینا کے متعلق بتایا تھا۔
انہوں نے نم آنکھوں سے پلوشہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وہ مسکراتے ہوئے ان کا ہاتھ چوم کر بھاگ گئی تھی۔
پشمینہ نے یونہی چہرے کو انگلیوں کی پوروں سے چھوا تو بہت سے آنسوؤں کے قطرے ان کے ہاتھ پر نشان چھوڑ گئے؟ انہوں نے کھڑکی بند کرکے پردے ایک دفعہ پھر گرا دیئے۔ اب وہ فراز کا انتظار کر رہی تھیں جو شاہ نور کے ساتھ ڈیرے گئے ہوئے تھے۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi