Episode 52 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 52 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”ہاں بس سر میں ہلکا سا درد ہے۔“ میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”اتنی اچھی خبر سن کر تو درد و رد بھول جانا چاہئے تھا تمہیں…“
عذیر کا لہجہ اگرچہ سادہ تھا مگر الفاظ۔
”کون سی خبر…“ میرا سانس حلق میں اٹک چکا تھا۔ عذیر کے ہونٹوں پر تبسم پھیل گیا۔
”یہی کہ ہمارے سسر محترم خیر سے شادی کر چکے ہیں۔“
”آپ کو کس نے بتایا ہے؟“ میں نے ہونق پن کی انتہا کر دی تھی۔
عذیر اس دفعہ کھل کر مسکرائے تھے۔
”یعنی کہ حد ہی ہو گئی ہے۔ پتا پتا بوٹا بوٹا جانے ہے۔ بس ہم ہی نہ جانیں۔ کیوں محترمہ اس قدر بے خبر سمجھ رکھا ہے آپ نے ہمیں۔“
عذیر کا انداز چڑانے والا نہیں تھا مگر نہ جانے کیوں مجھے ان کا لہجہ تمسخر اڑاتا محسوس ہوا تھا۔
”اُڑا لیں مذاق آپ بھی ، ابھی تو نہ جانے کس کس کی باتیں سننی ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے نم پلکوں کو ہتھیلی کی پشت سے رگڑا۔
”تم رو کیوں رہی ہو؟“ عذیر نے حیرت سے مجھے سوں سوں کرتے دیکھا تھا۔
”تو کیا لڈو بانٹوں ، جشن مناؤں۔“ میں چڑ کر گویا ہوئی تھی۔ عذیر کے ہونٹوں کا تبسم غائب ہو گیا۔
”تم خواہ مخواہ رو دھو رہی ہو ، بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ انکل کی تنہائی دور ہو گئی ہے۔ پچھلے تین چار سالوں سے وہ کس قدر چپ چپ اور آزردہ سے رہنے لگے تھے۔
ابھی چند روز پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں ان کی صحت کی بحالی اور چہرے کی شگفتگی کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ پھر جلد ہی ان کے مزاج میں تبدیلی کی وجہ بھی معلوم ہو گئی تھی۔ بڑھاپے میں تنہا رہنا کس قدر مشکل ترین کام ہے۔ پھر ان کے ساتھ تو دیگر مسائل بھی تھے۔ نہ وقت پہ کھانا نہ دوا وغیرہ…“
عذیر نہ جانے کیا کہہ رہے تھے میں آنکھیں موندے ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگی تھی۔
امی کے جانے کے بعد ابو جی نے ہم تینوں کو ماں بن کر پالا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں بہت چھوٹی سی تھی تو ہر وقت امی کیلئے رویا کرتی تھی۔
سارا دن آپی مجھے گود میں اٹھائے سارے گھر میں چکراتی رہتیں یا پھر سڑک پر لے کر نکل جاتی تھیں۔ جب ابو جی گھر آتے تو آپی کی ڈیوٹی گویا ختم سی ہو جاتی تھی پھر میں ہوتی تھی یا پھر ابو جی۔
وہ مجھے مارکیٹ لے کر جاتے۔
کبھی پارک اور کبھی لان میں لگے جھولے پر بٹھا کر جھولا جھلاتے۔ رات گئے تک میں ان کے ساتھ چپکی رہتی تھی۔ خاندان والوں کے بے حد مجبور کرنے پر بھی انہوں نے دوسری شادی کی ہامی نہیں بھری تھی۔ جب بھی پھپھو وغیرہ شادی کیلئے دباؤ ڈالتیں ابو جی کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔
”آپا میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے سوتیلی ماں کے سائے تلے احساس کمتری کا اور نفرتوں کا احساس لے کر بڑے ہوں۔
میں انہیں مکمل اور خود اعتماد دیکھنا چاہتا ہوں۔“
ابو جی کے بے تحاشا لاڈ پیار نے مجھے کسی حد تک خودپسند اور ضدی بنا دیا تھا جبکہ میرے برعکس عامر اور آپی بے حد نرم مزاج کے مالک تھے۔ اسی لئے شاید ابو جی کی شادی کا سن کر انہوں نے کوئی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا جبکہ میں ابھی تک غصے اور جذباتی پن کی وجہ سے کھول رہی تھی۔ یہ سچ تھا کہ ابو جی نے ہمارے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں اور سارے والدین ہی اپنی اولاد کی خاطر یہ سب کرتے ہیں۔
عذیر کے سمجھانے کا الٹا اثر ہوا تھا۔ مجھے ابو جی کی بیوی سے شدید قسم کی نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے آپی تک بھی اپنے خیالات پہنچا دیئے تھے۔ آپی نے بھی کم و بیش عذیر کی طرح نصیحتیں کی تھیں۔ میں جلتے بھنتے سنتی رہی۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi