Episode 54 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 54 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

                                        کیسے کیسے لوگ 

تم نہ ہوتی تو میں ان دیواروں سے ٹکریں مار مار کے شاید مر ہی جاتی کون ہے اپنا جو احساس کرے ، دکھ سکھ بانٹے۔ اگر بیمار ہو جاؤں تو کوئی پانی پلانے والا نہیں ہوتا۔
”محسن بے چارے سارا دن آفس میں سر کھپا کر آتے ہیں اور پھر گھر کے ”پھیلاوے“ کو بھی انہیں ہی سیمٹنا پڑتا ہے۔
“ الماس باجی سر پہ دوپٹا باندھے انتہائی رقت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ نادیہ کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو بھر آئے باجی کی بے بسی کے احساس سے۔ اس نے محبت سے ان کا ہاتھ دبایا۔
”میں ہوں نا…“
”تم ہو ، اسی لئے تو آرام سے بستر توڑ رہی ہوں۔ ورنہ بخار میں بھی کہاں چین تھا۔ بچے گھر اور تمہارے بھائی جان کی چخ چخ مزید بے حال کر دیتی تھی مجھے۔

(جاری ہے)

“ انہوں نے بھی جواباً اس سے بڑھ کر محبت کا مظاہرہ کیا۔
نادیہ انہیں آرام کی تلقین کرکے کچن میں چلی گئی۔ بھائی جان کیلئے بریانی اور بچوں کیلئے کھیر بنا کر فریج میں رکھی۔ باجی کیلئے سوپ تیار کیا۔ بچوں کو کھانا کھلا کر اور برتن سمیٹ کے ہی وہ گھر آئی تھی۔ اماں کا پارہ چڑھ گیا تھا گھڑی کی طرف دیکھ کر۔
”کر آئی ہو مہارانی کی خدمتیں۔
“ اماں کے طنزیہ لب و لہجہ کو سن کر وہ بھی بگڑ گئی تھی۔
”اماں کبھی تو بخش دیا کریں۔ اتنی بیمار ہیں باجی ، اگر میں تھوڑا بہت کام کرکے ان کا بوجھ ہلکا کر آتی ہوں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ شام کو صبا بھی تو جاتی ہے باجی کے پاس۔ چاچی نے کبھی اسے نہیں منع کیا۔ رات کی روٹیاں اور صبح کیلئے آٹا گوندھ کے آتی ہے وہ ، ہم نہیں ان کا احساس کریں گے تو اور کون کرے گا۔
آخر میں اس کی آواز بھرا گئی اور اماں نے سر پیٹ لیا۔
”سارے جہان کا درد تیرے ہی دل میں آن سمایا ہے کمبخت ، چل اٹھ سالن پکالے تیرے باوا آنے والے ہیں۔“ اماں بکتی جھکتی وضو کرنے چل دیں اور نادیہ نے بھی آنسو صاف کرکے اندرونی حصے کی طرف رخ کیا۔
الماس باجی اس کے تایا کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ دو سال پہلے تایا جی بھی چل بسے تو باجی ہمیشہ کیلئے تایا جی کے مکان میں رہنے کیلئے آ گئی تھیں۔
باجی کیا آئیں گویا بہار ہی اتر آئی تھی ان کے دلوں میں صبا اور نادیہ دونوں ہی گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر باجی کے پاس آ جاتیں۔ باجی کی چٹ پٹی باتوں اور رنگا رنگ شگوفوں میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ باجی اپنے بچپن لڑکپن اور کالج کے قصے خوب مزے لے لے کر سناتیں اور ان کے قہقہوں کے فوارے پھوٹ پڑتے۔ باتیں بھی ہوتی رہتیں اور ان کے ہاتھ بھی چلتے رہتے تھے۔
ادھر کام ختم ہوتا تھا اور ادھر باجی کو نیند کے میٹھے جھونکے آنے لگتے۔ وہ آرام کرنے کیلئے اپنے کمرے میں گھس جاتی تھیں اور یہ دونوں اپنے گھروں کی طرف چل پڑتیں۔
اماں کو اس کا الماس باجی کی طرف بھاگ بھاگ کر جانا اور چوبیس میں سے نصف گھنٹے ادھر گھسے رہنا پسند نہیں تھا اور جب سے اس نے نجف بھائی کا لایا ہوا رشتہ ٹھکریا تھا اماں کے ماتھے کے بل ہی کم نہیں ہوتے تھے۔
وہ لاپروائی سے اماں کی جھڑکیاں سنتی رہتی۔
######
اس دن بھی اماں کسی کی عیادت کیلئے گئی تھیں تو وہ دروازے لاک کرکے باجی کی طرف آ گئی۔ گیٹ پر ہی طارق سے سامنا ہو گیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر کھل اٹھا تھا جب کہ نادیہ نے خونخوار نظروں سے اس کبوتری کو گھورا اور دھپ دھپ کرتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔ طارق نے ہاتھ میں موجود کبوتری کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور زیر لب مسکراتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔
نادیہ کو الماس کا دیور ذرا پسند نہیں تھا آوارہ اور نکما۔ سارا دن کبوتروں کی سیوا کے بہانے چھت پر چڑھا آنکھیں سینکتا رہتا تھا۔
”بھلا باجی کو کیا ضرورت تھی اس نمونے کو ساتھ لانے کی۔“ اس نے تنفر سے سوچا اور باجی کو آوازیں دیتی دوسرے صحن میں آ گئی۔ باجی اچار کیلئے آم کاٹ رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر دلکشی سے مسکرائیں۔
”ارے ابھی میں تمہیں یاد کر رہی تھی۔
اسے کہتے ہیں دل سے دل کو راہ ہونا۔“ انہوں نے اطمینان سے اسے چاقو پکڑایا اور تخت پر ڈھیر ہو گئیں۔
”باجی! آپ طارق کو کیوں لائی ہیں ادھر۔“ آم کاٹتے ہوئے اس نے سرسری لہجے میں پوچھا۔ باجی نے بھرپور انگڑائی لے کر اسے دیکھا تھا۔
”طاری بہت اچھا ہے نادیہ۔ اتنے کام کرتا ہے باہر کے ، سبزی ، گوشت، آٹا دالیں سب کچھ یہی لاتا ہے۔ میں بازار جاؤں تو پھر دو دن چارپائی سے اٹھ نہیں پاتی۔
ان کے تفصیل سے بتانے پر نادیہ نے سر ہلایا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بچے اسکول سے آ گئے۔ نادیہ نے اونگھتی ہوئی الماس پر نظر ڈالی بچوں کے اسکول بیگ سنبھالے اور پھر تینوں کو باری باری نہلایا۔ جب تک باجی اٹھیں وہ بچوں کو کھانا کھلا چکی تھیں۔ باجی کی تشکر کے احساسات سے آنکھیں نم ہو گئیں۔
”مجھے تم پر فخر ہے نادیہ تم بہت اچھی بہن ہو۔
“ باجی کے محبت بھرے ان چند لفظوں نے اسے ہواؤں میں اڑا دیا تھا۔ تعریف کسے بری لگتی ہے اور پھر باجی تو دل کھول کر مقابل کو سراہتی تھیں۔ انہوں نے اس کی ان پوشیدہ خوبیوں کی بھی تعریفیں کیں جو کہ نادیہ کی نگاہوں سے بھی اوجھل تھیں۔ ان تعریفوں کا کچھ تو حق ادا کرنا تھا۔ اس نے مشین لگا کر ہفتہ بھر کے کپڑے بھی دھو دیئے۔
”سچ نادیہ! جو بات تم میں ہے وہ صبا میں بالکل نہیں۔
وہ بہت باتونی لڑکی ہے جبکہ تم انتہائی کم گو ، معصوم ، نازک اور خوبصورت لڑکی ہو۔ جس گھر میں بھی جاؤ گی اجالے بکھیر دو گی ہر طرف بڑا ہی خوش نصیب ہوگا تمہار ہم سفر۔ جسے تم جیسی دلکش اور من موہن سی دلہن مل جائے گی۔ مجھے تو جیلسی فیل ہو رہی ہے اس بندے سے۔“
الماس نے اس کی ٹھوڑی چھو کر نہایت ہی دلار سے کہا تھا نادیہ کا چہرہ شرم سے لال پڑ گیا۔
باجی کے الفاظ من میں گھنٹیاں بجانے لگے تھے۔ گھر آ کر اس نے کتنی ہی مرتبہ بغور آئینہ دیکھا تھا۔ اماں اسے آئینہ کے سامنے کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
”اے… کیا شکل بدل گئی ہے جو یوں دیدے پھاڑ پھاڑ کے گھورے جا رہی ہو شیشے کو اب بس بھی کرو حسن آرا بیگم۔“
”اماں آپ بھی نا۔“ اس کے خوابوں کا محل دھڑام سے گرا تھا۔ وہ تو نجانے کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی ان چند لمحوں میں۔
اماں نے اسے حقیقت کی تلخ دنیا میں لا پٹخا تھا۔ وہ چڑ کر سامنے سے ہٹ گئی۔
آسمان پر اچانک ہی کالے کالے بادل چھا گئے تھے۔ موسم کے تیور دیکھ کر اس نے سرعت سے صحن میں بکھری چیزیں سمیٹیں۔ چوزوں کو دڑبے میں بند کیا۔ الگنی سے کپڑے اتارے۔ پھر سبزی لے کر تخت پر بیٹھ گئی۔
”نادی۔“ اماں نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بڑے پیار سے کہا تھا۔
وہ بھی اماں کے بدلے بدلے لب و لہجہ کو سن کر چونکی۔
”کاظم کی ماں آج پھر آئی تھی۔ میں نے سوچنے کیلئے وقت مانگا ہے۔ دیکھ بیٹی میں تیری ماں ہوں ، اچھا ہی سوچوں گی نا تیرے لئے اور پھر لڑکا بہت اچھا ہے۔ اس کی ماں کو نیک گھرانے کی پیار کرنے والی بچی چاہئے۔ میلاد میں دیکھا تھا انہوں نے تمہیں۔ بہت پسند آئی ہو تم کاظم کی بہنوں کو۔ اسی لئے تو انہوں نے دہلیز پکڑ رکھی ہے ہماری۔
ورنہ کاظم کیلئے رشتوں کی کمی تو نہیں ہے۔ خوبصورت ہے ، پڑھا لکھا ، اتنی اچھی نوکری ہے اس کی ، نجف کہہ رہا تھا کہ خالہ اس سے بہتر رشتہ نہیں مل سکے گا ہمیں اپنی نادی کیلئے۔“
”اماں آپ کو کیا جلدی ہے مجھے اس گھر سے نکالنے۔“ ان کی پوری بات سن کر وہ غصے سے بولی۔ اماں نے خفگی سے اسے گھورا۔
”تیری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے۔“ اس نے سبزی کی ٹوکری اٹھائی اور باورچی خانے میں گھس گئی۔ اماں نے اس کے تیور دیکھ کر سرپیٹ لیا تھا۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi