Last Episode - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

آخری قسط - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

شام کو ابا آئے تو اماں نے اسے چائے بنانے کا حکم دے دیا۔ ابا نے کبھی اس وقت چائے نہیں پی تھی۔ وہ جلتی بھنتی کچن کی طرف چل دی۔ رات تک اسے اماں کے معرے کی خبر مل گئی تھی۔ اس کی اور اماں کی خوب جھڑپ ہوئی۔ اس نے غصے سے کھانا بھی گول کر دیا۔ رات بھر بھوکی پیاسی روتی رہی۔ صبح اٹھ کر الماس باجی کو اماں کی کارروائی کی سب سے پہلے رپورٹ دی۔ باجی نے صبا کو بھی بلوا لیا تھا۔
دونوں نے مل کر اسے خوب تسلیاں دلاسے دیئے۔ وہ سوں سوں کرتی سنتی رہی۔ آج اُس کا باجی کی طرف رہنے کا ارادہ تھا۔ وہ اماں کو بتا کر آئی تھی کہ وہ اب ان کے گھر نہیں رہے گی۔ اماں اس کے بچپنے پر بھنا اٹھی تھیں تاہم کہا کچھ نہیں۔ جانتی تھیں کہ وہ دو گھڑی کا غصہ ہے اس کا سارا دن وہ باجی کے ساتھ مصروف رہی۔ شام کو محسن بھائی خوب لدے پھندے آ گئے تھے۔

(جاری ہے)


”نادیہ چائے بنا لاؤ۔“ محسن بھائی نے اسے آواز دی۔ وہ اٹھ کر چائے بنانے چل دی تھی۔ بڑے ہی خوشگوار ماحول میں چائے پی گئی۔ رات کو اس نے خوب محنت کرکے دال چاول بنائے۔ کرن کی فرمائش پر ٹرائفل بھی تیار کیا۔ وہ بچوں کے ساتھ لڈو کھیل رہی تھی جب طارق چلا آیا تھا۔ نادیہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ وہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب طارق نے اسے روک لیا۔
”ادھر آؤ…“ وہ اسے بازو سے پکڑ کر صحن میں لے آیا تھا اور پھر زینے کی طرف بڑھنے لگا۔ نادیہ نے گھبرا کر اس سے بازو چھڑوانے کی کوشش کی۔
برآمد میں پہنچ کر اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا۔ کبوتروں کی گندگی ، حبس اور بدبو نے ایک ساتھ حملہ کیا تھا۔ نادیہ نے ناک دبا کر اسے گھورا۔
”کیوں لائے ہو مجھے یہاں۔“ وہ غصے سے چیخی۔
”آہستہ بولو۔“ طارق نے نرمی سے ٹوکا تھا اسے اور پھر بدرنگ سی قمیص کی جیب سے چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر نکال لایا۔ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی۔ اس نے ایک دو بٹن چھیڑ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”اس کے اندر وہ چیز ہے جسے سن کر تمہیں فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ صاف شفاف راستوں کو پہچان لوگی تم اور میں بھی یقینا۔
“ وہ پر اعتماد لہجے میں گویا ہوا اور پھر ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا تھا اس نے۔
صرف دو منٹ اور پچیس سیکنڈز نے اس کی پوری ہستی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ فق رنگت کے ساتھ سنتی رہی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے سیلاب جاری ہو گئے تھے۔
”جب میرے کانوں میں یہ زہر اترا تھا مجھے بھی اتنی تکلیف ہوئی تھی۔ پہلی مرتبہ مجھے اپنے وجود سے نفرت محسوس ہوئی۔
میں بھی اسی طرح رویا تھا۔ جب آنسو تھمے تو میں نے ایک فیصلہ کیا تھا خود کو منوانے کا فیصلہ۔ اپنے وجود کی عمارت کو دوبارہ کھڑا کرنے کا فیصلہ۔ اسی لئے میں نے کپڑے کی مل میں نوکری کر لی ہے۔ پہلی مرتبہ محبت کا ذائقہ محسوس کیا ہے میں نے۔ کل صبح میں نے کراچی چلے جانا ہے۔ یہ امانت تمہارے حوالے کرنا تھی۔“ طارق نے بھیگے لہجے میں کہہ کر ٹیپ ریکارڈر اس کی طرف بڑھایا۔
جسے اس نے تھاما نہیں تھا۔ وہ لرزتی ٹانگوں سے چلتی ہوئی بمشکل زینہ اتری۔ گیٹ کھول کر اس نے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی تھی۔
ابھی تک الماس کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ اس نے کرب سے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لئے۔
اسی پل لائٹ چلی گئی تھی۔ ہر طرف گھپ اندھیرا پھیل گیا تھا۔ پاؤں کے نیچے شاید کوئی پتھر آیا تھا اور وہ منہ کے بل گر پڑی۔
پاؤں سہلاتے ہوئے اس نے گھٹنے پر سر رکھ دیا۔ وہ زہر میں بجھی آواز اس کے پیچھے چلی آئی تھی۔
”دیکھیں نا محسن! اتنی تو مہنگائی ہے۔ اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ نوکرانی میں افورڈ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ مہینے کے آخر میں لمبے چوڑے بلوں کے ساتھ ایک اور اضافی خرچہ۔ ابھی تک تو نادیہ سے کام کرواتی آئی ہوں۔ صبا بھی فلمیں دیکھنے اور باتوں کے چسکے کیلئے آ جاتی ہے۔
مگر کب تک۔ اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ طارق کے ساتھ نادیہ کی شادی کروا دوں۔ مفت میں سارے کام بھی ہو جائیں گے اور طارق پر احسان الگ۔ ویسے بھی نادیہ جیسی عام سی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ طارق ہی ٹھیک رہے گا۔ اس کی ماں کے مزاج تو نہیں ملتے مگر لڑکی کو میں قابو کر لوں گی اور رہا طارق تو اس نکھٹو کو ہمیشہ کیلئے دبانے کا واحد علاج بھی یہی ہے۔
الماس بڑے کروفر کے ساتھ پلانگ کر رہی تھیں۔ نادیہ نے سر اٹھایا تو ننھی منی سی روشنی چہرے پر پڑی۔ وہ گھبراتے ہوئے اٹھ گئی تھی۔ دوپٹا سے چہرے صاف کرکے اس نے پنی طرف بڑھتے ہیولے کو بغور دیکھا۔ وہ پہچان چکی تھی کہ ٹارچ ہاتھ میں پکڑے بے قراری سے اس کی طرف آنے والا کون ہے۔ وہ دوڑتے ہوئے اماں کے سینے سے جا لگی تھی۔
”میری بچی میں تجھے لینے کیلئے آ رہی تھی۔
اندھیرے میں کیوں نکلی اور وہ بھی اکیلے۔ یہ الماس بھی نا۔“ وہ اس کا سر منہ چومتے ہوئے مسلسل بول رہی تھیں جب کہ اس نے اماں کے ساتھ چلتے ہوئے چپکے سے سوچا۔
”کہاں ہے اماں اندھیرا۔ میں تو روشنی میں آئی ہی اب ہوں۔ دیکھو تو ہر طرف اجالا ہی اجالا ہے۔ اندھیرے تو پیچھے رہ گئے ہیں عاقبت نااندیشوں کے پاس۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi