Episode 1 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 1 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

مقدمہ شعر و شاعری پر
تمہید:
حکیم علی الاطلاق نے اس ویرانہ آباد نما یعنی کارخانہ دنیا کی رونق اور انتظام کیلئے انسان کے مختلف گروہوں میں مختلف قابلیتیں پیدا کی ہیں تاکہ سب گروہ اپنے اپنے مذاق اور استعداد کے موافق جدا جدا کاموں میں مصروف رہیں اور ایک دوسرے کی کوشش سے سب کی ضرورتیں رفع ہوں اور کسی کا کام اٹکا نہ رہے اگرچہ ان میں بعض جماعتوں کے کام ایسے بھی ہیں جو سوسائٹی کے حق میں چنداں سود مند معلوم نہیں ہوتے  مگر چونکہ قسام ازل سے ان کو یہی حصہ پہنچا ہے۔
اس لئے وہ اپنی قسمت پر قانع اور اپنی کوشش میں سرگرم ہیں جو کام ان کی کوشش سرانجام ہوتا ہے گو تمام عالم کی نظر میں اس کی کچھ وقعت نہ ہو مگر ان کی نظروں میں وہ ویسا ہی ضروری اور ناگزیر ہے جیسے اور گروہوں کے مفید اور عظیم الشان کام تمام عالم کی نظر میں ضروری اور ناگزیر ہیں۔

(جاری ہے)

 کسان اپنی کوشش سے عالم کی پرورش کرتا ہے اور معمار کی کوشش سے لوگ سردی گرمی مینہ اور آندھی کے گزند سے بچتے ہیں۔
اس لئے دونوں کے کام سب کے نزدیک عزت اور قدر کے قابل ہیں۔ لیکن ایک بانسری بجانے والا جو کسی سنسان ٹیکرے پر تن تنہا بیٹھا بانسری کی لے سے اپنا دل بہلاتا اور شاید کبھی کبھی سننے والوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچتا ہے گو اس کی ذات سے بنی نوع کے فائدہ کی چنداں توقع نہیں۔ مگر وہ اپنے دلچسپ مشغلہ کو کسان اور معمار کے کام سے کچھ کم ضروری نہیں سمجھتا اور اس خیال سے اپنے دل میں خوش ہے کہ اگر اس کام کو سلسلہ تمدن میں کچھ دخل نہ ہوتا تو صانع حکیم انسان کی طبیعت میں ان کا مذاق ہرگز پیدا نہ کرتا۔
ہزار رنگ دریں کارخانہ درکار است
مگیر نکتہ نظیری ہمہ نگو بستند
شعر کی مدح و ذم
شعر کی مدح و ذم میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور جس قدر اس کی مذمت کی گئی ہے وہ بہ نسبت مدح کے زیادہ قرین قیاس ہے۔ خود ایک شاعر کا قول ہے کہ دنیا میں شاعر کے سوا کوئی ذلیل سے ذلیل پیشہ والا ایسا نہیں ہے جس کی سوسائٹی کو ضرورت نہ ہو۔ افلاطون نے جو یونان کیلئے جمہوری سلطنت کا خیالی ڈھانچہ بنایا تھا۔
اس میں شاعر کے سوا ہر پیشہ اور ہر فن کے لوگوں کی ضرورت تسلیم کی تھی۔ زمانہ حال میں بعضوں نے شعر کو میجک لینٹرن سے تشبیہ دی ہے یعنی میجک لینٹرن جس قدر زیادہ تاریک کمرے میں روشن کی جاتی ہے اسی قدر زیادہ جلوے دکھاتی ہے۔ اس طرح شعر جس قدر جہل و تاریکی کے زمانے میں ظہور کرتا ہے اسی قدر زیادہ رونق پاتا ہے۔
شاعری کا ملکہ بیکار نہیں ہے
یہ اور اسی قسم کی اور بہت باتیں جو شعر کے برخلاف کہی گئی ہیں  ایسی ہیں جو لامحالہ تسلیم کرنی پڑتی ہے مگر اس بات کا بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی ایسے پیدا ہوئے ہیں جن کو قدرت نے اسی کام کیلئے بنایا تھا اور یہ ملکہ ان کی طبیعت میں ویعت کیا تھا۔
اگرچہ اکثر نے اس ملکہ کو مقتضائے فطرت کے خلاف استعمال کیا۔ پس ایک ایسے عطیہ کو جسے قدرت نے عنایت کیا ہو صرف اس وجہ سے کہ اکثر لوگ اس کو فطرت کے خلاف استعمال کرتے ہیں کسی طرح عبث اور بیکار نہیں کہا جا سکتا عقل خدا کی ایک گراں بہا نعمت ہے مگر بہت لوگ اس کو مکر و فریب اور شر و فساد میں استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح شجاعت ایک عطیہ الٰہی ہے مگر بعض اوقات وہ قتل و غارت و رہزنی میں صرف کی جاتی ہے کیا اس سے عقل کی شرافت اور شجاعت کی فضیلت میں کچھ فرق آ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں اسی طرح ملکہ شعر کسی برے استعمال سے برا نہیں ٹھہر سکتا۔
یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا ہے وہی شاعر بنتا ہے۔ شاعری کی سب سے پہلی علامت موزونی طبع سمجھی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے جو اشعار بعض فاضلوں سے موزوں نہیں پڑھے جاتے ان کو بعض ان پڑھ اور صغیر سن بلا تکلف موزوں پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ شاعری کوئی اکتسابی چیز نہیں بلکہ بعض طبیعتوں میں اس کی استعداد خدا داد ہوتی ہے۔
پس جو شخص اس عطیہ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا ممکن نہیں کہ اس سے سوسائٹی کو کچھ نفع نہ پہنچے۔
شعر کی تاثیر مسلم ہے
شعر کی تاثیر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ سامعین کو اکثر اس سے حزن یا نشاط جوش یا افسردگی کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے کچھ کام لیا جائے تو وہ کہاں تک فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
بھاپ سے جو حیرت انگیز کرشمے اب ظاہر ہوئے ہیں ان کا سراغ اول اس خفیف حرکت میں لگا تھا جو اکثر پکتی ہانڈی پر چپنی کو بھاپ کے زور سے ہوا کرتی ہے۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ اس ناچیز گیس میں جرار لشکروں اور ذخار دریاؤں کی طاقت چھپی ہوئی ہے۔
ناٹک
ہمارے ملک میں بھانڈ اور نقالوں کا کام بہت ذلیل سمجھا جاتا ہے اور ہولی میں جو سوانگ بھرے جاتے ہیں وہ سوسائٹی کیلئے مضر خیال کئے جاتے ہیں لیکن یورپ میں اسی سوانگ اور نقالی سے اصلاح پا کر قوموں نے بے انتہا اخلاقی اور تمدنی فائدے حاصل کئے ہیں۔
باجا
باجے کے تمام آلات جو ہمارے یہاں ہمیشہ لہو و لہب کے مجمعوں میں مستعمل ہوتے ہیں اور جن کو یہاں کے عقلا محض فضول جانتے ہیں۔ شائستہ قوموں نے ان کے مناسب استعمال سے نہایت گراں بہا فائدے اٹھائے ہیں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ میدان جنگ میں جب اصول مقررہ کے موافق باجا بجتا ہے  تو سپاہ کے دل سے حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور افسر کے حکم پر ہر سپاہی جان فدا کرنے کو موجود ہوتا ہے اور جب کسی وجہ سے جنگ کے موقع پر باجا بجنے سے رک جاتا ہے تو ان کے دل سرد ہو جاتے ہیں اور افسر کا حکم بہت کم مانا جاتا ہے۔
شعراء کا حسن قبول
تاریخ میں ایسی مثالیں بے شمار ملتی ہیں کہ شعراء نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کے دلوں پر فتح نمایاں حاصل کی ہیں۔ بعض اوقات شاعر کا کلام جمہور کے دل پر ایسا تسلط کرتا ہے کہ شاعر کی ہر ایک چیز یہاں تک کہ اس کے عیب بھی خلقت کی نظر میں مستحسن معلوم ہونے لگتے ہیں اور لوگ اس بات میں کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ان عیبوں سے متصف ہو کر دکھائیں بائرن کی نسبت مشہور ہے کہ لوگ اس کی تصویر نہایت شوق سے خریدتے تھے اور اس کی نشانیاں اور یادگاریں سینت سینت کر رکھتے تھے۔
اس کے اشعار حفظ یاد کرتے تھے اور ویسے ہی اشعار کہنے میں کوشش کرتے تھے  بلکہ یہ چاہتے تھے کہ خود بھی ویسے ہی دکھائی دینے لگیں۔ اکثر لوگ آئینہ سامنے رکھ کر مشق کیا کرتے تھے کہ اوپر کے ہونٹ اور پیشانی پر ویسی ہی شکن ڈال لیں جیسی کہ لارڈ بائرن کی بعض تصویروں میں پائی جاتی ہے۔ بعضوں نے اس کی ریس 1سے گلوبند باندھنا چھوڑ دیا تھا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali