Episode 3 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 3 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

رو دکی کے کلام کی تاثیر:
ایران کے مشہور شاعر اور دکی کا قصہ مشہور ہے کہ امیر نصر بن احمد سامانی نے جب خراسان کو فتح کیا اور ہرات کی فرحت بخش آب و ہوا اس کو پسند آئی تو اس نے وہیں مقام کر دیا اور بخارا جو کہ سامانیوں کا اصلی تخت گاہ تھا اس کے دل سے فراموش ہو گیا لشکر کے سردار اور اعیان امراء جو بخارا میں عالیشان عمارتیں اور عمدہ باغات رکھتے تھے ، ہرات میں رہتے رہتے اکتا گئے اور اہل ہرات بھی سپاہ کے زیادہ ٹھہرنے سے گھبرا اٹھے۔
 سب نے استاد ابو الحسن رو دکی سے یہ درخواست کی کہ کسی طرح امیر کو بخارا کی طرف مراجعت کرنے کی ترغیب دے۔ رو دکی نے ایک قصیدہ 4لکھا اور جس وقت بادشاہ شراب اور راگ رنگ میں محو ہو رہا تھا اس کے سامنے پڑھا۔ اس قصیدہ نے امیر کے دل پر ایسا اثر کیا کہ جمی ہوئی محفل چھوڑ کر اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر موزہ پہنے گھوڑا پر سوار ہو کر مع لشکر کے بخارا کو روانہ ہو گیا اور دس کوس پر جا کر پہلی منزل کی۔

(جاری ہے)

شاید اس قبیل کے واقعات ایشیائی شاعری میں کم دستیاب ہوں لیکن ایسی حکایتیں بے شمار ہیں کہ شعر کسی مناسب موقع پر پڑھایا گایا گیا اور سامعین کے دل قابو سے باہر ہو گئے اور صحبت کا رنگ دگرگوں ہو گیا۔ اس موقع پر ایک حکایت نقل کی جاتی ہے۔
عمر خیام کی رباعی کی تاثیر
نوربائی گائن ، جس نے اپنے حسن و جمال ، خوش آوازی بذلہ سنجی اور مصباحت کی عمدہ لیاقت کے سبب محمد شاہ کے تقرب کا درجہ حاصل کیا تھا اور تمام امرائے دربار کے دلوں پر قابض تھی ، ایک روز نواب روشن الدولہ کے یہاں بیٹھی تھی اور ہنسی چہل کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں غالباً میراں سید بھیک صاحب کی سواری جن سے نواب کو کمال عقیدت تھی ، آ پہنچی۔
 نواب نے فوراً بائی کو دوسرے کمرے میں بٹھا کر آگے سے چلمن چھڑوا دی۔ میراں صاحب آئے اور اتفاق سے بہت دیر تک بیٹھے۔ بائی جو ایک نہایت چلبلی اور بے چین طبیعت کی عورت تھی تنہائی میں زیادہ بیٹھنے کی تاب نہ لاکر بے باکانہ باہر نکل آئی اور شیخ کے حضور میں جھک کر آداب بجا لائی اور عرض کی کہ لونڈی کو حکم ہو تو کچھ گائے۔ میراں صاحب چونکہ سماع کے عاشق تھے  خاموش ہو رہے۔
بائی نے ان کی خاموشی کو اجازت سمجھ کر یہ رباعی نہایت سوز گداز کی لے میں گانی شروع کی:
شیخے بہ زنے فاحشہ گفتار مستی
کزخیر گستی و بہ شر پیوستی
زن گفت چنانکہ می نمایم ہستم
تو نیز چونکہ می نمائی ہستی؟
شیخ کی حالت اس بر محل رباعی کے سننے سے ایسی متغیر ہو گئی کہ بائی کو اپنی جسارت سے سخت نادم ہونا پڑا۔ باوجودیکہ نور بائی کو خاموش کر دیا گیا تھا۔
شیخ کی شورش کسی طرح کم نہ ہوتی تھی۔ وہ زمین پر مرغ بسمل کی طرح لوٹتے تھے اور دیواروں میں سر دے دے مارتے تھے۔ دیر تک یہی حال رہا اور بہت مشکل سے ہوش آئے۔
شاعری ناشائستگی کے زمانہ میں ترقی پاتی ہے
بہرحال شعراء اگر اصلیت سے بالکل متجاوز اور شاعری محض بے بنیاد باتوں پر مبنی نہ ہو تو تاثیر اور دل نشینی اس کی نیچر میں داخل ہے۔
لیکن شاعری کی نسبت جو راہیں زمانہ حال کے اکثر محققوں نے قائم کی ہیں۔ ان کا جھکاؤ اس طرف پایا جاتا ہے کہ سویلزیشن کا اثر شعر پر برا ہوتا ہے۔ جس قدر کہ علم زیادہ محقق ہوتا جاتا ہے اسی قدر تخیل جس پر شاعری کی بنیاد ہے گھٹتا جاتا ہے اور کرید کی عادت جو ترقی علم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ شعر کے حق میں سم قاتل ہے وہ کہتے ہیں کہ جب تک سوسائٹی نیم شائستہ اور اس کا علم اور واقفیت محدود رہتی ہے اور عل و اسباب پر اطلاع کم ہوتی ہے۔
اس وقت تک زندگی خود ایک کہانی معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کی سر گزشت جو کہ بالکل ایک واقعات کا سلسلہ ہوتا ہے۔ اگر ایک نیم شائستہ سوسائٹی میں سیدھے سادے طور پر بھی بیان کی جائے تو اس سے کہیں خوف اور کہیں تعجب اور کہیں جوش خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور انہی چیزوں پر شاعری کی بنیاد ہے لیکن جب شائستگی زیادہ پھیلتی ہے تو یہ چشمے بند ہو جاتے ہیں اور اگر کہیں بند نہیں ہوتے تو ان کو نہایت احتیاط کے ساتھ روکا جاتا ہے تاکہ ان کا مضحکہ نہ اڑے۔
اس رائے کا ایک بڑا حامی یہ کہتا ہے کہ ”شعر دلوں پر ویسا ہی پردہ ڈالتا ہے جس طرح میجک لینٹرن آنکھ پر ڈالتی ہے۔ جس طرح اس لالٹین کا تماشا بالکل اندھیرے کمرے میں پورے کمال کو پہنچتا ہے۔ اسی طرح شعر محض تاریک زمانہ میں اپنا پورا کرشمہ دکھاتا ہے اور جس طرح روشنی کے آتے ہی میجک لینٹرن کی تمام نمائشیں نابود ہو جاتی ہیں اسی طرح جوں جوں حقیقت کے حدود اربعہ صاف او روشن اور احتمالات کے پردے مرتفع ہوتے جاتے ہیں۔
اسی قدر شاعری کے سیمیائی جلوے کافور ہوتے جاتے ہیں کیونکہ دو متناقص چیزیں یعنی حقیقت اور دھوکہ جمع نہیں ہو سکتیں۔“
فردوسی کی مثال
اس مطلب کے زیادہ دل نشین ہونے کیلئے ذیل کی مثال پر غور کرنا چاہئے۔ فردوسی نے اپنے ہیرو رستم کی زور مندی اور بہادری کے متعلق جو کچھ شاہنامہ میں لکھا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ اس کو سن کر رستم کی غیر معمولی عظمت اور بڑائی کا یقین دل میں پیدا ہوتا تھا۔
اس کے زور اور شجاعت کا حال سن کر تعجب کیا جاتا تھا۔ سامعین کے دل میں خود بخود اس کے ساتھ ہمدردی اور اس کے حریفوں سے برخلافی کا خیال پیدا ہوتا تھا لیکن اب جس قدر کہ علم بڑھتا جاتا ہے روز بروز طلسم ٹوٹتا جاتا ہے اور وہ زمانہ قریب آتا ہے کہ رستم ایک معمولی آدمی سے زیادہ نہ سمجھا جائے گا۔
شاعری شائستگی میں قائم رہ سکتی ہے
اگرچہ یہ رائے جو شاعری کی نسبت اوپر بیان ہوئی  کسی قدر صحیح ہے مگر اس کو بھی بے سوچے سمجھے قبول نہیں کرنا چاہئے جو لوگ اس رائے کے برخلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ علم کی ترقی سے الفاظ کے معنی محدود اور بہت سی باتوں کی واقعیت کے خیال محو ہو گئے مگر زبانیں پہلے کی نسبت زیادہ لچک دار اور اکثر مقاصد کے بیان کرنے کے زیاد لائق ہوتی جاتی ہیں۔
بہت سی تشبیہیں بلاشبہ اس زمانہ میں بیکار ہو گئی ہیں مگر ذہن نئی تشبیہیں اختراع کرنے سے عاجز نہیں ہوا یہ سچ ہے کہ سائنس اور مکینکس جوشیلے خیالات کو مردہ کرنے والے ہیں لیکن انہیں کی بدولت شاعر کیلئے نئی نئی تشبیہات اور تمثیلات کا لازوال ذخیرہ جو پہلے موجود نہ تھا مہیا ہو گیا ہے اور ہوتا جاتا ہے وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سوسائٹی کے ترقی کرنے سے امیجینشن یعنی تخیل کی طاقت ضعیف ہو جاتی ہے بلکہ ان کا قول ہے کہ جب تک انسان کا یہ اعتقاد ہے کہ ابد کے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوط ہے جب تک بے شمار اسباب اور موانع جن کا انکار نہیں ہو سکتا ، چاروں طرف سے ہم کو گھیرے ہوئے ہیں جب تک عشق انسان کے دل پر حکمران ہے اور ہر فرد بشر کی روداد زندگی کو ایک دلچسپ قصہ بنا سکتا ہے۔
جب تک قوموں میں حب وطن کا جوش موجود ہے۔ جب تک بنی نوع انسانی ہمدردی پر متفق ہو کر شامل ہونے کیلئے حاضر ہیں اور جب تک حوادث اور وقائع جو زندگی میں وقتاً بعد وقتاً حادث ہوتے ہیں خوشی یا غم کی سلسلہ جنباتی کرتے ہیں تب تک اس بات کا خوف نہیں ہو سکتا کہ تخیل کی طاقت کم ہو جائے گی اور اس سے بھی کم خوف جب تک کہ نیچر کی کان کھلی ہوئی ہے اس بات کا ہے کہ شاعر کا ذخیرہ نبڑ جائے گا ہاں مگر اس میں شک نہیں کہ نیچر کی جو نمایاں چیزیں تھیں وہ اگلے مزدوروں نے چن لیں اور چونکہ ان کیلئے وہ پہلی تھیں اس لئے عجیب تھیں۔ اب ان کے تعجب انگیز بیان پر کوئی سبقت نہیں لے جا سکتا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali