Episode 4 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 4 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

شاعری کا تعلق اخلاق کے ساتھ:
شعر سے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کو علم اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔
اسی بناء پر صوفیہ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اور رکن رکین شعر ہے وسیلہ قرب الٰہی اور باعث تصیفہ نفس و تزکیہ باطن مانا گیا ہے۔
شعر کی عظمت
یورپ کا ایک محقق کہتا ہے کہ مشاغل دینوی میں انہماک کے سبب جو قوتیں سوجاتی ہیں شعر ان کو جگاتا ہے اور ہمارے بچپن کے ان خالص اور پاک جذبات کو جو لوث غرض کے داغ سے منزہ اور مبرا تھے پھر ترو تازہ کرتا ہے۔

(جاری ہے)

دینوی کاموں کی مشق اور ممارست سے بیشک ذہن میں تیزی آ جاتی ہے مگر دل بالکل مر جاتا ہے جبکہ افلاس میں قوت لایموت کیلئے یا تونگری میں جاہ و منصب کیلئے کوشش کی جاتی ہے اور دنیا میں چاروں طرف خود غرضی دیکھی جاتی ہے۔ اس وقت انسان کو سخت مشکلیں پیش آتیں ، اگر اس کے پاس کوئی ایسا علاج نہ ہوتا جو دل کے بہلانے اور ترو تازہ کرنے میں چپکے ہی چپکے مگر نہایت قوت کے ساتھ افلاس کی صورت میں مرہم اور تونگری کی صورت میں تریاق کا کام دے سکے۔
یہ خاصیت خدا نے شعر میں ودیعت کی ہے وہ ہم کو محسوسات کے دائرہ سے نکال کر گزشتہ اور آئندہ حالتوں کو ہماری موجودہ حالت پر غالب کر دیتا ہے شعر کا اثر محض عقل کے ذریعہ سے نہیں بلکہ زیادہ تر ذہن اور ادراک کے ذریعے اخلاق پر ہوتا ہے پس ہر قوم اپنے ذہن کی جو دت اور ادراک کی بلندی کے موافق شعر سے اخلاق فاضلہ اکتساب کر سکتی ہے۔ قومی افتخار ، قومی عزت ، عہد و پیمان کی پابندی ، بے دھڑک اپنے تمام عزم پورے کرنے ، استقلال کے سات سختیوں کو برداشت کرنا اور ایسے فائدوں پر نگاہ نہ کرنی جو پاک ذریعوں سے حاصل نہ ہو سکیں اور اسی قسم کی وہ تمام خصلتیں جن کے ہونے سے ساری قوم تمام عالم کی نگاہ میں چمک اٹھتی ہے جس کے نہ ہونے سے بڑی سے بڑی قومی سلطنت دنیا کی نظروں میں ذلیل رہتی ہے۔
اگر کسی قوم میں بالکل شعر ہی کی بدولت پیدا نہیں ہو جاتی تو بلاشبہ ان کی بنیاد تو اس میں شعر ہی کی بدولت پڑتی ہے۔ اگر افلاطون اپنے خیالی کا نسٹی نیوشن سے شاعروں کو جلاوطن کر دینے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ ہرگز اخلاق پر احسان نہ کرتا بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سرد مہر خود غرض اور مروت سے دور ایسی سوسائٹی قائم ہو جاتی جس کا کوئی کام اور کوشش بدون موقع اور مصلحت کے محض دل کے ولولہ اور جوش سے نہ ہوتی۔
یہی سبب ہے کہ تمام دنیا شعراء کا ادب اور تعظیم کرتی ہے جنہوں نے اس خاتم سلیمانی کی بدولت جو قوت متخیلہ نے ان کے قبضہ میں دی ہے انسان میں ایسی تحریک اور برانگیختگی پیدا کی ہے جو کہ خود نیکی ہے یا نیکی کی طرف لے جانے والی۔“
شاعری سوسائٹی کی تابع ہے
مگر باوجود ان تمام باتوں کے جو کہ شعر کی تائید میں کہی گئی ہیں ، ممکن ہے کہ سوسائٹی کے دباؤ یا زمانہ کے اقتضاء سے شعر پر ایسی حالت طاری ہو جائے کہ وہ بجائے اس کے کہ قومی اخلاق کی اصلاح کرے اس کے بگاڑنے اور برباد کرنے کا ایک زبردست آلہ بن جائے۔
قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات ، اس کی رائیں ، اس کی عادتیں ، اس کی رغبتیں ، اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے ، اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارادہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے۔ شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور شاعری کو ہجو گوئی نے برباد کیا۔
اس کا منشاء وہی سوسائٹی کا دباؤ تھا اور عبید زاکانی5 نے جو علم و فضل سے دست بردار ہو کر ہزل گوئی اختیار کی یہ وہی زمانہ کا اقتضاد تھا۔ جس طرح خوشامد اور نذر بھینٹ کا چٹخارا رفتہ رفتہ ایک متدین اور استبار جج کی نیت میں خلل ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح دربار کی واہ واہ اور صلہ کی چاٹ ایک آزاد خیال اور جذبیلے شاعر کو چپکے چپکے ہی بھٹکی ، جھوٹ اور خوشامد یا ہزل اور تمسخر پر اس طرح لا ڈالتی ہے کہ وہ اسی کو کمال شاعری سمجھنے لگتا ہے۔
خود مختار بادشاہ جن کا کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں ہوتا اور تمام بیت المال جن کا جیب خرچ ہوتا ہے ان کی بے دریغ بخشش شعراء کی آزادی کے حق میں سم قاتل ہوتی ہے۔ وہ شاعر جس کو قوم کا سرتاج اور سرمایہ افتخار ہونا چاہئے تھا ایک بندہ ہوا و ہوس کے دروازہ پر دریوزہ گروں کی صدا لگاتا اور شیئا اللہ کہتا ہوا پہنچتا ہے۔ اوّل اوّل مدح و ستائش میں سچ سے بالکل قطع نظر نہیں کی جاتی کیونکہ قومی عروج کی ابتداء میں ، ممدوح اکثر مدح کے مستحق ہوتے ہیں اور شاعر کی طبیعت سے آزادی کا جو ہر دفعةً زائل نہیں ہو جاتا لیکن جب واقعات نبڑ جاتے ہیں اور مدح سرائی کی ذمہ داری ہمیشہ کیلئے شاعر کے ذمہ لگ جاتی ہے تو اس کی شاعری کا مدار صرف جھوٹی تہمتیں باندھنے پر رہ جاتا ہے۔
پھر جب آفتاب اقبال کا دورہ جس کی عمر طبیعی شخصی سلطنتوں میں اکثر سو برس سے زیادہ نہیں ہوتی ختم ہونے کو ہوتا ہے اور سلاطین و امراء میں وہ خوبیاں جن کے سبب سے وہ جمہورا نام کے شکر و سپاس و مدح و ستائش کے مستحق اور شعراء کی مداحی سے مستغنی ہوں باقی نہیں رہتیں تو ان کو شاعروں کے بھٹسئی کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں سوجھتی جس کو سن کر ان کا نفس موٹا ہو۔
لہٰذا ان کو شعراء کی زیادہ قدر کرنی پڑتی ہے۔ اس سے جھوٹی شاعری کو اور زیادہ ترقی ہوتی ہے پھر بہت سے ناشاعر جب شاعروں کو گراں بہاصلے اور خلعت و انعام برابر پاتے دیکھتے ہیں تو ان کو بہ تکلف اپنے تئیں شاعر بنانا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ ان کی طبیعت میں شاعرانہ جدت و اختراع کا مادہ نہیں ہوتا لہٰذا وہ اصلی شاعروں کی نہایت بھونڈی تقلید کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ جس طرح بڑھاپے کی تصویر بچپن کی تصویر سے کچھ مناسبت نہیں رکھتی اسی طرح رفتہ رفتہ شعر کی صورت گویا مسخ ہو جاتی ہے اور شاعری کا ماحصل سوا اس کے کہ اس سے قرب سلطانی حاصل ہوتا ہے اور کچھ نہیں رہتا۔
چوتھی صدی ہجری میں شعر کی نسبت کیا خیال تھا؟
مرزا محمد طاہر نصر آبادی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ایک روز رات کے وقت صاحب ابن عباد طالغانی کی مجلس میں حسب معمول فضلاء اور شعرا جمع تھے۔
اثنائے سخن میں شعر کا ذکر چھڑ گیا۔ بعض شعر کی تعریف کرتے تھے بعضے مذمت۔ جو لوگ مذمت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شعرا اکثر مدح یا ذم پر مشتمل ہوتا ہے اور دونوں چیزوں کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ اس کے بعد ابو محمد خازن نے جو بہت بڑا صاحب علم و فضل شعر کی تائید میں یہ کہا کہ شعر میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم باوجودیکہ ہر علم و ہنر سے بہرہ مند ہیں ان میں سے کوئی چیز ہماری کامیابی کا ذریعہ نہیں ہو سکتی۔
صرف شعر ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ سے ہم کو سلاطین اور وزراء کے ہاں تقرب کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ شعر میں اکثر جھوٹ اور مبالغہ زیادہ ہوتا ہے ، ہاں بیشک ہوتا ہے لیکن جب یہ تانبا (یعنی جھوٹ) شعر کے طلا سے مطلا کیا جاتا ہے۔ تو ہمرنگ زر خالق ہو جاتا ہے اور شعر کا حسن جھوٹ کی برائی پر غالب آ جاتا ہے؟ اس بات کو سب نے پسند کیا اور بحث ختم ہو گئی۔
اس حکایت سے علاوہ اس بات کے کہ صاحب ابن عباد کے زمانہ یعنی چوتھی صدی ہجری میں ہماری شاعری محض ایک ذریعہ سلاطین و امرا کے تقرب کا سمجھی جاتی تھی ، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ اور مبالغہ شعر کے ذاتیات میں داخل ہو گیا تھا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali