Episode 6 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 6 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

صدراسلام کی شاعری کا کیا حال تھا:
صدر اسلام کی شاعری میں جب تک کہ غلامانہ تملق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے۔ جو لوگ مدح کے مستحق ہوتے تھے ان کی مدح اور جو ذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی منصف اور نیک خلیفہ یا وزیر مر جاتا تھا اس کے درد ناک مرثیے لکھے جاتے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔
خلفاء اور سلاطین کی مہمان اور فتوحات میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آتے تھے ، ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔ احباب کی صحبتیں جو انقلاب روزگار سے برہم ہو جاتی تھیں ان پر درد ناک اشعار لکھے جاتے تھے۔ پارسا بیویاں شوہروں کے اور شوہر بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشاء کرتے تھے۔ چراگاہوں ، چشموں اور وادیوں کی گزشتہ صحبتوں اور جمگھٹوں کی ہو بہو تصویر کھینچتے تھے۔

(جاری ہے)

اپنی اونٹنیوں کی جفا کشی اور تیز رفتاری ، گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے، بڑھاپے کی مصیبتیں ، جوانی کے عیش اور بچپن کی بے فکریوں کا ذکر کرتے تھے۔ اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالت غربت میں لکھتے تھے۔ اپنی سرگزشت واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ اپنے خاندان اور قبیلہ کی شجاعت اور سخاوت وغیرہ پر فخر کرتے تھے سفر کی محنتیں اور مشقتیں جو خود ان گزرتی تھیں بیان کرتے تھے۔
عالم سفر کے مقامات اور مواضع ، شہر اور قریے ، ندیاں اور چشمے سب نام بنام اور جوبری یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں ان کو موثر طریقہ سے ادا کرتے تھے ، بیوی اور بچوں یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں ان کو موثر طریقہ سے ادا کرتے تھے ، بیوی اور بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے۔ اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں۔
سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ دربار کے تملق اور خوشامد نے وہ سر جیون سوتیں سب بند کر دیں اور شعراء کیلئے عام طور پر صرف دو میدان باقی رہ گئے جن میں وہ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے تھے۔ ایک مدحیہ مضامین جن سے ممدوحین کا خوش کرنا مقصود ہوتا تھا۔ دوسرے عشقیہ مضامین جن سے ان کے نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی تھی۔ پھر جب ایک مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح کچھ مزہ باقی نہ رہا اور سلاطین و امراء کی مجلسیں گرم کرنے کیلئے اور ایندھن کی ضرورت ہوئی تو مطائبات و مضحکات و اہاجی و ہزلیات کا دفتر کھلا۔
بہت سے شاعروں نے سب چھوڑ چھاڑ یہی کوچہ اختیار کر لیا اور رفتہ رفتہ یہ رنگ تمام سوسائٹی پر چڑھ گیا۔ اگرچہ ابتداء سے اخیر تک ہر طبقہ اور ہر عہد کے شعراء میں کم و بیش ایسے واجب التعظیم لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی شاعری پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں لیکن شارع عام پر زیادہ تر وہی لوگ نظر آتے ہیں جو پچھلوں کیلئے شاعری کا میدان نہایت تنگ کر گئے یا ان کیلئے بہت برے نمونے چھوڑ گئے ہیں۔
متوسط اور اخیر زمانہ میں اسلامی شاعر کا کیا حال ہو گیا
پچھلوں نے جب آنکھیں کھول کر بزرگوں کے ترکہ میں مدحیہ قصائد اور عشقیہ غزلوں اور مثنویوں اور اہاجی اور ہزللیات کے سوا اور سامان بہت کم دیکھا تو انہوں نے شاعری کو انہیں چند مضمونوں میں منحصر سمجھا۔ لیکن ان مضمونوں میں بھی جب کہ چڑیاں کھیت چگ گئیں ، اب کیا دھرا تھا۔ تعریف اگر سچی ہو اور عشق اصلی تو شاعر کیلئے میٹریل کی کچھ کمی نہیں۔
جس طرح کائنات میں دو چیزیں یکساں نہیں پائی جاتیں اسی طرح ایک انسان کے محاسن دوسرے کے محاسن سے اور ایک کی واردات دوسرے کی واردات سے نہیں ملتی لیکن جب تعریف سراسر جھوٹی اور عشق محض تقلیدی ہو تو شعراء کو ہمیشہ وہی باتیں جو اگلے لکھ گئے ہیں دہرانی پڑتی ہیں۔
شاعری کی تقلید
اب جو پچھلوں نے اگلوں کی تقلید کرنی شروع کی تو نہ صرف مضامین میں بلکہ خیالات میں ، الفاظ میں ، تراکیب میں ، اسالیب میں، تشبیہات میں ، استعارات میں ، بحر میں قافیہ اور ردیف میں غرضیکہ ہر ایک بات اور ہر ایک چیز میں ان کے قدم بہ قدم چلنا اختیار کیا۔
پھر جب ایک ہی لکیر پیٹتے پیٹتے زندگی اجیرن ہو گئی تو نہایت بھونڈے اختراع ہونے گلے جن پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ ”خشکہ یا گندہ بروزہ اگرچہ گندہ لیکن ایجاد بندہ۔“
بری شاعری سے سوسائٹی کو کیا کیا نقصان پہنچتے ہیں؟
اگرچہ شاعری کو ابتداً سوسائٹی کا مذاق فاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت سخت نقصان پہنچاتی ہے۔
جب جھوٹی شاعری کا رواج تمام قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغہ سے سب کے کان مانوس ہو جاتے ہی جس شاعر کے شعروں میں زیادہ جھوٹ یا نہایت مبالغہ ہوتا ہے۔ اس کی شاعری کو زیادہ داد ملتی ہے وہ مبالغہ میں مزید غلو کرتا ہے تاکہ اور زیادہ داد ملے۔ ادھر اس کی طبیعت راستی سے دور ہو جاتی ہے اور ادھر جھوٹی اور بے سروپا باتیں وزن اور قافیہ کے دلکش پیرایہ میں سنتے سنتے سوسائٹی کے مذاق میں زہر گھلتا جاتا ہے۔
حقائق و واقعات سے روز بروز مناسبت کم ہوتی جاتی ہے۔ عجیب و غریب باتوں ، سوپر نیچرل کہانیوں اور محال خیالات سے دلوں کو انشراح ہونے لگتا ہے۔ تاریخ کے سیدھے سادے وقائع سننے سے جی گھبرانے لگتا ہیں۔ جھوٹے قصے اور افسانے حقائق واقعیہ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔ تاریخ ، جغرافیہ ، ریاضی اور سائنس سے طبعیتیں بیگانہ ہو جاتی ہیں اور چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق ذمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑتے جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے ساتھ ہزل و منحریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جتا ہے۔
بری شاعری سے لٹریچر اور زبان کو کیا صدمہ پہنچتا ہے؟
سب سے بڑا نقصان جو شاعری کے بگڑ جانے یا اس کے محدود ہو جانے سے ملک کو پہنچتا ہے۔ وہ اس کے لٹریچر اور زبان کی تباہی و بربادی ہے۔ جب جھوٹ اور مبالغہ عام شعراء کا شعار ہو جاتا ہے تو اس کا اثر مصنفوں کی تحریر اور فصحاء کی تقریر اور خواص ، اہل ملک کے روزمرہ اور بول چال تک پہنچتا ہے کیونکہ ہر زبان کا نمایاں اور برگزیدہ حصہ وہی الفاظ و محاورات اور ترکیبیں سمجھی جاتی ہیں جو شعراء کے استعمال میں آ جاتے ہیں۔
پس جو شخص ملکی زبان کی تحریر یا تقریر یا روزمرہ میں امتیاز حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو بالضرور شعراء کی زبان کا ابتاع کرنا پڑتا ہے اور اس طرح مبالغہ لٹریچر اور زبان کی رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ شعراء کی ہزل گوئی سے زبان میں کثرت سے نامہذب اور فحش الفاظ داخل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ لغات میں وہی الفاظ مستند اور ٹکسالی سمجھے جاتے ہیں۔
جن کی توثیق و تصدیق شعراء کے کلام سے کی گئی ہو پس جو شخص ملکی زبان کی ڈکشنری لکھنے بیٹھا ہے اس کو سب سے پہلے شعراء کے دیوان ٹٹولنے پڑتے ہیں پھر جب شاعری چند مضامین میں محدود ہو جاتی ہے اور اس کا مدار محض قوم کی تقلید پر آ رہتا ہے تو زبان بجائے اس کے کہ اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہو اپنی قدیم وسعت بھی کھو بیٹھی ہے۔ زبان کا وہ اقل قلیل حصہ جس کے ذریعہ سے شاعر اپنے چند معمولی مضامین ادا کرتا ہے زیادہ تر وہی مانوس اور فصیح گنا جاتا ہے اور باقی الفاظ و محاورات غریب اور وحشی خیال کئے جاتے ہیں۔
پس سوا اس کے کہ کچھ ان میں سے اہل زبان کی بول چال میں کام آئیں یا لغت کی کتابوں میں بند پڑے رہیں اور کچھ ایک مدت کے بعد متروک الاستعمال ہو جائیں اور کسی مصرف میں نہیں آتے۔ مصنفوں کو تحریر میں اور نہ فصحا کو تقریر میں ان سے کچھ مدد پہنچتی ہے۔ قدما کی تقلید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن لفظوں میں بضرورت شعر انہوں نے تصرف کیا ہے ان کے سوا کسی لفظ میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا جو محاورے جس پہلو پر وہ برت گئے ہیں وہ دوسرے پہلو پر ہرگز نہیں برتے جا سکتے۔
جو تشبیہیں ان کے کلام میں پائی گئی ہیں ان سے سر مو تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض کسی ملک کی شاعری کو اس کے لٹریچر کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قلب کو جسد کے ساتھ۔
شاعری کی اصلاح
جب فن شعر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی اصلاح قریب ناممکن کے ہو جاتی ہے اوّل تو شعراء کو قدیم الف و عادت کے سبب اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ جس راہ پر وہ جا رہے ہیں۔
اس کے سوا کوئی اور بھی رستہ ہے اور اگر بالفرض کسی نے قوم کا شارع عام چھوڑ کر دوسری راہ اختیار بھی کی تو اس کو دو نہایت سخت مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اوّل تو طریق غیر مسلوک میں قدم رکھنا اور اس کے تمام مرحلوں سے عبور کرکے منزل مقصود تک پہنچنا ہی نہایت کٹھن اور دشوار کام ہے۔ دوسری مشکل سے بھی زیادہ سخت یہ ہے کہ موجودہ سوسائٹی کا مذاق چونکہ اس نئی روش سے بالکل بیگانہ ہوتا ہے اس لئے نہ کوئی اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہے اور نہ کہیں اس کی محنت کی داد مل سکتی ہے پس کوئی شخص جب تک کہ زمانہ کی قدر دانی سے بالکل دست بردار ہو کر اس دہقان کی مانند جو اخیر عمر میں کھرنی کی پود اپنی زمین میں لگائے ۔
محض ایک امید موموم پر آئندہ نسلوں کی ضیافت طبع کا منصوبہ نہ باندھے اس کوچہ میں ہرگز قدم نہیں رکھ سکتا۔
اگرچہ یہ ممکن ہے کہ نئی روش پر چلنے والا شاعر کوئی مضمون زمانہ کی ضرورت اور مقتضائے حال کے موافق شعر کے لباس میں جلوہ گر کرکے ملک کے جدت پسند لوگوں میں کچھ شہرت یا قبولیت حاصل کر لے اور ایک خاص حیثیت سے اس کے کلام کی داد توقع سے زیادہ اس کو مل جائے۔
مگر شاعری کی حیثیت سے نہ فی الواقع وہ اس کے کلام کی داد ہوتی ہے اور نہ وہ اس کو داد سمجھتا ہے بلکہ ایسی داد سن کر چپکے ہی چپکے اپنے دل میں یہ شعر پڑھتا ہے:
بخوں آلودہ دست و تیغ غازی ماندہ بی تحسین
تو اول زیب اسپ و زینت برگستواں بینی
شعرائے ہم عصر کچھ تو قدیم شاعری کے تعصب سے اور زیادہ تر اجنبیت اور بیگانگی مذاق کے سبب اس کی روش کو اس محبت سے کہ وہ شارع عام سے الگ ہے تسلیم نہیں کرتے اور بعضے اپنے نزدیک اس کی ہجو ملیح اس طرح فرماتے ہیں کہ فلاں شخص نے شاعری نہیں بلکہ مفید اور اخلاقی مضامین لکھ کر اپنے لئے زاد آخرت جمع کیا ہے لیکن اگر وہ الواقع موجود نسل کی قدر شناسی سے قطع نظر کر چکا ہے تو اس کو ایسی باتوں کی کچھ پروا نہ کرنی چاہئے بلکہ یہ امید رکھنی چاہئے کہ اگر قوم کی زمین میں آل باقی ہے تو تخم اکارت نہ جائے گا۔
گولڈ سمتھ کی شاعری
گولڈ سمتھ نے جب اول ہی اول اپنے ملک کے قدیم شاعروں کا مسلک جس کی بنیاد جھوٹ اور مبالغہ اور ہوا و ہوس کے مضامین پر تھی ۔ چھوڑ کر سچی نیچرل شاعری اختیار کی تو اس کو یہی مشکلات پیش آئی تھیں۔ چنانچہ اس نے اس حالت کو ایک نظر میں بیان کیا ہے۔ اس میں اپنی نئی روش کی نظم کو خطاب کرکے کہا ہے۔ ”اے میری پیاری نظم تو ان موقعوں سے پہلی بھاگنے والی نظم ہے۔
جہاں نفسانی خواہشوں کی طغیانی ہوتی ہے تو اس بے قدری کے زمانے میں بجائے اس کے کہ دلوں کو اپنی طرف مائل پاکر شہرت حاصل کر لے ہر جگہ ملامت کی جاتی ہے۔ تیری بدولت عام جلسوں میں مجھ کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ لیکن جب تنہا ہوتا ہوں تو تجھ پر فخر کرتا ہوں تو کمال کے طالبوں کی رہنما ہے اور نیکی کی دایہ پس خدا ہی تیرا نگہبان ہوگا۔ دنیا کی کسی حصہ میں خواہ ٹورنو 6کی چوٹیاں ہوں یا پیمبارکا 7کی تلیٹی اور خواہ وہ خط استوار کا نہایت گرم خطہ ہو یا قطب کا منجمد کرنے والا جاڑا۔
جہاں کہیں تجھ پر نکتہ چینی ہو تو وقت کا مقابلہ کیجئو اور باد مخالف کے جھگڑوں پر غالب آئیو اور اپنے درد ناک نالوں سے سچ کی مدد کیجئو۔ جس کو لوگ حقیر جانتے ہیں ۔ تو گمراہوں کو دولت کی حقارت کرنی سکھا اور ان کو اس بات کا یقین دلا کہ جو لوگ اپنے قدرتی ذریعوں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اگرچہ وہ مفلس ہوں لیکن خوشحال ہو سکتے ہیں مگر جو ترقی تجارت سے ملک میں ہوتی ہے وہ بظاہر ایک زمانے تک دھوم دھام دکھلاتی ہے مگر بہت جلد آوے کی طرح بیٹھ جاتی ہے جیسے کہ سمندر کی موجیں آخر اس بند کو برباد کر دیتی ہیں جو کمال محنت و مشقت سے باندھا گیا ہو جو ملک اپنے قدرتی ذریعوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ زمانے کی سختیوں اور بربادیوں کا اس طرح مقابلہ کرتے ہیں جیسے چٹانیں سمندر کی موجوں اور طغیانیوں کا مقابلہ کرتی ہیں اور جہاں تھیں وہیں بدستور جمی رہتی ہیں۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali