Episode 8 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 8 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

شاعری کیلئے کیا کیا شرطیں ضروری ہیں:
امید ہے کہ ان مثالوں سے شاعر اور غیر شاعر کے کلام میں اور نیز شعر اور مصوری میں جو فرق ہے وہ بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا اب ہم کو یہ بتانا ہے کہ شاعری میں کمال حاصل کرنے کیلئے کونسی شرطیں ضروری ہیں اور شاعر میں وہ کونسی خاصیت ہے جو اس کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے۔
تخیل:
سب سے مقدم اور ضروری چیز جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے۔
قوت متخیلہ یا تخیل ہے جس کو انگریزی میں امیجینیشن (IMAGINATION) کہتے ہیں یہ لذت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجہ کی ہو گئی  اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجہ کی ہو گی اور جس قدر یہ ادنیٰ درجہ کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ درجہ کی ہو گی۔ یہ وہ ملکہ ہے جس کو شاعر ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے اور جو اکتساب سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے)

اگر شاعر کی ذات میں یہ فن موجود ہے اور باقی شرطوں میں جو کمال شاعری کیلئے ضروری ہیں کچھ کمی ہے تو وہ اس کمی کا ادراک اس ملکہ سے کر سکتا ہے لیکن اگر یہ ملکہ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو خواہ اور ضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اس کے قبضہ میں ہو وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔

یہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی و مستقبل کو اس کیلئے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ (شاعر)آدم اور جنت کی سرگزشت اور حشر و نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا ایک واقعی بیان سے ہونا چاہئے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری ، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے جو نتیجے وہ نکالتا ہے گو وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں مثلاً فیضی کہتا ہے:
سخت ست سیاہی شب من
لختے زشب ست کو کب من
اس پر منطقی قاعدہ سے یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ رات کی تاریکی سب کیلئے یکساں ہوتی ہے پھر ایک خاص شخص کی رات سب سے زیادہ تاریک کیونکر ہو سکتی ہے اور تمام کواکب ایسے اجرام ہیں جن کا وجود بغیر روشنی کے تصور میں نہیں آ سکتا۔
پھر ایک خاص کوکب ایسا مظلم اور سیاہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس کو کالی رات کا ایک ٹکڑا کہا جا سکے مگر جس عالم میں شاعر اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے وہاں یہ سب ناممکن باتیں ممکن بلکہ موجود نظر آتی ہیں یہی وہ ملکہ ہے جس سے بعض اوقات شاعر کا ایک لفظ جادو کی فوج سامنے کھڑی کر دیتا ہے اور کبھی وہ ایسے خیال کو جو کئی جلدوں میں بیان ہو سکے ایک لفظ میں ادا کر دیتا ہے۔
تخیل کی تعریف
تخیل یا امیجینیشن کی تعریف کرنی بھی ایسی ہی مشکل ہے جیسی کہ شعر کی تعریف۔ مگر من وجہ اس کی ماہیت کا خیال ان لفظوں سے دل میں پیدا ہو سکتا ہے یعنی وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دلکش پیرایہ میں ، جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرایوں بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے اس تقریر سے ظاہر ہے کہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح خیالات میں ہوتا ہے اسی طرح الفاظ میں بھی ہوتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات شاعر کا طریقہ بیان ایسا نرالا اور عجیب ہوتا ہے کہ غیر شاعر کا ذہن کبھی وہاں تک نہیں پہنچتا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی ایک چیز ہے جو کبھی تصورات اور خیالات میں تصرف کرتی ہے اور کبھی الفاظ و عبارات میں۔
اگرچہ اس قوت کا ہر ایک شاعر کی ذات میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے ، لیکن ہمارے نزدیک اس کا عمل شاعر کے ہر ایک کلام میں یکساں نہیں ہوتا بلکہ کہیں زیادہ ہوتا ہے کہیں کم ہوتا ہے اور کہیں محض خیالات میں ہوتا ہے کہیں محض الفاظ میں۔ یہاں چند مثالیں بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔
(۱) غالب# دہلوی #
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے
شاعر کے ذہن میں پہلے سے اپنی اپنی جگہ یہ باتیں ترتیب وار موجود تھیں کہ مٹی کا کوزہ ایک نہایت کم قیمت اور ارزاں چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتی ہے اور جام جمشید ایک ایسی چیز تھی جس کا بدل دنیا میں موجود نہ تھا۔
اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام عالم کے نزدیک جام سفال میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جام جم جیسی چیز سے فائق اور افضل سمجھا جائے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ جام جم میں شراب پی جاتی تھی اور مٹی کے کوزہ میں بھی شراب پی جا سکتی ہے اب قوت متخیلہ نے اس تمام معلومات کو ایک نئے ڈھنگ سے ترتیب دے کر ایسی صورت میں جلوہ گر کر دیا کہ جام سفال کے آگے جام جم کی کچھ حقیقت نہ رہی اور پھر اس صورت موجودہ فی الذہن کو بیان کا ایک دلفریب پیرا یہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر متلزز اور کان اس کو سن کر محفوظ اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہو سکے اس مثال میں وہ قوت جس نے شاعر کی معلومات سابقہ کو دوبارہ ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے وہ تخیل یا امیجینیشن ہے اور اس نئی صورت میں موجودہ فی الذہن جب الفاظ کا لباس پہن کر عالم محسوسات میں قدم رکھا ہے اس کا نام شعر ہے۔
نیز اس مثال میں امیجینیشن کا عمل خیالات اور الفاظ دونوں کے لحاظ سے بہ مرتبہ غایت اعلیٰ درجہ میں واقع ہوا ہے کہ باوجود کمال سادگی اور بے ساختگی کے نہایت بلند اور نہایت تعجب انگیز ہے۔
(۲) غالب# کا اسی زمین پر دوسرا شعر یہ ہے:
ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے رونق منہ پر
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
شاعر کو پہلے سے یہ بات معلوم تھی کہ دوست کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے اور بگڑی ہوئی طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔
نیز یہ بھی معلوم تھا کہ دوست کو جب تک عاشق اپنی حالت زار اور اس کی جدائی کا صدمہ نہ جتائے دوست عاشق کی محبت اور عشق کا پورا پورا یقین نہیں کر سکتا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ بعضی خوشی سے دفعةً ایسی بشاشت ہو سکتی ہے کہ رنج اور غم اور تکلیف کا مطلق اثر چہرے پر باقی نہ رہے۔ اب امیجینیشن نے ان تمام معلومات میں اپنا تصرف کرکے ایک نئی ترتیب پیدا کر دی یعنی یہ کہ عاشق کسی طرح اپنی جدائی کے زمانے کی تکلیفیں معشوق پر ظاہر نہیں کر سکتا۔
کیونکہ جب تکلیف کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت معشوق نہیں ہوتا اور جب معشوق ہوتا ہے اس وقت تکلیف نہیں رہتی۔ اس مثال میں بھی امیجینیشن کا عمل معناً اور لفظاً دونوں طرح بدرجہ غایت لطیف اور حیرت انگیز واقع ہوا ہے جیسا ہر صاحب ذوق پر ظاہر ہے۔
(۳) خواجہ حافظ# کہتے ہیں:
صبابہ لطف بگو آں غزال رعنا را
کہ سر بکوہ بیاباں تو دادہٴ ما را
اس شعر کا خلاصہ مطلب اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ہم صرف معشوق کی بدولت پہاڑوں اور جنگلوں میں مارے مارے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس میں امیجینیشن کا عمل خیالات میں اگر ہو بھی تو نہایت خفیف اور مختصر ہو گا مگر الفاظ میں اس نے وہ کرشمہ دکھایا ہے جس نے شعر کو بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا ہے اسی قسم کے کلام کی نسبت کہا گیا ہے ”عبارتے کہ بہ معنی برابری دارد۔“ اول تو صبا کی طرف خطاب کرنا جس میں یہ اشارہ ہے کہ کوئی ذریعہ دوست تک پیغام پہنچانے کا نظر نہیں آتا۔
ناچار صبا کو یہ سمجھ کر پیغامبر بنایا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے شاید دوست تک بھی اس کا گزر ہو جائے گویا شوق نے ایسا از خود رفتہ کر دیا ہے کہ جو چیز پیغامبر ہونے کی قابلیت نہیں رکھتی اس کے ہاتھ پیغام بھیجتا ہے اور جواب کا امیدوار ہے پھر معشوق حقیقی کو جس کی ذات بے نشان ہے بطور استعارہ کے غزال رعنا کے ساتھ تعبیر کرنا جس سے بہتراستعارہ نہیں ہو سکتا اور پھر اس کی طلب کو غزل رعنا کی مناسبت سے کوہ بیابان میں پھرنے سے تعبیر کرنا اور پھر باوجود ضمیر متصل کے جو کہ دادہ میں موجود تھی ضمیر مخاطب منفصل یعنی لفظ ”تو“ اضافہ کرنا جس سے پایا جائے کہ تیرے سوا کوئی شے ہماری اس سرگشتگی کا باعث نہیں ہے اور چونکہ پیغام شکایت آمیز تھا اس لئے صبا سے درخواست کرنی کہ یہ لطف بگو یعنی نرمی اور ادب سے یہ پیغام دینا تاکہ شکایت ناگوار نہ گزرے۔
یہ تمام باتیں ایسی ہیں جنہوں نے ایک معمولی بات کو اس قدر بلند کر دیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے باریک خیالات بھی اس سے زیادہ بلندی پر نہیں دکھائے جا سکتے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali