Episode 11 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 11 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اعلیٰ طبقہ کے شعراء کا کلام یاد ہونا چاہئے۔
ابن رشیق کہتے ہیں کہ شاعر کو اعلیٰ طبقہ کے شعراء کا کلام یاد ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے شعر کی بنیاد اسی منوال پر رکھے۔ جو شخص اساتذہ کے کلام سے خالی الذہن ہوگا۔ اگر وہ محض طبیعت کی ایچ سے کچھ لکھ بھی لے گا تو اس کو شعر نہیں بلکہ نظم ساقط از اعتبار یا ٹکسال باہر کہیں گے۔ پس جب اس کا حافظہ بلغاء کے کلام سے پر ہو جائے اور ان کی روش ذہن کی روح پر نقش ہو جائے تب فکر شعر کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔
اب جس قدر مشق زیادہ ہو گی اسی قدر ملکہ شاعری مستحکم ہوگا۔
ابن رشیق نے یہ ہدایت خاص عربی زبان کی نسبت کی ہے۔ شاید عربی زبان کیلئے یہ ہدایت مناسب ہو کیونکہ وہاں ایک مدت دراز سے شاعری کا دور دورہ چلا آتا تھا۔ ہزار برس سے زیادہ گزر چکے تھے کہ ہر عہد اور ہر طبقہ میں ایک سے ایک بہتر و برتر شاعر نظر آتا تھا۔

(جاری ہے)

زبان میں بے انتہا وسعت پیدا ہو گئی تھی ہر مطلب کے ادا کرنے کیلئے صدہا اسلوب اور پیرائے لٹریچر میں موجود تھے۔

شاید وہاں یہ بات ممکن ہو کہ ہر مطلب کے ادا کرنے کیلئے قدماء کا اسلوب اختیار کیا جائے اور نئے اسلوب پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہو لیکن ایک ایسی نامکمل زبان جیسی کہ اردو ہے جس کی شاعری ابھی تک محض طفولیت کی حالت میں ہے جس کے لٹریچر کی عمر اگر انصاف سے دیکھا جائے تو پچاس ساٹھ برس سے زیادہ نہیں جس کا لغت آج تک مدون نہیں ہوا۔ جس کی گرامر آج تک اطمینان کے قابل نہیں بنی۔
جس کے لائق مصنف اور شاعر انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ایسی زبان میں اگر اساتذہ کے تتبع پر ہی تکیہ کر لیا جائے تو جس طرح ابابیل کا گھونسلا ابتدائے آفرنیش سے ایک ہی حالت پر چلا آتا ہے اور اسی حالت پر چلا جائے گا۔ اسی طرح اردو شاعری جس گہوارہ میں اس نے آنکھیں کھولی ہیں ، اسی گہوارے میں ہمیشہ جھولتی رہے گی۔
اس کے بعد ابن رشیق کہتے ہیں کہ ”بعضوں کی رائے یہ ہے کہ ایک بار اساتذہ کے کلام پر تفصیلی نظر ڈال کر اس کو صفحہ خاطر سے محو کر دینا چاہئے کیونکہ اس کا بعینہ ذہن میں محفوظ رہنا ویسی ترکیبوں اور اسلوبوں کے استعمال کرنے سے ہمیشہ مانع ہوگا لیکن جب وہ کلام صفحہ خاطر سے محو ہو جائے گا تو بسبب اس رنگ کے جو کلام بلغاء کی سیر کرنے سے طبیعت پر خود بخود چڑھ گیا ہے۔
اس میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ ویسی ہی ترکیبیں اور اسلوب جیسے کہ اساتذہ کے کلام میں واقع ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خود بخود بغیر اس تصور کے کہ یہ ترکیب فلاں ترکیب پر منبی ہے اور یہ اسلوب فلاں اسلوب کا چرچہ ہے جیسی ضرورت پڑے گی بتاتا چلا جائے گا۔
ہمارے نزدیک یہ رائے بہ نسبت پہلی رائے کے زیادہ وقعت کے قابل ہے۔ اس میں اس فائدہ کے سوا جو صاحب رائے نے بیان کیا ہے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اساتذہ کا کلام جب تک صفحہ خاطر سے محو نہ ہو جائے طبیعت انہیں اسلوبوں اور پیراؤں میں مقید اور محصور رہتی ہے جو ان کے کلام کو بار بار پڑھنے اور یاد کرنے سے بہ منزلہ طبیعت ثانی کے ہو جاتے ہیں اور جن کے سبب سے سلسلہ بیان میں نئے اسلوب اور نئے پیرائے ابداع کرنے کا ملکہ پیدا نہیں ہوتا اور اس لئے فنِ شعر کو کچھ ترقی نہیں ہوتی۔
تخیل کو قوت ممیزہ کا محکوم رکھنا چاہئے۔
الغرض شاعر کی ذات میں جیسا اوپر بیان ہوا تین وصف مستحق ہونے ضروری ہیں ، ایک وہی یعنی تخیل یا امیجینیشن اور دوسری یعنی صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت اور الفاظ پر قدرت۔ اب تخیل کی نسبت اتنا جان لینا اور ضروری کہ اس کو جہاں تک ممکن ہو اعتدال پر رکھنا اور طبیعت پر غالب نہ ہونے دینا چاہئے۔
کیونکہ جب اس کا غلبہ طبیعت پر زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ قوت ممیزہ کے قابو سے جو کہ اس کی روک ٹوک کرنے والی ہے باہر ہو جاتا ہے تو اس کی حالت شاعر کے حق میں نہایت خطرناک ہے۔ قوت متخیلہ ہمیشہ خلاقی اور بلند پروازی کی طرف مائل رہتی ہے مگر قوت ممیزہ اس کی پرواز کو محدود کرتی ہے اس کی خلاقی کی مزاحم ہوتی ہے اور اس کو ایک قدم بے قاعدہ نہیں چلنے دیتی۔
قوت متخیلہ کیسی ہی دلیر اور بلند پرواز ہو جب تک کہ وہ قوت ممیزہ کی محکوم ہے۔ شاعری کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ جس قدر اس کی پرواز بلند ہو گی اسی قدر شاعری اعلیٰ درجہ کو پہنچے گی۔
دنیا میں جتنے بڑے بڑے شاعر ہوئے ہیں ان میں قوت متخیلہ کی بلند پروازی اور قوت ممیزہ کی حکومت دونوں ساتھ ساتھ پائی جاتی ہیں ان کا تخیل نہ خیالات میں بے اعتدالی کرنے پاتا ہے نہ الفاظ میں کجروی۔
مگر دوسری صورت میں جب کہ تخیل قوت ممیزہ پر غالب آ جائے۔ شاعر کیلئے اس کی پرواز ایسی ہی خطرناک ہے جیسے سوار کیلئے نہایت چالاک گھوڑا جس کے منہ میں لگام نہ ہو۔ ہزاروں ہونہار شاعروں کو اس قوت کی آزادی اور مطلق العنانی نے گمراہ کر دیا ہے اور بعضے جو گمراہ ہو کر پھر راہ راست پر آئے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آتے جب تک کہ قوت ممیزہ کو اس پر حاکم نہیں بنایا۔
قوت متخیلہ کی دلیری اور بلند پروازی زیادہ تر اس وقت بڑھتی ہے جبکہ شاعر کے ذہن میں اس کی اپنی غذا یعنی حقائق و واقعات کا ذخیرہ جس میں وہ تصرف کر سکتے ہیں نہیں ملتا۔ جس طرح انسان بھوک کی شدت میں جب معمولی غذا نہیں پاتا تو مجبوراً بناسپتی سے اپنا دوزخ بھر کر صحت کو خراب کر لیتا ہے اور اکثر ہلاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب قوت متخیلہ کو اس کی معتاد غذا نہیں ملتی تو وہ غیر معتاد غذا پر ہاتھ ڈالتی ہے۔
خیالات دوراز کار جن میں اصلیت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ تراش کربہ تکلف ان کو شعر کا لباس پہناتی ہے اور قوت ممیزہ کو اپنے کام میں خلل انداز سمجھ کر اس کی اطاعت سے باہر ہو جاتی ہے اور آخر کار شاعر کو مہمل گو اور کوہ کندن و کاہ برآور دن کا مصداق بنا دیتی ہے۔
شاعر کیلئے نیچر کا خزانہ ہر وقت کھلا ہوا ہے اور قوت متخیلہ کیلئے اسی کی اصل غذا کی کچھ کمی نہیں ہے پس بجائے اس کے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کاغذ کی پھول پنکھڑیاں بنائے اس کو چاہئے کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں خود اپنی ذات میں قدرت حق کا تماشا دیکھے جہاں بھانت بھانت کے اصلی پھول پنکھڑیوں کے لازوال خزانے موجود ہیں ورنہ اس کی نسبت کہا جائے گا:
جانتا قدرت کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا
شعر میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔
یہاں تک ان خاصیتوں کا بیان ہوا جن کے بغیر شاعر کمال کے درجہ پر نہیں پہنچتا۔ اب وہ خصوصیتیں بیان کرنی ہیں جو دنیا کے تمام مقبول شاعروں کے کلام میں عموماً پائی جاتی ہیں۔ ملٹن نے ان کو چند مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو۔ جوش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو“ ایک یورپین محقق ان لفظوں کی شرح اس طرح کرتا ہے۔
سادگی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہئیں جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کے شارع عام پر چلنا بے تکلفی کے سیدھے رستے سے ادھر ادھر نہ ہونا اور فکر کو جولانیوں سے باز رکھنا اسی کا نام سادگی ہے علم کا رستہ اس کے طالب علموں کیلئے ایسا صاف نہیں ہو سکتا جیسا کہ شعر کا رستہ اس کے سامعین کیلئے صاف ہونا چاہئے۔
طالب علم کو پستی اور بلندی غار اور ٹیلے کنکر اور پتھر موجیں اور گرداب طے کرکے منزل پر پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن شعر پڑھنے یا سننے والے کو ایسی ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہئے جس پر وہ آرام سے چلا جائے۔ ندی ، نالے اس کے ادھر ادھر چل رہے ہوں اور پھل پھول درخت اور مکان اس کی منزل ہلکی کرنے کیلئے ہر جگہ موجود ہوں دنیا میں جو شاعر مقبول ہوئے ہیں ان کا کلام ہمیشہ ایسا ہی دیکھا گیا ہے اور ایسا ہی سنا گیا ہے اس کی ہر ذہن سے مصالحت اور ہر دل میں گنجائش ہوتی ہے۔
ہومر نے اپنے کلام میں ہر جگہ نیچر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس کو جوان ، بوڑھے اور وہ قومیں جو ایک دوسرے سے قطبوں کے فاصلے پر رہتی ہیں برابر سمجھ سکتی اور یکساں مزا لے سکتی ہیں۔ عالم محسوسات کے چپے چپے پر جہاں جہاں کہ اس کا کلام پہنچا ہے اس کی روشنی سورج کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ وہ آباد اور ویرانہ کو برابر روشن کرتا ہے اور فاضل اور جاہل پر یکساں اثر ڈالتا ہے۔
شیکسپیئر کا بھی ایسا ہی حال ہے جیسا ہومر# کا یہ دونوں برخلاف عام شاعروں کے مستثنیات کو نہیں لیتے بلکہ ہمیشہ عام شق اختیار کرتے ہیں یہ خاص خاص صورتیں اور نادرا اتفاقات9دکھا کر لوگوں کو اپنی خاص لیاقت پر فریفتہ کرنا چاہتے ہیں۔“
دوسری بات جو ملٹن نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ شعر اصلیت پر مبنی ہو۔ اس سے یہ غرض ہے کہ خیال کی بنیاد ایسی چیز پر ہونی چاہئے جو درحقیقت کچھ وجود رکھتی ہو نہ یہ کہ سارا مضمون ایک خواب کا تماشا ہو کہ ابھی تو سب کچھ تھا اور آنکھ کھلی تو کچھ نہ تھا یہ بات جیسی مضمون میں ہونی ضروری ہے۔
ایسی ہی الفاظ میں بھی ہونی چاہئے۔ مثلاً ایسی تشبیہات استعمال نہ کی جائیں جن کا وجود عالم بالا پر ہو۔“
تیسری بات یہ تھی کہ ”شعر جوش سے بھرا ہوا ہو۔“ اس سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ شاعر نے جوش کی حالت میں شعر کہا ہو یا شعر کے بیان سے اس کا جوش ظاہر ہوتا ہو بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو لوگ مخاطب ہیں ان کے دل میں بھی جوش پیدا کرنے والا ہو اور اس غرض کیلئے ضروری ہے کہ ان کے دل ٹٹولے جائیں اور ان کے دلوں کو جذب کرنے کیلئے ایک مقناطیسی کشش بیان میں رکھی جائے۔
جس مقناطیسی کشش کا ذکر اس محقق نے ملٹن کے الفاظ کی شرح میں کیا ہے لارڈ مکالے کہتے ہیں کہ وہ خود ملٹن ہی کے بیان میں پائی جاتی ہے  وہ لکھتے ہیں ”یہ جو مشہور ہے کہ شعر میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ عموماً یہ فقرہ کچھ معنی نہیں رکھتا مگر جب ملٹن کے کلام پر لگایا جاتا ہے تو بہت ہی ٹھیک بیٹھتا ہے۔ اس کا شعر افسوں کی طرح اثر کرتا ہے حالانکہ بادی النظر میں اس کے الفاظ میں اوروں کے الفاظ سے کچھ زیادہ نظر نہیں آتا۔
مگر وہ منتر کے الفاظ ہیں کہ جونہی تلفظ میں آئے فوراً ماضی حال اور دور نزدیک ہو گیا۔ معاً حسن کی نئی نئی شکلیں موجود ہو گئیں اور معاً حافظہ کے قبرستان نے اپنے سارے مردے اٹھا بٹھائے۔ لیکن جہاں فقرہ کی ترتیب بدلی یا کسی لفظ کی جگہ اس کا مراد رکھ دیا۔ اسی وقت سارا اثر کافور ہو گیا اور جو شخص اس کے کلام میں ایسی تبدیلی کے بعد وہی طلسم کھڑا کرنا چاہے وہ اپنے تئیں ایسی ہی غلطی میں پائے گا جیسا الف لیلیٰ 10میں قاسم نے اپنے تئیں پایا تھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑا ہوا پکار پکار کر کہہ رہا تھا ”کھل گیسوں“ اور کھل جو“ مگر دروازہ ہرگز نہ کھلتا تھا جب تک یہ نہ کہا جائے ”کھل جا سم سم۔
ملٹن کی تینوں شرحوں کی شرح اگرچہ کسی قدر اوپر بیان ہو چکی ہے لیکن ہمارے نزدیک ابھی اس میں کس قدر اور تشریح کی ضرورت ہے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali