Episode 12 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 12 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

سادگی سے کیا مراد ہے:
سادگی ایک اضافی امر ہے وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے اور جس کے معنی اس کے ذہن میں بہ مجرد سنتے کے متباور جاتے ہیں جو خوبی اس میں شاعر نے رکھی ہے اس کو فوراً ادراک کر لیتا ہے ایک عام آدمی اس کو سمجھنے اور ان کی خوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عامیانہ شعر جس کو سن کر ایک پست خیال جاہل اچھل پڑتا ہے اور وجد کرنے لگتا ہے ایک عالی دماغ حکیم اسی کو سن کر ناک چڑھا لیتا ہے اور اس کو محض ایک نحیف اور رکیک و سبک تک بندی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتا۔
ہمارے نزدیک ایسی سادگی پر جو سخاوت و رکاکت کے درجہ کو پہنچ جائے ، سادگی کا اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کلام کہا جائے گا لیکن ایسا کلام جو اعلیٰ و اوسط درجہ کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنیٰ درجے کے لوگ اس کی اصلی خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں۔

(جاری ہے)

ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہئے۔

یہ سچ ہے کہ جو عمدہ کلام ایسا صاف اور عام فہم ہو کہ اس کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ برابر سمجھ سکیں اور اس سے یکساں لذت اور حظ اٹھائیں وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو سادہ اور سمپل کہا جائے مگر کوئی ایسی نظم جس کا ہر شعر عام فہم و خاص پسند ہو خواہ اس کا لکھنے والا ہومر یا شیکسپیئر ہو نہ آج تک سرانجام ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے اگر ایسا ہوتا تو شیکسپیئر کے ورکس پر شرحیں لکھنے کی کیوں ضرورت ہوتی ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو محاورہ اور روزمرہ کی بول چال کے قریب قریب ہوں۔
جس قدر شعر کی ترکیب عمولی بول چال سے بعید ہو گی اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ محاورہ اور روزمرہ کی بول چال سے نہ تو عوام الناس اور سوقیوں کی بول چال مراد ہے اور نہ علماء و فضلا کی بلکہ وہ الفاظ و محاورات مراد ہیں جو خاص و عام دونوں کی بول چال میں عامتہ الورود ہیں لیکن اردو زبان میں سادگی کا ایسا التزام ہر قسم کے کلام میں نبھ نہیں سکتا ہے اگر کچھ نبھ سکتا ہے تو محض عشقیہ غزل یا عشقیہ مثنوی میں۔
جیسا کہ میر# و سودا# اور ان کے اکثر معاصرین اور بعض متاخرین نے خاص ان دو صنفوں میں کیا ہے۔ قصیدہ میں سودا# اور ذوق# جیسے مشاق شاعروں سے بھی ایسی سادگی نبھ نہیں سکی۔ میر انیس# باوجودیکہ زبان کی سشستگی اور صفائی پر نہایت دالدہ ہیں مگر طرز جدید کے مرثیہ میں ان کو بھی کثرت سے عربی و فارسی الفاظ استعمال کرنے اور ہمیشہ کیلئے اپنے روزمرہ میں داخل کرنے پڑتے ہیں خوصاً اس زمانہ میں کہ روز بروز لوگوں کی معلومات اور اطلاع بڑھتی جاتی ہے اور شاعری میں خیالات جدید اضافہ ہوتے جاتے ہیں جن کیلئے اردوئے معلیٰ میں الفاظ بہم نہیں پہنچتے۔
ممکن نہیں کہ اردو کے محدود روزمرہ میں ہر قسم کے خیالات ادا کئے جائیں۔
اصلیت سے کیا مراد ہے
اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شعر کا مضمون حقیقت نفس الامری پر مبنی ہونا چاہئے بلکہ یہ مراد ہے کہ جس بات پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ وہ نفس الامر میں لوگوں کے عقیدہ میں یا محض شاعر کے عندیہ میں فی الواقع موجود ہو یا ایسا معلوم ہوتا ہو کہ اس کے عندیہ میں فی الواقع موجود ہے نیز اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ بھی مقصود نہیں ہے کہ بیان میں اصلیت سے سرمو تجاوز نہ ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ زیادہ تر اصلیت ہونی ضروری ہے اس پر اگر شاعر نے اپنی طرف سے فی الجملہ کمی بیشی کر دی تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔
پہلی صورت کی مثال جس میں شعر کی بناء محض حقائق نفس الامریہ پر ہو ایسی ہے جیسے شیخ شیرازی بہار کی تعریف میں کہتے ہیں:
آدمی زاد اگر ور طرب آیدچہ عجب
سرو در باغ برقص آمدہ و بید و چنار
باش تاغنچہ سیراب دہن باز کند
بامداواں چوسر نافئہ آہوئے تتار
ژالہ برالا فرود آمدہ ہنگام سحر
راست چو عارض گل بوئے عرق کردہٴ یار
بادبوئے سمن آورد و گل و سنبل دبید
در دکان بچہ رونق بکشاید عطار
خیر و خطمی و نیلو فروبستاں افروز
نقشہائے کہ درو خیرہ بماند ابصار
ارغوان ریختہ بردرگہ خضرائے چمن
ہمچنانست کہ برتختہء دیبار دینار
ایں ہنوز اول آثار جہاں افروزیست
بش تاخیمہ زند دولت نیساں دایار
شاخہا دختر دوشیزہ باعند ہنوز
باش تا حاملہ گردند بہ الوان ثمار
دوسری صورت کی مثال جس میں شعر کی بنیاد سامعین کے عقیدہ پر رکھی جاتی ہے ایسی ہے جیسے مثلاً میر انیس# ماتم سید الشہدا میں لکھتے ہیں:
تھراتے ہیں لوح و قلم عرش معظم
کرسی پہ یہ صدمہ ہے کہ ہلجاتی ہے ہر دم
باندھے ہیں ملائک کی صفیں حلقہ ماتم
ڈر ہے نہ الٹ جائے کہیں دفتر عالم
ہاتھوں سے عطارد کے قلم چھوٹ پڑا ہے
ہر فرد پہ اک غم کا فلک ٹوٹ پڑا ہے
منہ ڈھانپے ہے رونے کیلئے چرخ پہ مہتاب
سر کھولے ہے خورشید فلک چشم ہے پر آب
تاروں پر بھی طاری ہے غم ایسا کہ نہیں تاب
سیاروں پہ ثابت ہے کہ راحت ہوئی نایاب
قتل پسر سید لولاک کا دن ہے
یہ خاتمہ پنجتن پاک کا دن ہے
تیسری صورت کی مثال جس میں شاعر محض اپنے عندیہ پر شعر کی بنیاد رکھتا ہے۔
جیسے شیخ شیرازی معشوق کی طرف خطاب کرکے کہتے ہیں:
عقل من پروانہ گشت و ہم ندید
چوں تو شمعے در ہزاراں انجمن
اسی صورت کی دوسری مثال شیراز کی فصل بہار کے بیان میں:
ریخ ریحانست یا بوئے بہشت
خاک شیراز زست یا مشک ختن
چوتھی صورت کی مثال جس میں سامعین کو یہ معلوم ہو کہ گویا شاعر کے عندیہ میں اسی طرح ہے جس طرح وہ بیان کرتا ہے ایسی ہے جیسے نظیری# اپنی بڑائی اور زمانہ کی ناقدر دانی کے بیان میں کہتا ہے:
تو نظیریٴ زفلک آمدہ بودی چو مسیح
بازپش رفتی و کس قدر تو شناخت دریغ
عرفی اپنی بڑائی اس طرح کرتا ہے:
سربر زدہ ام بامہٴ کنعاں زیکے جیب
معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم
ایسی خود ستائی اور فخر کو اصلیت پر مبنی ٹھہرانے سے شاید ناظرین کو بادی النظر میں استعجاب ہو گا۔
لیکن غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ گو ایسے مضامین مبالغہ سے خالی نہیں ہوتے مگر ان میں کم و بیش راستی کی جھلک ضرور ہوتی ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسے مضاین میں راستی مطلق نہیں ہوتی تو بھی اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض شعرا کے فخر و مباہات میں ایسا جوش ہوتا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ فی الواقع شعر لکھتے وقت اپنے تئیں ایسا ہی سمجھتے تھے اور صرف ان کا ایسا سمجھنا اس بات کیلئے کافی ہے کہ ان کے فخریہ اشعار کو اصلیت پر مبنی سمجھا جائے۔
کیونکہ اصلیت کے معنی جو کچھ کہ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ شاعر کے بیان کا کوئی منشاء یا محکی عنہ نفس الامر میں یا صرف شاعر کے ذہن میں موجود ہو پانچویں صورت کی مثال جس میں اصلیت پر شاعر نے کسی قدر اضافہ کر دیا ہو۔ جیسے شیخ شیرازی ترکان خاتون کرمانی کی مدح میں کہتے ہیں:
منشور دو نواحی و مشہور در جہاں
آوازہٴ تعبدد خوف و رجائے تو
شکرت مسافراں کہ بہ آفاق می برند
گربر فلک رسد نہ رسد بر عطائے تو
تیغ مبارزاں نہ کند در دیار خصم
چنداں اثر کہ ہمت کشور کشائے تو
نیز شیخ ابوبکر سعد کی تعریف میں کہتے ہیں:
بہ تیغ و طعن گر فتند جنگ جویاں ملک
تو برو بحر گرتی بہ عدل و ہمت و رائے
دو خصلت اند نگہبان ملک دویار دیں
بگوش جان تو پندارم این و گفت خدائے
یکے کہ گردن زور آوراں بقہر بزن
دوم کہ از در بیچارگان بلطف ورائے
بچشم عقل مرایں خلق بادشاہانند
کہ سایہ برسر ایشاں فکندہٴ چوہمائے
چونکہ شیخ کے ان دونوں ممدوحوں کا حال معلوم ہے کہ وہ اوصاف مذکورہ کے ساتھ کسی نہ کسی قدر متصف تھے۔
اس سے شیخ کے ان مدحیہ اشعار کو اصلیت پر مبنی سمجھا جائے گا لیکن اگر یہ اوصاف کسی ایسے ممدوح کے حق میں بیان کئے جائیں جو بالکل ان کے معراء ہو جیسا کہ ہمارے شعراء کے قصائد میں عموماً دیکھا جاتا ہے تو کہا جائے گا کہ شعرا اصلیت پر مبنی نہیں۔ ان پانچ صورتوں کے سوا اور کوئی صورت ایسی نہیں نکل سکتی جن میں شعر کو کھینچ تان کر کسی صرح اصلیت پر مبنی قرار دیا جائے اور ایسے کلام کی ہماری شاعری میں کچھ کمی نہیں ہے۔
نہ صرف متاثرین کے بلکہ متقدین کے کلام میں بھی ایسی مثالیں دفتر دفتر موجود ہیں یہاں صرف نمونے کے طور پر ایک دو مثالیں لکھی جاتی ہیں۔
(۱) نظیری نیشا پوری باوجودیکہ ایک نہایت معقول و سنجیدہ شاعر ہے۔ شاہزادہ مراد کی مدح میں کہتا ہے:
توئی کہ بودہ و نابودہٴ جہاں ازست
سخن درست بگفتیم ہرچہ بادہ باد
(۲) عرفی# حکیم ابو الفتح کے گھوڑے کی تعریف میں کہتا ہے:
آں سبک سیہ کہ چوں گرم عنانش سازی
از ازل سوئے ابدوزابد آید بہ ازل
قطرہ کش دم رفتن چکداز پیشانی
شبنم آسائش نشیند گہ رجعت بہ کف

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali