Episode 14 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 14 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اب ہم چند مثالیں ایسے اشعار کی لکھتے ہیں جن میں ملٹن کی تینوں شرطیں یا ان میں سے ایک یاد و شرط پائی جائے یا بالکل کوئی شرط نہ پائی جائے۔
(۱) ابن یحییٰ بن زیاد مکروہات دینوی کوخوشی سے قبول کرنے کے باب میں کہتے ہیں:
ولما رایت الشیب لاح بیاضہ
بمفرق راسی قلت لشیب مرحبا
ولو خفت انی ان کففت تحیتی
تنکب محنی دمت ان یتنکباً
ولکن اذا ماھل کرہ فسامحت
بہ النفس یوما کان لکرہ اذھبا
یعنی جب میں نے دیکھا کہ بڑھاپا میرے سر کے بالوں میں نمودار ہوا تو میں نے اس کو خیر مقدم کہا۔
اگر یہ امید ہوتی کہ وہ ایسا کرنے سے ٹل جائے گا تو میں اس کے ٹالنے کی کوشش کرتا۔ مگر بات یہ ہے کہ مصیبت کے دفع کرنے کی تدبیر اس سے بہتر نہیں کہ اس کوبہ کشادہ پیشانی قبول کیا جائے۔

(جاری ہے)

(۲) متمم بن نویرہ اپنے بھائی مالک کے مرثیہ میں لکھتے ہیں:
لقد لامنی عند القبور علی البکا
رفیقے لتذراف الدمرع السوافک
فقال اتبکی کل قبورا اتیہ
لقبر ثوی بین الوی والد کادک
فقلت لہ ان اشجایبعث الشجا
فد عنی فھدا کلہ قبر مالک
یعنی میں جو قبرستان کو دیکھ کر رونے لگا تو میرے رفیق نے میرے آنسو جاری دیکھ کر مجھ کو ملامت کی کہ جو قبر (یہاں سے بہت دور) مقام لوی اور دکا دک کے بیچ میں واقع ہے (یعنی قبر مالک) اس کیلئے تو ہر قبر کو دیکھ کر رو پڑتا ہے میں نے کہا (اے عزیز) مصیبت مصیبت کو یاد دلاتی ہے۔
پس مجھ کو رونے دے میرے نزدیک یہ سب مالک ہی کی قبریں ہیں۔
(۳) ناصر خسرو دنیا کی حقیقت بیان کرتا ہے#
ناصر خسرو برا ہے می گذشت
مست و لایعقل نہ چو میخوارگاں
دید گورے چند مبرز روبرو
بانگ برزد گفت کائے نظارگاں
نعمت دنیا و نعمت خوازہ ہیں
اینش نعمت اینش نعمت خوارگاں
(۴) نظامی مناجات میں کہتے ہیں:
پرد بر انداز و بروں آئے فرد
درمنم آں پردہ بہم در نورد
(۵) نظیری بیت اللہ سے رخصت ہوتے وقت کہتا ہے:
مطرب مستم زخلوت گاہ سلطاں آمدہ
سر خوش احسان شدہ باخود بہ الحاں آمدہ
(۶) خواجہ حافظ# اپنی خاص وجدانی حالت کو جس سے بے درد لوگ نامحرم ہیں اس طرح بیان کرتے ہیں:
شبے تاریک و بیم موج و ردا بے چین حائل
کجا و دانند حال ماسبکساران ساحل ہا
(۷) شیخ ابراہیم ذوق اس بات کو کہ مرنے کے بعد بھی اگر راحت نہ ملی تو دل کو تسلی دینے کی پھر کوئی صورت نہیں یوں بیان کرتے ہیں:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
(۸) مرزا غالب# انسان کے لاشئے اور ہیچ ہونے کو اس طرح ادا کرتے ہیں:
خوشی جینے کی کیا مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا
(۹) میر تقی فرط محبت و دل بستگی کی اس طرح تصویر کھینچتے ہیں:
جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آئے
اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آئے
(۱۰) خواجہ میر# درد اپنی شہرت اور مقبولیت کا محض بے اصل و بے بنیاد ہونا اس طرح ظاہر کرتے ہیں:
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
ان تمام مثالوں میں جیسا کہ ظاہر ہے بیان کی سادگی ، اصلیت اور جوش تینوں باتیں بوجہ احسن پائی جاتی ہیں۔
(۱۱) نظیریں اس حالت کو جب کہ اس نے سفر حج کا ارادہ کیا اور تعلقات دنیوی سے آزاد ہونے اور خدا کی طرف رجوع کرنے کا شوق اس کے دل میں موجزن ہے ، اس طرح بیان کرتا ہے:
سگ آستانم اما ہمہ شب قلادہ خایم
کہ سر شکار دارم نہ ہوائے پاسبانی
عجب از نبودہ باشد خضرے بہ جستجویم
کہ فتادہ ام بہ ظلمت چوز لال زندگانی
پہلے شعر میں اپنے تئیں بلحاظ اس کے کہ تعلقات میں پھنسا ہوا ہے سگ آستان قرار دیا ہے ، جو کہ رات بھر اپنے مالک مکان کی پاسبانی کرتا ہے مگر بلحاظ اس کے کہ تعلقات کو ترک کرکے رجوع الی اللہ کرنا چاہتا ہے ، اپنے کو شکار کتے سے تشبیہ دی ہے جو رات بھر شکار کے شوق میں اپنے گلے کے پٹے کو چباتا ہے کہ اس کو کاٹ کر شکار کی تلاش میں جنگل کی راہ لے۔
دوسرے شعر میں اس نے یہ مضمون ادا کیا ہے کہ انسان جس میں یہ قابلیت ہے کہ ترقی کرکے ملاء اعلیٰ تک پہنچ جائے اس کا دنیوی تعلقات میں آلودہ رہنا ایسا ہوتا ہے کہ گو آب حیات ظلمات میں چھپا ہوا ہے اور چونکہ جاذبہ لطف الٰہی ہر وقت انسان کی گھات میں ہے کہ اس کو اپنی طرف کھینچ کر تعلقات کے پھندے سے نجات دے اور نیز یہ بھی مشہور ہے کہ خضر# ، سکندر کو ساتھ لے کر آب حیات کی تلاش میں گئے تھے اس لئے جاذبہ الٰہی کو خضر سے اور آپ کو آب حیات سے تشبیہہ دے کر کہتا ہے کہ تعجب ہے کہ اگر خضر میری تلاش میں نہ ہو کیونکہ میں آب حیات کی طرح ظلمات میں پڑا ہوں۔
ان دونوں شعروں میں اصلیت اور غایت درجہ کا جوش دونوں باتیں کمال خوبی کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ ایسے بلیغ اشعار کی نسبت یہ کہتا ہے کہ ان میں کسی چیز کی کسر ہے اور نہ کسی خوبی میں کمی ہے لیکن جو معنی سادگی کے اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سادگی ایسی نہیں پائی جاتی کہ عام اہل زبان یا زبان دان اس کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔
۔
(۱۲) مومن اس مضمون کو کہ اہل دنیا کا ایک نہ ایک بلا میں مبتلا رہنا ضروری بات ہے اور اس لئے جب کبھی میں ایک بلا سے محفوظ ہوتا ہوں تو دوسری بلا کا منتظر رہتا ہوں۔ اس طرح بیان کرتے ہیں:
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
اس شعر میں اصلیت اور جوش دونوں باتیں پائی جاتی ہیں مگر تیسری چیز یعنی سادگی جس سے الفاظ اور خیال دونوں کی سادگی مراد ہے۔
البتہ نہیں پائی جاتی کیونکہ جب تک یہ جملہ کہ ”اہل دنیا کا ایک نہ ایک بلا میں مبتلا رہنا ضروری ہے۔“ شعر میں اضافہ کیا جاوے عام ذہن معنی مقصود کی طرف انتقال نہیں کر سکتے لیکن اس میں شاعر نے ایک لطافت رکھی ہے جو سادگی کا نعم البدل ہو سکتی ہے۔
اگر بیان زیادہ صاف ہوتا تو وہ لطافت باقی نہ رہتی اس نے یہ جملہ گویا قصداً حذف کر دیا ہے اور یہ جتانا چاہتا ہے کہ یہ بات ایسی بدیہی ہے کہ اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
(۱۳) آتش کہتے ہیں:
فرصت اک دم عہد طفلی میں نہ رونے سے ملی
پرورش پایا ہوا ہوں دامن سیلاب کا
جامہ تن ہو گیا راہ عدم میں نذر گور
بوجھ اٹھایا تھا مگر ٹھگ کیلئے اسباب کا
ساحل مقصود دیکھا میں نے جا کر گور میں
ڈوبنا کشتی تن کو مثردہ تھا پایاب کا
ان تینوں شعروں میں شاید مشکل سے کسی نہ کسی قسم کی اصلیت تو نکل آئے لیکن جیسا کہ ظاہر ہے نہ بیاں میں سادگی ہے نہ جوش۔
(۱۴) نظیری کہتا ہے:
رہ نداد آں قدام برسر خوان تو فلک
کز نمکدان تو برلب زنم انگشت نمک
رستخیزے کہ شود زیر و زبر وضع جہاں
چند رختم بسما باشد و بخسم بہ سمک
پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ خوان نعمت الٰہی سے مجھ کو اتنا بھی حصہ نہ ملا کہ نمک دانی سے نمک تو انگلی پر لگا کر چکھ لیتا۔
دوسرے شعر میں وہ ظاہر کرتا ہے کہ میں باعتبار اپنی قابلیت اور استعداد کے جوہر علوی ہوں مگر میرا نصیب اپنی پستی کے سبب تحت الثریٰ میں پڑا ہوا ہے۔
پس کہتا ہے کہ کاش ایسی رستخیر یعنی انقلاب برپا ہو جس سے جہاں زیر و زبر ہو جائے اور میرا نصیب پستی سے بلندی پر پہنچ جائے۔ ان دونوں شعروں میں اصلیت اور جوش بخوبی پایا جایا جاتا ہے لیکن بیان کسی قدر عام اذہان سے بالاتر ہے۔
(۱۵) آتش کہتے ہیں:
تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا
نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخم شہیداں کا
تری تلوار کا منہ کچھ نہ کچھ اے تیغ زن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تارکفن بگڑا
یہ تینوں شعر صاف ہیں مگر ان میں سادگی بیان کے سوا جیسا کہ ظاہر ہے نہ اصلیت ہے نہ جوش۔
(۱۶) ذوق کہتے ہیں:
کیا جانے اسے وہم ہے کہ کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہادیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
ان شعروں میں بھی سادگی بیان کے سوا نہ اصلیت ہے نہ جوش۔
اب صرف دو احتمال باقی رہ گئے۔ ایک یہ کہ میں صرف جوش پایا جائے اور سادگی اصلیت نہ پائی جائے۔ دوسرے یہ کہ سادگی اور جوش پایا جائے۔ اصلیت نہ پائی جائے لیکن جوش کیلئے اصلیت کا ہونا ایسا ضروری ہے کہ بغیر اس کے ہرگز کلام میں جوش متحقق نہیں ہو سکتا۔ پس یہ دونوں صورتیں ممکن الوقوع نہیں۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali