Episode 15 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 15 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

رہا وہ کلام جس میں نہ سادگی نہ جوش نہ اصلیت تینوں چیزیں نہ پائی جائیں سو ایسے کلام سے ہمارے شعراء کے دیوان بھرے پڑے ہیں کیونکہ ہماری شاعری زیادہ تر اب دو قسم کے مضامین پر منحصر ہے عشقیہ یا مدحیہ۔ عشقیہ مضامین اکثر غزل ، مثنوی اور قصائد کی تشبیب میں باندھے جاتے ہیں اور مدحیہ مضامین زیادہ تر قصائد میں۔ سو ان تینوں صنفوں میں شاعر کا کام یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو مضامین قدیم سے بندھتے آتے ہیں اور جو بندھتے بندھتے بمنزلہ اصول مسلمہ کے ہو گئے ہیں۔
انہیں کو ہمیشہ بہ ادنیٰ تغیر باندھتا رہے اور ان سے سر موتجاوز نہ کرے مثلاً غزل ہمیشہ معشوق کو بے وفا ، بے مروت ، بے مہر ، بے رحم ، ظالم ، قاتل ، صیاد ، جلاد ، ہرجائی اپنوں سے نفرت کرنے والا ، اوروں سے ملنے والا ، سچی محبت پر یقین نہ لانے والا ، اہل ہوس کو عاشق صادق جاننے والا ، بدگمان بدخو ، بد زبان ، بدچلن غرضیکہ ایک حسن و جمال یا نازو ادا اور دیگر حرکات مہر انگیز کے سوا اور تمام ایسی برائیوں کے ساتھ اس کو موصوف کرنا جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کر سکتا ہے اور اپنے تئیں غمزدہ ، مصیبت زدہ ، فلک زدہ ، ضعیف بیمار ، بدبخت ، آوارہ ، بدنام ، مردود خلائق ، آوارگی پسند ، بدنامی کا خواہاں ، حسن قبول سے نفور خوشی اور عافیت سے کنارہ کرنے والا ، میخوار ، بدمست ، مدہوش ، خود فراموش ، وفادار ، جفاکش کہیں آزاد طبع اور کہیں گرفتاری کا آرزو مند کہیں صابر اور کہیں بے قرار ، کہیں دیوانہ اور کہیں ہوشیار ، کہیں غیور اور کہیں چکنا گھڑا ، رشک کا پتلا ، رقیبوں کا دشمن ، سارے جہان سے بدگمان ، آسمان کا شاکی ، زمین سے نالاں ، زمانہ کے ہاتھ سے تنگ ، غرضیکہ ایک عشق اور وفاداری کے سوا اپنے تئیں ان تمام صفات سے متصف کرنا جو عموماً انسان کیلئے قابل افسوس خیال کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

مثلاً آسمان اور زمانہ یا نصیب اور ستارہ کی شکایت کرنا اور زاہد و واعظ و صوفی کو لتاڑنا اور بادہ کش و بادہ فروش اور ساقی و خمار کی تعریف کرنی اور ان سے حسن عقیدت ظاہر کرنا ، ایمان و اسلام و زہد و طاعت سے نفرت اور کفر و بے دینی و گناہ و معصیت سے رغبت ظاہر کرنی ، کبھی کبھی مال و جاہ منصب دنیوی کو حقیر ٹھہرانا اور فکر و عشق و آزادگی وغیرہ کو علم و عقل و سلطنت وغیرہ پر ترجیح دینی۔
اسی طرح کے اور چند مضامین ہیں جو غزل کیلئے بمنزلہ ارکان و عناصر کے ہو گئے ہیں۔ غزل کے ساتھ جو الفاظ مخصوص ہیں وہ بھی ایک نہایت تنگ دائرہ میں محدودہ ہیں مثلاً معشوق کی صورت کو حور ، پری ، چاند ، سورج ، گل ، لالہ ، باغ اور جنت وغیرہ سے اس کی آنکھ کو نرگس ، آہو ، بادام ، ساحر ، مست وغیرہ سے۔ زلف کو سنبل ، مشک عنبر کافر ، جادوگر ، رات ، ظلمات ، دام ، زنجیر ، کند وغیرہ سے۔
نگاہ و مثرہ غمزہ و ادا کو تیر و سناں و شمشیر وغیرہ سے ، ابرو کو کمان دانتوں کو موتیوں سے ہونٹوں کو لعل ، یاقوت ، گلبرگ ، نبات ، آب حیات وغیرہ سے ، منہ کو غنچہ سے ، کمر کو بال سے یا دونوں کو عدم سے قد کو سرو ، صنوبر شمشاد و قیامت وغیرہ سے رفتار کو فتنہء قیامت بلا ، آفت ، آشوب وغیرہ سے اور اسی طرح اور بعض اعضاء کو چند خاص چیزوں سے تشبیہہ دینا ، معشوق کے سامان آرائش میں سے مشاطہ ، شاد ، آئینہ ، حنا ، سرمہ ، کاجل ، غازہ ہستی ، پان کبھی قبا ، بند قبا ، کلاہ ، چیرہ ، دستار اور کبھی برقع ، نقاب، محرم ،چادر ، چوٹی چوڑیاں اور خاص خاص زیوروں کا ذکر کرنا اور ان کو خاص خاص چیزوں سے تشبیہہ دینا۔

باغ میں چند چیزوں کو انتخاب کر لینا۔ جیسے سرو ، گل ، بلبل ، صیاد ، گلچین ، باغباں ، آشیانہ ، قفس ، دام ، دانہ ، یاسمن ، نسزین ، نسترن ، ارغوان ، سوسن ، خار ، گلشن وغیرہ۔
صحرا میں سے وادی ، چشمہ ، آب رواں ، سبزہ ،تشنہ ، سیراب ، سراب ، صر صر ، گردبار ، سموم ، نخل ، چنا ، خار مغیلاں ، رہزن ، رہنما ، خضر ، قافلہ، برس ، آواز درا ، محمل ، لیلیٰ ، مجنوں ، دشت جنوں وغیرہ۔
دریا میں سے کشتی ، ناخدا ، موج ، گرداب ، ساحل ، حباب ، قطرہ ، ماہی ،نہنگ غوطہ ، شناوری وغیرہ۔
محفل میں سے شمع ، پروانہ ، شراب ، کباب ، پیالہ ، مینا ، صراحی ، خم ، جرعہ ، نشہ ، خمار صبوحی ، ساقی ، دور ، نغمہ ، مطرب ، چنگ ، ارغواں ، مضراب ، پردہٴ ساز ، رقص ، وجد ، سماع وغیرہ سامان غم میں سے نالہ ، آہ ، فغاں ، قلق ، اضطراب ، درد ، رشک ، ضبط ، شوق# جدائی یاد ، تمنا ، حسرت ، حرماں ، رنج ، غم ، الم ، سوز ، داغ ، زخم ، خلش ، تپش وغیرہ یہ اور اسی قسم کے چند اور الفاظ ہیں جن پر بالفعل اردو زبان کی غزل گوئی کا دارو مدار ہے۔
۔
قصیدہ میں بھی صرف چند معمولی سرکل ہیں جن میں ہمیشہ ہمارے شعراء گھومتے رہتے ہیں۔ اگر کسی نے زیادہ شاعری کے جوہر دکھانے چاہئے تو وہ مدح سے پہلے ایک تمہید لکھتا ہے جس میں یا تو فصل بہار کا ذکر ہوتا ہے اگرچہ اس وقت خزاں ہی کا موسم ہو  مگر اس ذکر میں اس ناپاک دنیا کی فصل بہار سے کچھ بحث نہیں ہوتی بلکہ ایک اور عالم سے بحث ہوتی ہے جو عالم امکان سے بالاتر ہے یا زمانہ  آسمان  نصیب یا قسمت کی شکایت ہوتی ہے جس کو درحقیقت خدا کی شکایت سمجھنا چاہئے جو زمانہ وغیرہ کی آڑ میں خوب دل کھول کر کی جاتی ہے۔
اس میں بھی شاعر اپنے واقعی مصائب بیان نہیں کرتا اور نہ ممدوح کو اپنے اوپر رحم دلانے کی باتیں کہتا ہے بلکہ جس قسم کے مصائب اگلے زمانے کے شعراء نے اپنی نسبت بیان کئے تھے اور جیسے بہتان انہوں نے آسمان اور زمانہ وغیرہ پر باندھے تھے یہ بھی بہ ادنیٰ تغیر ویسے ہی مصائب بیان کرتا ہے اور اسی قسم کے بہتان باندھتا ہے یا ایک فرضی معشوق کے حسن و جمال کی تعریف اس کے جو رو ظلم کی شکایت اور اپنے شوق و انتظار کا مسلسل یا غیر مسلسل بیان اس طرح کیا جاتا ہے جیسا کہ عشقیہ مثنویوں یا غزلوں میں ہوتا ہے یا فخر و خودستائی میں تمام تمہید ختم کر دی جاتی ہے۔
اس کے بعد مدح شروع ہوتی ہے۔ مدح میں اکثر ایک نام کے سوا کوئی خصوصیت ایسی مذکور نہیں ہوتی جو ممدوح کی ذات کے ساتھ مختص ہو بلکہ ایسے حاوی الفاظ میں مدح کی جاتی ہے کہ اگر بالفرض مداح اس علت میں کہ فلاں شخص کی مدح کیوں کی؟ عدالت میں ماخوذ ہو جائے تو قصیدہ میں کوئی لفظ ایسا نہ ملے جس سے اس کی بے گناہی ثابت ہو سکے۔ مدح میں زیادہ تر وہی معمولی محامد بیان ہوتے ہیں جو قدیم شعراء باندھتے چلے آئے ہیں اور ہر ایک خوبی کے بیان میں ایسا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ قصیدہ کا مصداق نفس الامر میں کوئی انسان قرار نہیں پا سکتا۔
ممدوح کی ذات میں جو واقعی خوبیاں ہوتی ہیں ان سے اصلاً تعرض نہیں کیا جاتا  بلکہ بجائے ان کے ایسی محال باتیں بیان کی جاتی ہیں جو کسی متنفس پر صادق نہ آ سکیں ممدوح کی طرح اکثر وہ خوبیاں منسوب کی جاتی ہیں جن کی اضداد اس کی ذات میں موجود ہیں۔ 
مثلاً ایک جاہل کو علم و فضل کے ساتھ ، ایک ظالم کو عدل و انصاف کے ساتھ ، ایک احمق اور غافل کو دانشمندی اور بیدار مغزی کے ساتھ ، ایک عاجز و بے دست و پا کو قدرت و مکنت کے ساتھ اور ایک ایسے شخص کو جس کی ران نے کبھی گھوڑے کی پیٹھ کو مس نہیں کیا ، شہسواری اور فروئیت کے ساتھ۔
غرضیکہ کوئی بات ایسی نہیں بیان کی جاتی جس پر ممدوح فخر کر سکے یا جس سے لوگوں کے دل میں اس کی عظمت اور محبت پیدا ہو اور اس کے محاسن و مآثر زمانہ میں یادگار رہیں۔
ہماری مثنویوں کا یہ حال ہے کہ ان میں معمولی حمد و نعمت وغیرہ کے بعد اکثر پہلے کسی بادشاہ زادہ یا وزیر زادہ یا امیر زادہ یا سودا گربچہ کے حسن و جمال وغیرہ کی تعریف ہوتی ہے۔
پھر اس کو کسی پری یا شہزادی یا وزیر زادی یا اور کسی کے ساتھ لگا مارا جاتا ہے وہ اول اس کے فراق میں شہر شہر اور جنگل جنگل مارا مارا پھرتا ہے پھر آخر کار وصل سے کامیاب ہوتا ہے۔ یہ کامیابی ایسی ضروری ہے کہ اس کی نسبت پہلے ہی سے پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
جو لوگ فی الواقع مسلم البثوت شاعر ہیں یا اپنے تئیں ایسا سمجھتے ہیں وہ تو جب مثنوی لکھیں گے ضرور اسی قسم کی لکھیں گے۔
البتہ جو لوگ اس درجہ کے شاعر نہیں ہیں ان کے مثنویاں ، تاریخی مذہبی یا اخلاقی مضامین پر بھی دیکھی گئی ہیں ، لیکن اول یہ مضامین خود روکھے پھیکے ہوتے ہیں اور پھر ان کے لکھنے والے نہ تو بیان میں کچھ گرمی پیدا کرنی چاہتے ہیں اور نہ پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان مثنویوں کو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ پس ہمارے وہی مثنویاں رونق پاتی ہیں جن کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہو اگرچہ قصہ کی بنیاد عشق یا بہادری پر رکھنے کا دستور زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے اور آج کل کے شائستہ قصے بھی جب تک ان میں عشق یا بہادری کا رنگ نہیں بھرا جاتا  زیادہ مقبول نہیں ہوتے لیکن ہماری مثنویوں میں اور ان میں بہت بڑا فرق ہے۔
ہمارے ہاں جس قسم کے واقعات اول دو چار استاد باندھ گئے ہیں انہیں واقعات کو بہ ادنیٰ تغیر برابر باندھتے چلے جاتے ہیں۔ بیان کے اسلوب اور تشبیہات اور معشوق کے سراپا اور قصہ کے آغاز و انجام وغیرہ میں زیادہ تر انہیں کی تقلید کی جاتی ہے۔ نتیجہ ہمیشہ شد آید قدیم کے موافق جدائی کے بعد وصال اور مصیبت کے بعد راحت کا مترتب کیا جاتا ہے۔ طالب و مطلوب کے دل پر جو حالات و واردات ایک دوسرے کی محبت میں فی الواقع گزرتے ہیں یا گزر سکتے ہیں ان سے بہت کم تعرض کیا جاتا ہے۔
عشقیہ مضامین سے اخلاقی نتائج نکالنے کا کبھی بھول کر بھی خیال نہیں کیا جا سکتا۔ بیان میں اثر مطلق نہیں ہوتا کیونکہ شاعر اس خیال سے کہ قدیم مثنویوں سے اپنی مثنوی میں کچھ جدت پیدا کرے ، ہمہ تن صنائع لفظی کے سرانجام کرنے میں منہمک ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو کلام میں اثر پیدا کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
بخلاف شائستہ ملکوں کے کہ وہاں اکثر ہر قصہ یا مثنوی میں ایک اچھوتی اور نرالی بات پیدا کی جاتی ہے۔
عقل و عادت کے خلاف باتیں جن پر اکثر ہماری مثنویوں یا قصوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے  ان میں بہت کم ہوتی ہیں ، ان کے قصے برائے نام فرضی سمجھے جاتے ہیں ورنہ ان میں تمام واقعات اور تمام واردات ایسے بیان ہوتے ہیں جو رات دن لوگوں پر گزرتے ہیں اور پھر ان سے وہ ایسے اخلاقی معاشرتی یا سیاسی نتائج نکالتے ہیں جن سے قوم کے اخلاق  معاشرت یا تمدن پر نہایت عمدہ اثر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی مثنویوں کی طرح ان کے مطالعہ سے صرف عوام الناس اور بازاری لوگ ہی محظوظ نہیں ہوتے بلکہ فضلاء و حکماء کی سوسائٹی میں بھی ان کی قدر کی جاتی ہے۔ ان کے قصوں کا خاتمہ ہمیشہ کامیابی اور خوشی ہی پر نہیں ہوتا بلکہ عادت الٰہی موافق کبھی کامیابی اور کبھی خوشی اور کبھی اندوہ و غم پر ہوتا ہے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali