Episode 16 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 16 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

بالغرض جب کہ ہماری موجودہ شاعری کا مدار من کل الوجوہ یعنی نہ صرف الفاظ و عبارات میں بلکہ خیالات و مضامین میں بھی محض قوم کی تقلید پر ہے اور جبکہ ہمارے ہاں یہ بات بالاتفاق تسلیم کی گئی ہے ، کہ احسن الشعر اکذبہ تو ہم کو اپنی شاعری کی موجودہ حالت میں اصلیت اور جوش دونوں سے دست بردار ہونا چاہئے کیونکہ اصلیت اور کذب میں منافات ہے اور جوش بغیر اصلیت کے پیدا نہیں ہو سکتا۔
رہی سادگی سو وہ موجودہ حالت میں اکثر بہ مجبوری چھوڑنی پڑتی ہے کیونکہ جو معمولی خیالات اور مضامین زیادہ تر ہمارے شعراء کے زیر مشق رہتے ہیں۔ ان کو قدماء سادگی اور صفائی کے ہر اسلوب اور پیرایہ میں ادا کر چکے ہیں۔ اب تادقیکہ طرز بیان میں کسی قدر پیچیدگی یا خیال میں کوئی بھونڈا اضافہ یا تبدیلی پیدا نہ کی جائے اس وقت تک آسانی سے کسی معمولی مضمون میں جدت نہیں دکھائی جا سکتی اگرچہ ہمارے بعض شعراء ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے سادگی بیان کو سب چیزوں سے مقدم سمجھا ہے۔

(جاری ہے)

جیسے میر# ، درد# ، اثر اور مصحفی وغیرہ۔ لیکن چونکہ انہوں نے قدماء کے خیالات اور مضامین سے بہت کم تجاوز کیا ہے۔ اس لئے ان کے دیوان زیادہ تر بھرتی اور پرکن اشعار سے بھرے ہوئے ہیں۔ میر کی نسبت مولانا آزردہ ہلوی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ”پستش بغایت پست و بلندش بغایت بلند“ ان لوگوں کو جو اعلیٰ درجہ کا استاد مانا گیا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان کے کلام میں وہی معمولی خیالات جو متعدد صدیوں سے برابر بندھتے چلے آتے تھے۔
باوجودیکہ غایت درجہ کی سادگی اور صفائی کے اکثر جگہ ایسے نرالے اسلوبوں میں بیان ہوئے ہیں جو فی الواقع بے مثل و عدیم النظیر ہیں میر# کے دیوان میں ایک غزل ہے خاک میں ، چاک میں ، مولانا آزردہ# کے مکان پر ان کے چند احباب جن میں مومن# اور شیفتہ بھی تھے ایک روز جمع تھے۔ میر# کی اس غزل کا یہ شعر پڑھا گیا:
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
شعر کی بے انتہا تعریف ہوئی اور سب کو یہ خیال ہوا کہ اس قافیہ کو ہر شخص اپنے اپنے سلیقہ اور فکر کے موافق باندھ کر دکھائے۔
یہ سب قلم و دوات اور کاغذ لے کر الگ الگ بیٹھ گئے اور فکر کرنے لگے۔ اس وقت ایک اور دوست وارد ہوئے۔ مولانا سے پوچھا کہ حضرت کس فکر میں بیٹھے ہیں۔ مولانا نے کہا قل ہو اللہ کا جواب لکھ رہا ہوں۔
ظاہر ہے کہ جوش جنون میں گریبان یا دامن یا دونوں کو چاک کرنا ایک نہایت متبذل اور پامال مضمون ہے جس کو قدیم زمانے سے لوگ برابر باندھتے چلے آئے ہیں۔
ایسے چیتھڑے ہوئے ہیں جس کو میر نے باوجود غایت درجہ کی سادگی کے ایک ایسے اچھوتے ، نرالے اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے کہ اس سے بہتر اسلوب تصور میں نہیں آ سکتا۔ اس اسلوب میں بڑی خوبی یہ ہے کہ سدھا سادہ نیچرل اور باوجود اس کے بالکل انوکھا ہے۔
یہاں تک ان تین شرطوں کی شرح جن کو ملٹن نے شعر کیلئے ضروری قرار دیا ہے یعنی سادگی اصلیت اور جوش ہمارے نزدیک بقدر ضرورت بیان ہو گئی ہے۔
ملٹن سے پہلے ہمارے قدماء نے بھی عمدہ شعر کی تعریف میں کچھ کچھ کہا ہے۔ اصمعی نے ملٹن کی تین شرطوں میں سے صرف ایک شرط یعنی سادگی پر شعر کی عمدگی کا مدار رکھا ہے یہ تعریف جامع تو ہے لیکن مانع نہیں یعنی کوئی عمدہ شعر سادگی سے خالی تو نہیں ہو سکتا مگر یہ ضروری نہیں کہ جس شعر میں سادگی ہو وہ اعلیٰ درجہ کا بھی ہو۔ خلیل ابن احمد کے نزدیک عمدہ شعر کا معیار یہ ہے کہ ”سامع کو اس کے شروع ہوتے ہی یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا فلاں قافیہ ہو گا۔
“ یہ تعریف نہ جامع ہے نہ مانع۔ ممکن ہے کہ شعر ادنیٰ درجہ کا ہو اور اس میں یہ بات پائی جائے اور ممکن ہے کہ شعر اعلیٰ درجہ کا ہو اور اس میں یہ بات نہ پائی جائے۔ صاحب عقد الفرید لکھتے ہیں کہ اس باب میں سب سے بہتر زہیر بن ابی سلمیٰ کا قول ہے:
و ان احسن بیت انت قائلہ
بیت یقال اذا انشدتہ صدقا
یعنی سب سے بہتر شعر جو تم کہہ سکتے ہو وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو لوگ کہیں کہ سچ کہا ہے۔
اس قول میں بھی گویا ملٹن کی تین شرطوں میں سے صرف ایک شرط یعنی اصلیت کو ضروری بتایا گیا ہے۔ لیکن صرف یہ ایک شرط کافی نہیں ہے۔ اگرچہ اعلیٰ درجہ کے شعر میں یہ خاصیت ہونی ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ جس میں یہ خاصیت پائی جائے وہ اعلیٰ ہی درجہ کا شعر ہو اس سے زیادہ اور کون سا شعر سچا ہو سکتا ہے:
چشمان تو زیر ابروانند
دندان تو جملہ در دہانند
حالانکہ اس کو ادنیٰ درجہ کا شعر بھی بمشکل کہا جا سکتا ہے۔
ہمارے نزدیک اس بات میں سب سے عمدہ ابندشیق کا قول ہے وہ کہتے ہیں:
فاذا قیل اطمع الناس طرا
واذاریم اعجزا لمعجزینا
یعنی جب پڑھا جائے تو ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ میں بھی ایسا کہہ سکتا ہوں مگر جب ویسا کہنے کا ارادہ کیا جائے تو معجز بیان عاجز ہو جائیں۔
حق یہ ہے کہ ابن رشیق نے جس لطافت اور خوبی سے عمدہ شعر کی تعریف کی ہے اس سے بہتر تصور میں نہیں آ سکتی گویا جس رتبہ اور پایہ کے شعر کی اس نے تعریف کی ہے اسی رتبہ اور پایہ کا شعر اس کی تعریف میں افشا کیا ہے۔
ابن رشیق اور ملٹن کے بیان میں فرق
ابن رشیق اور ملٹن کے بیان میں جو نازک فرق ہے اس کو غور سے سمجھنا چاہئے ابن رشیق کی تعریف سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عمدہ شعر کا سرانجام ہونا زیادہ تر حسن اتفاق پر موقوف ہے۔ شاعر کے قصد و ارادہ کو اس میں چنداں داخل نہیں ہے۔ وہ شاعر کو شعر کہنے کا طریقہ نہیں بتاتا بلکہ یہ بتاتا ہے کہ شاعر کے کون سے شعر کو عمدہ شعر سمجھنا چاہئے۔
بخلاف ملٹن کے اس کے بیان میں دونوں پہلو موجود ہیں اس سے عمدہ شعر کی پہچان اور عمدہ شعر کہنے کے ارکان دونوں باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ ملٹن کی تینوں شرطیں ملحوظ رکھنے سے ہمیشہ ویسے ہی سہل ممتنع اشعار سرانجام ہوں گے جن کا معیار ابن رشیق نے بتایا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ جو شاعر اس کی شرطوں کو محلوظ رکھے گا۔ اس کے کلام میں جا بجا وہ بجلیاں کو ندتی نظر آئیں گی۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں یا جن کو استاد ماننا چاہئے ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن و لطافت کے اعلیٰ درجہ پر واقع ہو۔ کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا کے کلام میں ہو سکتی ہے۔ شاعر کی معراج کمال یہ ہے کہ اس کا عام کلام ہموار اور اصول کے موافق ہو اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے جس سے شاعر کا کمال خاص و عام کے دلوں پر نقش ہو جائے۔
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس کے عام اشعار بھی خاص خاص اشخاص کے دل پر خاص خاص حالتوں میں تقریباً ویسا ہی اثر کریں جیسا کہ اس کا خاص کلام ہر شخص کے دل پر ہر حالت میں اثر کرتا ہے اور یہ بات اسی شاعر کے کلام میں پائی جا سکتی ہے جس کا کلام سادہ اور نیچرل ہو۔ اگرچہ مقتضائے مقام یہ ہے کہ اس بحث کو زیادہ بسط کے ساتھ بیان کیا جائے اور جس قدر کہ بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے نزدیک کافی مقدار سے بہت کم ہے لیکن اس وقت بضرورت صرف اسی قدر بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے، اگر وقت نے مساعدت کی تو پھر کسی موقع پر اسی بحث کو زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھا جائے گا۔
زمانہ کی رفتار کے موافق اردو شاعری میں ترقی کیوں کر ہو سکتی ہے؟
یہاں تک شعر و شاعری کی حقیقت اور وہ شرطیں جن پر شاعر کی خوبی اور شاعر کا کمال منحصر ہے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کی گئیں۔ اب ہم اپنے ہم وطنوں کو جو زمانہ کی رفتار کے موافق شاعری میں ترقی کرنے کا خیال رکھتے ہیں اپنی سمجھ اور رائے کے موافق چند مشورے دیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جن ذریعہ سے ایشیا کی شاعری ہمیشہ ترقی پاتی رہی ہے وہ اردو کی شاعری کیلئے فی زمانہ مفقود ہیں اور ہرگز امید نہیں ہے کہ کبھی زمانہ آئندہ میں ایسے ذرائع مہیا ہو سکیں بقول شخصے ”وہ منڈھی ہی جاتی رہی جہاں اتیت رہتے تھے۔“ یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ قدرتی سرچشمہ جو ہمیشہ ہر قوت کی ترقی کا منبع رہا ہے یعنی ”سیلف ہیلپ“ اور اپنی ذات پر بھروسہ کرنا اس کی سوتیں بھی ہماری قوم میں مدت سے بند ہیں۔
 پس ایسی حالت میں اردو شاعر کی ترقی کا خیال پکانا گویا زمانہ ناسازگار سے مقابلہ کرنا ہے خصوصاً ایسے زمانہ میں جبکہ اردو سے نہایت اعلیٰ اور اشرف زمانوں کی شاعری بھی معرض زوال میں ہو  سائنس اس کی جڑ کاٹ رہا ہو اور سویلزیشن اس کا طلسم توڑ رہی ہو اور اس کے جادو کو حرف غلط کی طرح مٹا رہی ہو لیکن چونکہ آس و امید دونوں حالتوں میں اخیر وقت تک ہاتھ پاؤں مارنا جان دار کا طبعی اقتضا ہے۔ مذبوح کی حرکت اور مدقوق کی امید دم واپسیں تک باقی رہتی ہے۔ اس لئے جو کچھ ہم لکھنا چاہتے ہیں اس سے یہ جتا دینا مقصود نہیں ہے کہ کچھ ہوگا بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کاش ایسا ہوتا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali