Episode 17 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 17 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

شاعری کیلئے استعداد ضروری ہے:
سب سے پہلے ہم اس بات کی صلاح دیتے ہیں کہ شاعری کے کوچہ میں اس شخص کو قدم رکھنا چاہئے جس کی فطرت میں یہ ملکہ ودیعت کیا ہو ورنہ تمام کاوش اور تمام کوشش رائیگاں جائے گی یوں تو ہر فن اور ہر پیشہ میں کمال حاصل کرنے کیلئے مناسبت فطری کی ضرورت ہے لیکن شاعری میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جب تک شاعر کی فکر میں اتنی بھی اپچ نہ ہو جتنی کہ ایک بئے میں گھونسلا بنانے کی اور مکڑی میں جالا پورنے کی ہوتی ہے اس کو ہرگز مناسب نہیں کہ اس خیال خام میں اپنا وقت ضائع کرے بلکہ خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ اس کے دماغ میں یہ خلل نہیں ہے۔
شاعری کی ابتداء بعینہ ایسی ہوتی ہے جیسی شطرنج کی ابتداء ہوتی ہے جس کی طبیعت کو شطرنج سے لگاؤ ہوتا ہے اس کو دو ہی چار دن میں باریک اور گہری چالیں سوجھنے لگتی ہیں اور شطرنج میں اس کو ایسا مزہ آنے لگتا ہے کہ کھانا پینا اور سونا سب بھول جاتا ہے اور روز بروز اس کی چال بڑھتی جاتی ہے مگر جن کی طبیعت کو اس سے لگاؤ نہیں ہوتا اس کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے وہ اگر تمام عمر بھی شطرنج کھیلیں تو ان کی چال اس درجہ پر کبھی آگے نہیں بڑھتی جو ابتدائی چند روزہ مشق سے ان کو حاصل ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

یہی حال شاعری کا ہے جن لوگوں کی فطرت میں اس کا ملکہ ہوتا ہے ان کی طبیعت ابتداء ہی سے راہ دینے لگتی ہے اگر وہ کسی وجہ سے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو طبیعت کا اقتضا ان کو جبراً اس کی طرف کھینچ کر لاتا ہے وہ جب اس کی طرف توجہ کرتے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور ہوتی ہے اور اس لئے ان کا دل روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔
 ان کو اپنی قوت ممیزہ پر پورا بھروسا ہوتا ہے اور وہ اپنے کلام کی برائی اور بھلائی کا بغیر اس کے کہ کسی سے مشورہ یا صلاح لیں آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
ان کی طبیعت میں ہر حالت اور ہر واقعہ سے خواہ وہ واقعہ خود ان پر گزرے یا زید و عمر پر یا ایک چیونٹی پر متاثر ہونے کی قابلیت ہوتی ہے اور اس قابلیت سے اگر وہ چاہیں تو بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ان کو خارج سے اپنی شاعری کا مصالح فراہم کرنے کی صرف اسی قدر ضرورت ہوتی ہے جس قدر کہ بئے کو اپنے گھونسلے کیلئے پھونس اور تنکوں کے باہر سے لانے کی ضرورت ہوتی ہے ، ورنہ وہ سلیقہ جو الفاظ و خیالات کی ترتیب و انتخاب کیلئے درکار ہے وہ اپنی ذات میں اسی طرح پاتے ہیں جس طرح کہ بیا گھونسلا بنانے کا ہنر اور سلیقہ اپنی ذات میں پاتا ہے وہ اساتذہ کے کلام سے صرف یہی فائدہ نہیں اٹھاتے کہ جو کچھ انہوں نے لکھایا باندھا ہے اس سے مطلع ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ سے بعض اوقات ان کو وہ سبق حاصل ہوتا ہے جو ایک ناشاعر مہنیوں میں کسی استاد سے حاصل نہیں کر سکتا۔
 
پس ہمارے ملک میں جو شاعری کیلئے ایک استاد قرار دینے کا دستور اور اصلاح کیلئے ہمیشہ اس کو اپنا کلام دکھانے کا قاعدہ قدیم سے چلا آتا ہے اس سے شاگردوں کے حق میں کوئی متعدبہ فائدہ مترتب ہونے کی امید نہیں ہے۔ استاد شاگرد کے کلام میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہے کہ کوئی گریمر کی غلطی بتا دے یا کسی عروضی لغزش کی اصلاح کر دے لیکن اس سے نفس شعر میں کچھ ترقی نہیں ہو سکتی۔
رہی یہ بات کہ استاد شاگرد کے پست کلام کو بلند کر دے یا شاگرد کو اپنا ہم سر بنا دے سو یہ امر خود استاد کی طاقت اور اختیار سے باہر ہے اگر استادوں میں شاگردوں کو اپنا ہمسر بنانے کی طاقت ہوتی تو ملا نظامی صاحبزادہ کو یہ نصیحت نہ کرتے:
در شعر مجو بلند نامی!
کایں ختم شداست بر نظامی
اور اگر کمال شاعری کیلئے کسی کا تلمذ اختیار کرنا ضروری ہوتا تو سنائی# نظامی# ،سعدی# ، خسرو# اور حافظ# کے ضرور ایسے استاد نکلتے جن کی شہرت شاگردوں سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر یا ان سے کمتر ہوتی شاعر بننے کیلئے سب سے اول سبق استعداد اور پھر نیچر کا مطالعہ اور اس کے بعد کثرت سے اساتذہ کا کلام دیکھنا اور ان کے برگزیدہ کلام کا ابتاع کرنا اور اگر میسر آئے تو ان لوگوں کی صحبت سے مستفید ہونا جو شعر کا صحیح مذاق رکھتے ہوں (عام اس سے کہ شاعر ہوں یا نا ہوں) صرف اسی قدر کافی ہے اور بس۔
البتہ ان لوگوں کو جو مستند زبان پر کافی عبور نہیں رکھتے ممکن ہے کہ محاورات کے استعمال میں شبہات واقع ہوں لیکن ان شبہات کا رفع ہونا کسی مشاق و ماہر استاد پر موقوف نہیں ہے بلکہ ہر صاحب زبان سے یہاں تک کہ ایک دادا ، ایک ماما ، ایک کنجڑن بلکہ ایک حلال خوری سے بھی رفع ہو سکتے ہیں۔
جھوٹ سے مبالغہ سے بچنا چاہئے
دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سررشتہ ہاتھ سے دینا نہیں چاہئے اگرچہ ہم نے جو اصلیت کی شرح اوپر بیان کی ہے اس میں دائرہ بیان کو زیادہ وسیع کر دیا ہے اور اصلیت کیلئے بہت سے پہلو نکالے ہیں۔
لیکن زمانہ کا اقتضایہ ہے کہ جھوٹ ، مبالغہ ، بہتان ، افرترا صریح ، خوشامد ، ادعائے بے معنی ، تعلیٰ بے جا ، الزام لا یعنی شکوہ بے محل اور اسی قسم کی باتیں جو صدق اور راستی کی منافی ہیں اور جو ہماری شاعری کے قوام میں داخل ہو گئی ہیں ان سے جہاں تک ممکن ہو احتراز کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری شاعری میں خلفائے عباسیہ کے زمانہ سے لے کر آج تک جھوٹ اور مبالغہ برابر ترقی کرتا چلا آیا ہے اور شاعری کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کو شاعری کا زیور سمجھا گیا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب ہماری شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ داخل ہوا اسی وقت سے اس کا تنزل شروع ہوا ایک زمانہ میں عربا اور صدر اول کے شعراء جھوٹ سے نفرت کرتے تھے اور اس کو عیوب شاعری میں سے سمجھتے تھے۔
زہیر ابن ابی سلمیٰ جو صدر اول کا شاعر ہے اس کا قول ہے کہ ”سب سے بہتر کلام وہ ہے جس پر کام گواہی دیں“ اور اسی شاعر کا یہ مشہور شعر ہے:
وان اشعر بیت انت قائلہ
بیت یقال اذا انشرتہ صدقاً
اسی زہیر کی نسبت حضرت عمر فاروق، کہا کرتے تھے کہ وہ افضل ترین شعراء میں سے ہے کیونکہ وہ اسی کی مدح کرتا ہے جو مستحق مدح ہو۔
ایک بار بنی تمیم نے سلامتہ بن جندل سے جو ایک جاہل شاعر تھا درخواست کی کہ مجدنا بشعرک (یعنی تو اپنے مدحیہ اشعار سے ہماری عزت بڑھا) اس نے کہا افعلوا احتی اقول (یعنی تم کچھ کرکے دکھاؤ تاکہ میں اس کو بیان کروں)
صاحب عقد الفرید لکھتے ہیں کہ ”شعرائے عرب اپنی مدح سے ممدوحوں کی عزت بڑھا دیتے تھے اور ہجو سے لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دیتے تھے۔
“ اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ ان کی واقعی خوبیاں یا واقعی برائیاں بیان کرتے تھے ورنہ جھوٹی مدح اور جھوٹی ہجو سے کوئی شخص عزیز یا ذلیل نہیں ہو سکتا۔
معاویہ ابن ابی سفیان کہتے ہیں کہ ”شعر وہ چیز ہے جس کے پڑھنے سے بخیل فیاض نامرد بہادر اور نا اہل بیٹا اہل اور فرمابردار ہو جاتا ہے۔“
ظاہر ہے کہ اس تعریف کا مصداق اگر کوئی شعر ہو سکتا ہے تو وہ وہی ہو سکتا ہے جو جھوٹ اور مبالغہ سے پاک ہو۔
ابو نو اس نے خلیفہ کی مد میں یہ شعر کہہ دیا تھا:
واخفت اھل الشرک حتی انہ
لتخافک النطف التی لم تخلق
(یعنی تو نے اہل شرک کو ایسا ڈرایا ہے کہ جو نطفے ہنوز قرار نہیں پاتے وہ صلب پدری میں تجھ سے خوف کھاتے ہیں)۔ اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ جو نطفے ہنوز قرار نہیں پائے وہ کیونکر خوف کھا سکتے ہیں اور ابو نو اس کی طرف سے سوا اس کے کہ بعضوں نے تاویل سے اس کو صحیح قرار دیا اور کوئی کچھ جواب نہ دے سکا۔
سچا شعر کہنے کی صلاح کچھ اس لئے نہیں دی جاتی کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ نہیں ، بلکہ اس لئے دی جاتی ہے کہ تاثیر جو شعر کی علت غائی ہے وہ جھوٹ میں بالکل باقی نہیں رہتی۔ اس کے سوا علوم و معارف کی ترقی جو آج کل دنیا میں ہو رہی ہے وہ جھوٹی شاعری کو برباد کرنے والی جن ڈھکوسلوں پر پرانے مذاق کے لوگ ابھی تک سر دھنتے ہیں کوئی دن جاتا ہے کہ وہ دیوانوں کی بڑ سمجھتے جائیں گے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali