Episode 18 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 18 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

نیچرل شاعری:
اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج کل جو نیچرل شاعری کا لفظ اکثر لوگوں کی زبان پر جاری ہے اس کی کسی قدر شرح کی جائے۔ بعض حضرات تو نیچرل شاعری اس شاعری کو سمجھتے ہیں جو نیچر یوں سے منسوب ہو یا جس میں خاص مسلمانوں کی یا مطلقاً کسی قوم کی ترقی یا تنزل کا ذکر کیا جائے مگر نیچرل شاعر سے یہ دونوں معنی کچھ علاقہ نہیں رکھتے۔
نیچرل شاعری سے وہ شاعری مراد ہے ، جو لفظاً اور معناً دونوں حیثیتوں سے نیچرل یعنی فطرت یا عادت کے موافق ہو ، لفظاً نیچرل کے موافق ہونے سے یہ غرض ہے کہ شعر کے الفاظ اور ان کی ترکیب و بندش تابمقدور اس زبان کی معمولی بول چال کے موافق ہو ، جس میں وہ شعر کہا گیا ہے کیونکہ ہر زبان کی معمولی بول چال اور روزمرہ اس ملک والوں کے حق میں جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے نیچر یا سیکنڈ نیچر کا حکم رکھتے ہیں پس شعر کا بیان جس قدر کہ بے ضرور معمولی بول چال اور روزمرہ سے بعید ہو گا اسی قدر ان نیچرل سمجھا جائے گا۔

(جاری ہے)

معنی نیچر کے موافق ہونے سے یہ مطلب ہے کہ شعر میں ایسی باتیں بیان کی جائیں جیسی کہ ہمیشہ دنیا میں ہوا کرتی ہیں یا ہونی چاہئیں۔ پس جس شعر کا مضمون اس کے خلاف ہو گا وہ ان نیچرل سمجھا جائے گا۔ مثلاً
میر حسن#
کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس آسا کھڑی کی کھڑی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خواب
ان دونوں شعروں کو نیچرل کہا جائے گا۔
کیونکہ بیان بھی بول چال کے موافق ہے اور مضمون بھی ایسا ہے کہ جس موقع پر وہ لایا گیا ہے وہاں ہمیشہ ایسا ہی واقع ہوا کرتا ہے یا مثلاً:
ذوق#
رہتا ہے اپنا عشق میں یوں دل سے مشورہ
جس طرح آشنا سے کرے آشنا صلاح
اس شعر کو بھی نیچرل کہا جائے گا کیونکہ عشق میں اور ہر ایک مشکل کے وقت انسان اپنے دل سے اسی طرح مشورہ کیا کرتا ہے یا مثلاً:
ظفر#
ترے رخسار و گیسوں سے بتا تشبیہ دوں کیونکر
نہ ہے لالہ میں رنگ ایسا نہ ہے سنبل میں بو ایسی
اس شعر کو بھی نیچرل کہا جائے کیونکہ عاشق کوئی فی الواقع کوئی رنگ اور کوئی بو معشوق کے رنگ و بو سے بہتر یا اس کے برابر نہیں معلوم ہوتی یا مثلاً:
مومن#
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یہ بھی نیچرل سمجھا جائے گا کیونکہ جس سے تعلق خاطر بڑھ جاتا ہے اس کا تصور تنہائی میں ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے یا مثلاً:
داغ#
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی
رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی
ان دونوں شعروں کا مضمون گو ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتا ہے مگر دونوں اپنی اپنی جگہ نیچر کے مطابق ہیں۔
فی الواقع ہو اوہوس کا بھوت بڑے زور شور کے ساتھ سر پر چڑھتا ہے مگر بہت جلد اتر جاتا ہے اور فی الواقع دنیا کی خواہشوں سے کبھی نیت سیر نہیں ہوتی یا مثلاً:
غالب
رنج سے خوگو ہوا‘ انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
یہ شعر بھی نیچرل ہے اور فطرت انسانی کی کسی قدر گہری اور پوشیدہ خاصیت کا پتہ دیتا ہے جس کے بیان کرنے کے بعد کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
اوپر کے تمام اعشار جیسا کہ ظاہر ہے ایسے ہیں جن کو لفظاً اور معناً دونوں حیثیتوں سے نیچرل کہنا چاہئے اب ہم چند مثالیں ایسی دیتے ہیں جن کو لفظاً یا معناً دونوں حیثیتوں سے نیچرل نہیں کہا جا سکتا مثلاً:
ناسخ#
کبھی ہے دھیان عارض کا کبھی یاد مثر دل کو
کبھی ہیں خار پہلو میں کبھی گلزار پہلو میں
اس شعر کو صرف لفظاً نیچرل کہا جا سکتا ہے لیکن معنی نہیں کہا جا سکتا۔
معشوق کے تصور سے بلاشبہ عاشق کو فرحت بھی ہو سکتی ہے اور رنج بھی لیکن جب فرحت ہو ، تو عارض اور مثرگاں دونوں کے تصور سے فرحت ہونی چاہئے یہ نہیں ہو سکتا کہ پلکیں جو خار سے مشابہ ہیں۔ ان کے تصور سے پہلو میں خار ہوں اور عارض جو گل سے مشابہ ہے اس کے تصور سے پہلو میں گلزار ہو یا مثلاً:
غالب
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
جوہر اندیشہ میں کیسی ہی گرمی ہو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اس میں صحرا نور دی کا خیال آنے سے خود صحرا جل اٹھے یامثلاً:
امیر#
کیا نزاکت ہے جو توڑا شاخ گل سے کوئی پھول
آتش گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں
نزاکت کسی درجہ کی کیوں نہ ہو یہ ممکن نہیں کہ آتش گل یعنی خود گل کے چھونے سے ہاتھ میں چھالے پڑ جائیں یا مثلاً:
ذوق
دفن ہے جس جاپہ کشتہ سرد مہری کاتری
بیشتر ہوتا ہے پیدا واں شجر کافور کا
سرد مہری میں اتنی ہی ٹھنڈک ہو سکتی ہے جتنی لفظ سرد میں۔
پھر اس کے کشتہ کی خاک میں اتنا اثر ہونا کہ اس سے شجر کافور پیدا ہو۔ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں جن میں معنی کا بالکل نام و نشان نہیں۔
ہر زبان میں نیچرل شاعری ہمیشہ قدماء کے حصے میں رہی ہے۔ اگر قدماء کے اول طبقہ میں شاعری کو قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ تو انہیں کا دوسرا طبقہ اس کو سڈول بتاتا ہے اور سانچے میں ڈھال کر اس کو خوشنما اور دلربا صورت میں ظاہر کرتا ہے مگر اس کی نیچرل حالت کو اس کی خوشنمائی اور دلربائی میں بھی بدستور قائم رکھتا ہے۔
ان کے بعد متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے اگر یہ لوگ قدماء کی تقلید سے قدم باہر نہیں رکھتے اور خیالات کے اسی دائرہ میں محدود رہتے ہیں۔ جو قدیم زمانے نے ظاہر کئے تھے اور نیچر کے اس منظر سے جو قدماء کے پیش نظر تھا آنکھ اٹھا کر دوسری طرف نہیں دیکھتے تو ان کی شاعری رفتہ رفتہ نیچرل حالت سے تنزل کرتی ہے یہاں تک کہ وہ نیچر کی راہ راست سے بہت دور جا پڑتے ہیں اس کی مثال ایسی سمجھنی چاہئے کہ ایک باورچی نے ایسے مقام پر جہاں لوگ سالم کچے اور الو نے ماش یا مونگ پانی میں بھیگے ہوئے کھاتے تھے انہیں پانی میں ابال کر اور نمک ڈال کر لوگوں کو کھلایا۔
 انہوں نے اپنی معمولی غذا سے اس کو بہت غنیمت سمجھا۔ دوسرے باورچی نے ماش یا مونگ دلوا کر اور دال کو دھو کر اور مناسب مصالح اور گھی ڈال کر کھانا تیار کر لیا۔ اب تیسرے باورچی کو اگر وہ دال ہی پکانے میں اپنی استادی ظاہر کرنا چاہتا ہے اس کے سوا اور کوئی موقع تنوع پیدا کرنے کا باقی نہیں رہا کہ وہ مقدار مناسب سے زیادہ مرچیں اور کھٹائی اور گھی ڈال کر لوگوں کو اپنی چٹ پٹی ہانڈی پر فریفتہ کرے۔
اسی مطلب کو ہم دوسری طرح پر دلنشین کرنے میں کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ فارسی زبان میں جس پر اردو شاعری کی بنیاد رکھی گئی ہے جنہوں نے اول غزل لکھی ہو گی۔ ضرور ہے کہ انہوں نے عشق و محبت کے اسباب اور دواعی محض نیچرل اور سیدھے سادے طور پر معشوق کی صورت حسن و جمال اور نگاہ اور ناز و انداز وغیرہ کو قرار دیا ہوگا۔ ان کے بعد لوگوں نے انہیں باتوں کو مجاز اور استعارہ کے پیرایہ میں بیان کیا۔ مثلاً نگاہ و ابرو یا غمزہ ناز و ادا کو مجازاً تیغ و شمشیر کے ساتھ تعبیر کیا اور اس جدت و تازگی سے وہ مضمون زیادہ لطیف و بامزہ ہو گیا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali