Episode 19 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 19 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

 متاخرین جب اسی مضمون پر پل پڑے اور ان کو قدماء کے استعارہ کے بہتر اور کوئی استعارہ ہاتھ نہ آیا اور جدت پیدا کرنے کا خیال دامن گیر ہوا۔ انہوں نے تیغ و شمشیر کے مجازی معنوں سے قطع نظر کی اور اس سے سرد ہی یا اصیل تلوار مراد لینے لگے جو قبضہ باڑ ، پیلا ، آب اور باب اور ڈاب سب کچھ رکھتی ہے ، میان میں رہتی ہے گلے میں حمائل کی جاتی ہے ، زخمی کرتی ہے ، ٹکڑے آراتی ہے ، سر اتارتی ہے ، خون بہاتی ہے ، چورنگ کاٹتی ہے ، اس کی دھار تیز بھی ہو سکتی ہے اور کند بھی قاتل کا ہاتھ اس کے مارنے سے تھک سکتا ہے وہ قاتل کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر سکتی ہے۔
اس کے مقتول کا مقدمہ عدالت میں دائر ہو سکتا ہے اس کا قصاص لیا جا سکتا ہے اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جا سکتا ہے۔ غرضیکہ جو خواص ایک لوہے کی اصلی تلوار میں ہو سکتے ہیں وہ سب اس کیلئے ثابت کرنے لگے۔

(جاری ہے)


یا مثلاً اگلوں نے کسی پر عاشق ہو جانے کے مجازاً دل دادن یا دل باختن سے تعبیر کیا تھا،رفتہ رفتہ متاخرین نے دل کو ایسی چیز قرار دے لیا جو کہ مثل ایک جواہر یا پھل کے ہاتھ سے چھینا جا سکتا ہے۔
واپس لیا جا سکتا ہے ، کھویا اور پایا جا سکتا ہے کبھی اس کی قیمت پر تکرار ہوتی ہے۔ سودا بنتا ہے تو دیا جاتا ہے ورنہ نہیں دیا جاتا کبھی اس کو معشوق عاشق سے لے کر کسی طاق میں ڈال کر بھول جاتا ہے۔ اتفاقاً وہ عشاق کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ آنکھ بچا کر وہاں سے اڑا لاتا ہے۔ پھر معشوق کے ہاں اس کی ڈھنڈیا پڑتی ہے اور عاشق اس کی رسید نہیں دیتا کبھی وہ یاروں کے جلسہ میں آنکھوں ہی آنکھوں میں غائب ہو جاتا ہے۔
 
سارا گھر چھان مارتے ہیں کہیں پتہ نہیں لگتا۔ اتفاقاً معشوق جو بالوں میں کنگھی کرتا ہے تو وہ جوں کی طرح جھڑ پڑتا ہے کبھی وہ ایسا تلپٹ ہو جاتا ہے کہ زلف یار کی ایک ایک شکن اور ایک ایک لٹ میں اس کی تلاش کی جاتی ہے مگر کہیں کچھ سراغ نہیں ملتا ، کبھی وہ بیع بالخیار کے قاعدے سے یار کے ہاتھ اس شرط پر فروخت کیا جاتا ہے کہ پسند آئے تو رکھنا ورنہ پھیر دینا اور کبھی اس کا نیلام بول دیا جاتا ہے جو زیادہ دام لگائے وہی لے جائے۔
یا مثلاً اگلوں نے معشوق کو اس لئے کہ وہ گویا لوگوں کے دل شکار کرتا ہے مجازاً صیاد باندھا تھا۔ پچھلوں نے رفتہ رفتہ اس پر تمام احکام حقیقی صیاد کے مترتب کر دیئے۔ اب وہ کہیں جال لگا کر چڑیاں پکڑتا ہے۔ کہیں ان کو تیر مار گراتا ہے کہیں ان کو زندہ پنجرے میں بند کرتا ہے کہیں ان کے پر نوچتا ہے کہیں ان کو ذبح کرکے زمین پر تڑپاتا ہے۔
 جب کبھی وہ تیر کمان لگا کر جنگل کی طرف جا نکلتا ہے۔
تمام جنگل کے پنچھی اور پکھیرو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ سینکڑوں پرندوں کے کباب لگا کر کھا گیا۔ بیسیوں پنجرے قمریوں اور کبوتروں اور بٹیروں کے اس کے دروازے پر ٹنگے رہتے ہیں ، سارے چڑی مار اس کے آگے کان پکڑتے ہیں یا مثلاً اگلوں نے عشق الٰہی یا محبت روحانی کو جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ ہو سکتی ہے مجازاً شراب کے نشہ سے تعبیر کیا تھا اور اس مناسبت سے جام و صراحی ، خم و پیمانہ اور ساقی دمے فروش وغیرہ کے الفاظ بطور استعارہ کے استعمال کئے تھے یا بعض شعرائے متصوفین نے شراب کو اس وجہ سے کہ وہ اس دار الغرور کے تعلقات سے تھوڑی دیر کو فارغ البال کرنے والی ہے بطور تفاول کے موصل الی المطلوب قرار دیا تھا۔
 رفتہ رفتہ شراب اور اس کے تمام لوازمات اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہونے لگے یہاں تک کہ مشاعرہ بلا مبالغہ کلال کی دکان بن گیا ایک کہتا ہے لا ، دوسرا کہتا اور لا ، تیسرا کہتا ہے پیالہ نہیں تو اوک ہی سے پلا۔ کچھ بہک رہے ہیں اور کچھ بنکار رہے ہیں ، کوئی واعظ پر پھبتی کہتا ہے ، کوئی واعظ کی داڑھی پر ہاتھ لپکاتا ہے ، کوئی شیخ کی پگڑی اچھالتا ہے۔
جوان اور بوڑھے ، جاہل اور عالم ، رند اور پارسا سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، جو ہے سو نشہ کے خمار میں انگڑائیاں لے رہا ہے جدھر دیکھو العطش ، العطش کی پکار ہے۔
یا مثلاً قدماء نے لاعری بدن کو اندوہ عشق یا صدمہ جدائی کا ایک لازمی نتیجہ سمجھ کر اس کو کسی موثر طریقہ سے بیان کیا تھا۔ متاخرین نے رفتہ رفتہ اس کی نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ فراش جھاڑو دیتا ہے تو خس و خاشاک کے ساتھ عاشق زار کو سمیٹ لے جاتا ہے۔
معشوق جب صبح کو اٹھتا ہے تو عاشق کو لاغری کے سبب بستر پر نہیں پاتا۔ لاچار بچھونا جھاڑ کر دیکھتا ہے تاکہ زمین پر کچھ گرتا ہوا معلوم ہو۔ عاشق کو موت ڈھونڈتی پھرتی ہے مگر لاغری کے سبب وہ اس کو کہیں نظر نہیں آتا میدان قیامت میں فرشتے چاروں طرف ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور قاضی یوم الحساب منتظر بیٹھا ہے مگر عاشق کا لاغری کے سبب کہیں پتہ نہیں ملتا۔
اس طرح متاخرین نے ہر مضمون کو جو قدماء نیچرل پر باندھ گئے تھے۔ نیچر کی سرحد سے ایک دوسرے عالم میں پہنچا دیا۔ معشوق کے دہانہ کو تنگ کرتے کرتے صفحہ روزگار سے یک قلم مٹا دیا۔ کمر کو پتلی کرتے کرتے بالکل معدوم کر دیا ، زلف کو دراز کرتے کرتے عمر خضر سے بھی بڑھا دیا ، رشک کو بڑھاتے بڑھاتے خدا سے بھی بدگماں بن گئے ، جدائی کی رات کو طول دیتے دیتے ابد سے جا بھڑایا۔
الغرض جب پچھلے انہیں مضامین کو جو اگلے باندھ گئے ہیں۔ اوڑھنا اور بچھونا بنا لیتے ہیں تو ان کو مجبوراً نیچرل شاعری سے دست بردار ہونا اور میل کا بیل بناناپڑتا ہے۔
اس بات کو زیادہ ذہن نشین کرنے کیلئے (کہ شاعری کا آغاز کس حالت میں ہوتا ہے اور پھر قدماء کا دوسرا طبقہ اس کو کس طرح نیچرل حالت میں درست کرتا ہے اور ان کے بعد متاخرین اس کو کیا چیز بنا دیتے ہیں) اردو شعراء کے ہر ہر طبقہ کے کلام میں سے کچھ کچھ مثالیں نقل کرنی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔
پہلی مثال:
شاہ آبرو جو اردو شعراء کے سب سے پہلے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں وہ اس کیفیت کو جو معشوق کے دیکھنے سے عاشق کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس طرح بیان کرتے ہیں:
نین سیں نین جب ملائے گیا
دل کے اندر مرے سمائے گیا
نگہ گرم سیں مرے دل میں
خوش نین آگ سی لگائے گیا
مرزا رفیع سودا# جن کو دوسرے طبقہ میں شمار کرنا چاہئے وہ اسی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
سودا# جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
میر تقی# جو مرزا رفیع کے معاصر ہیں وہ اسی کیفیت کو یوں ادا کرتے ہیں:
نہیں ہے چاہ بھلی اتنی بھی دعا کر میر#
کہ اب جو دیکھوں اسے میں بہت نہ پیار آوے
خواجہ حیدر علی آتش جن کو چوتھے یا پانچویں طبقہ میں سمجھا گیا ہے وہ اسی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
تختہ برد عشق دل کھیلا جو حسن یار سے
چھٹ گئے ایسے مرے چھکے کہ ششدر ہو گیا
دوسری مثال:
شاہ آبرو اس طول مدت کو جو مفارقت کے زمانے میں عاشق کو محسوس ہوتی ہے اس طرح بیان کرتے ہیں:
جدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہئے
کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا
اسی مضمون کو میر# نے یوں ادا کیا ہے:
ہر آن ہم کو تجھ بن اک اک برس ہوئی ہے
کیا آ گیا زمانہ اے یار رفتہ رفتہ
ناسخ# جو پانچویں طبقہ میں ہیں وہ اس مضمون کو یوں باندھتے ہیں:
جائے کافور سحر چاہئے کافور حنوط
یہ شب ہجر ہے یارو شب دیجور نہیں
یعنی شب ہجر جب تک ہماری جان نہ لے گی ٹلنے والی نہیں ہے پس کافور کی سحر کی توقع رکھنی عبث ہے بلکہ اس کی جگہ کافور حنوط غسل میت کیلئے درکار ہے۔
اگرچہ مضمون کے لحاظ سے تینوں شعروں کو نیچرل کہا جا سکتا ہے کیونکہ شوق و انتظار کی حالت میں ممکن ہے کہ عاشق کو ایک ایک گھڑی جگ اور ایک ایک آن برس کے برابر معلوم ہو اور ممکن ہے کہ عاشق طول شب فراق سے تنگ آ کر جینے سے مایوس ہو جائے مگر ناسخ کی طرز بیان اردو کی معمولی بول چال سے اس قدر بعید ہے کہ اس کو کسی طرح نیچرل بیان نہیں کہا جا سکتا۔
تیسری مثال:
شاہ حاتم# جو پہلے طبقہ میں شمار کئے گئے ہیں وہ دوست کے ملنے کی آرزو اور اس کے دیکھنے کے شوق کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
زندگی درد سر ہوئی حاتم#
کب ملے گا مجھے پیا میرا
اسی مضمون کو میر نے یوں باندھا ہے:
وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
سودا# یوں کہتے ہیں:
دل کو یہ آرزو ہے صبا کوئے یار میں
ہمراہ تیرے پہنچے مل کر غبار میں
منشی امیر احمد صاحب میر# جو موجودہ طبقہ کے مشہور شاعر ہیں وہ اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں:
واکردہ چشم دل صفت نقش پا ہوں میں
ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں
اس مثال میں بھی تینوں شعروں کو اگرچہ خیال کے لحاظ سے نیچرل کہا جا سکتا ہے مگر اخیر شعر کے بیان میں بمقابلہ حاتم# اور میرو مرزا# کے صاف تصنع اور ساختگی پائی جاتی ہے اور بیان نیچرل نہیں رہا۔
اگر زیادہ تفحص کیا جائے تو ان سے بہت زیادہ صریح اور صاف مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں۔
اوپر کے بیان سے یہ ہرگز سمجھنا نہیں چاہئے کہ متاخرین کی شاعری ہمیشہ ان نیچرل ہوتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ متاخرین میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جو قدماء کی جولاں گاہ کے علاوہ ایک دوسرے میدان میں طبع آزمائی کریں یا اسی جولاں گاہ کو کسی قدر وسعت دیں یا زبان میں بہ نسبت مقتدمین کے زیادہ گھلاوٹ ، لوچ اور وسعت اور صفائی پیدا کر سکیں ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لکھنوٴ میں میر انیس# نے مرثیہ کو بے انتہا ترقی دی ہے۔
نواب مرزا شوق نے مثنوی کو زبان اور بیان کے لحاظ سے بہت صاف کیا ہے۔ اسی طرح دلی میں ذوق# ، ظفرَ اور خاص کر داغ# نے غزل کی زبان میں نہایت وسعت اور صفائی اور بانکپن پیدا کر دیا ہے جیسا کہ ہم آگے چل کر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali