Episode 21 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 21 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ عرب میں جب شعرو انشاء کی سرد بازاری ہوئی اور عربی نظم و نثر کے مالک غیر ملکوں کے باشندے ہو گئے۔ تو رفتہ رفتہ وہ کلاسیکل عربی جس پر عربوں کو ناز تھا ، لٹریری دنیا سے رخصت ہو گئی اور وہی غیر معیاری زبان جس کو عرب عرباء حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ، تمام عربی لٹریچر پر چھا گئی اور شام و روم و مصر و بربرو سوڈان وغیرہ میں عموماً پھیل گئی۔
یہاں تک کہ آج وہی زبان ٹکسالی اور فصیح عربی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا ہی انجام دلی اور لکھنوٴ کی زبان کا اگر اس کی جلد خبر نہ لی گئی ، ہوتا نظر آتا ہے۔ دلی جس کو اردوئے معلی کا مسقط الراس اور جنم بھوم کہنا چاہئے۔ وہاں مصنف اور ناظم و ناشر پیدا ہونے موقوف ہو گئے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے چند نفوس جن کو چراغ سحری سمجھنا چاہئے باقی رہ گئے ہیں ان کے بعد بالکل سناٹا نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

لکھنوٴ کا حال اگرچہ بظاہر ایسا نہیں معلوم ہوتا وہاں شاعری کا چرچا دلی سے بہت زیادہ سننے میں آتا ہے وہاں سے ناول اور ڈرامہ برابر ملک میں شائع ہوتے رہتے ہیں مگر افسوس ہے کہ ان کا قدم زمانہ کی رفتار کے متوازی نہیں اٹھتا۔ وہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے ہیں اسی قدر ترقی کے رستے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
اردو پر قدرت حاصل کرنے کیلئے صرف دلی یا لکھنوٴ کی زبان کا تتبع ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ عربی اور فارسی میں کم سے کم متوسط درجہ کی لیاقت اور نیز ہندی بھاشا میں فی الجملہ دستگاہ بہم پہنچائی جائے اور اردو زبان کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے ہندی بھاشا پر رکھی گئی ہے۔
اس کے تمام افعال اور تمام حروف اور غالب حصہ اسماء کا ہندی سے ماخوذ ہے اور اردو شاعری کی بناء پر شاعری پر جو عربی شاعری سے مستفاد ہے ، قائم ہوئی ہے۔ نیز اردو زبان میں بہت بڑا حصہ اسماء کا عربی و فارسی سے ماخوذ ہے۔ پس اردو زبان کا شاعر جو ہندی بھاشا کو مطلق نہیں جانتا اور محض عربی و فارسی کے تان گاڑی چلاتا ہے وہ گویا اپنی گاڑی بغیر پہیوں کے منزل مقصود تک پہنچانی چاہتا ہے اور جو عربی و فارسی سے نابلد ہے اور صرف ہندی بھاشا یا محض مادری زبان کے بھروسے پر اس بوجھ کا متحمل ہوتا ہے وہ ایک ایسی گاڑی ٹھیلتا ہے جس میں بیل نہیں جوتے گئے۔
زبان کے متعلق ایک اور بات لحاظ کے قابل ہے۔ نیچرل شاعری کیلئے جیسا کہ ظاہر ہے ہماری موجودہ زبان کافی نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس میں وسعت پیدا کی جائے پس اہل لکھنوٴ جو زبان کے دائرہ کو روز بروز تنگ کرتے جاتے ہیں۔ یہ امر مقتضائے وقت کے بالکل خلاف ہے۔ لکھنوٴ میں ایک صاحب نے 1890ء میں ایک رسالہ شعر و سخن کے متعلق لکھا ہے اس میں کچھ اوپر پچاس لفظ ایسے لکھے ہیں جن کو خود صاحب رسالہ اور اہل لکھنوٴ واجب الترک خیال کرتے ہیں۔
بعضے ان میں سے خاص لکھنوٴ کے ساتھ مختص ہیں۔ اہل دلی کبھی اس طرح نہیں بولتے جیسے اندھیارا اندھیرے کی جگہ ، اجیالا اجالے کی جگہ ،کیونکر سے کیونکہ کی جگہ۔ ایسے الفاظ کا ترک کرنا ہم بھی نہایت مناسب سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس سے لکھنوٴ اور دلی کی زبان میں مطابقت پیدا ہوتی ہے۔ ایسے الفاظ ترک کرنے سے زبان کی وسعت میں بھی کچھ فرق نہیں آتا۔
اسی رسالہ میں بعضے ایسے الفاظ کو واجب الترک قرار دیا گیا ہے جو اصل زبان کی گریمر یا قیاس لغوی کے خلاف برتے اور بولے جاتے ہیں جیسے موسم بفتح ، سین یامیت بفتح یا ، یانشابر وزن وفا کہ عربی گریمر یا لغت کے موافق موسم بروزن مسجد اور میت بکسرہ یا اور نشاة بروزن وحدت ہے لیکن فی الحقیقت یہ ایک غلطی ہے جو اکثر ہمارے عربی دانوں کو علم لسان کی ناواقفیت سے پیش آتی ہے۔
ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ایک زبان کے الفاظ دوسری زبان میں منتقل ہو کر کبھی اصلی صورت میں قائم نہیں رہ سکتے۔ الاماشاء اللہ دور کیوں جاؤ ہماری اردو ہی میں ہزاروں لفظ سنسکرت پراکرت اور بھاشا کے داخل ہیں۔ باوجود اس کے شاذو نادر ہی ایسے الفاظ نکلیں گے جو اپنی صورت پر قائم ہوں۔ مثلاً گھر ، گھڑا ، اجلا ، آدھا ، اندھیرا ، آسرا ، آنکھ ، آگے،انگلی ، یہ تمام الفاظ سنسکرت کے مفصلہ ذیل الفاظ سے بگڑے ہوئے ہیں۔
یعنی گرھ ، گھٹ ، اجل ، اردھ ، اندھکار ، آشرے ، اکھی ، اگز ، گرد ، اسی طرح پراکرت اور بھاشا کے صدہا لفظ اپنی اصل کے خلاف ہماری زبان پر مستعمل ہیں۔ مگر چونکہ ان کی اصلیت سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے ان کو صحیح سمجھ کر بے تکلف بولتے اور برتتے ہیں۔ لیکن عربی یا فارسی جس سے کہ ان کو فی الجملہ واقفیت ہے ، جہاں اس کا کوئی لفظ اصل زبان کے خلاف کسی کی اردو نظم یا نثر میں دیکھا فوراً ناک چڑھائی۔
حالانکہ خود عربی کے بہت سے الفاظ اصل وضع کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً غشی بجائے غش مسلمان بجائے مسلم ، محافہ بجائے محفہ۔ غلطی بجائے غلط۔ زیادتی بجائے زیادت۔ سلامتی بجائے سلامت ، ہدیہ بجائے ہدیہ۔ مغیلاں بجائے ام غیلاں۔ محابا اور مدارا وغیرہ بجائے محابات و مدارات وغیرہ کے۔ علیٰ ہذا القیاس فارسی کے الفاظ بھی اکثر اردو میں غلط بولے جاتے ہیں۔
اہل ایران عربی کے صد ہا لفظ غلط تلفظ کے ساتھ یا غلط معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً صم و بکم بجائے اصم و ابکم حور بجائے حوراء۔ ابدال بجائے بدیل۔ فضولی بجائے فضول۔ حضوری بجائے حضور۔ قرآن بجائے قرآن مشاطہ بجائے مشاطہ۔ مواسا و مفاجا وغیرہ و بجائے مواسات و مفاجات وغیرہ انگریزی میں تمام دنیا کی زبانوں سے الفاظ لئے گئے ہیں۔ مگر کسی لفظ کو اس کی اصلی صورت پر قائم نہیں رکھا۔
مثلاً خلیفہ ، ترجمان ، مخزن ، نواب ، تعریف ، قطن ، امیر البحر ، عثمان ، فردوس ، منارہ ، سپاہی ، شغال ، کارواں ، شکر ، قرمزی کی جگہ جو کہ عربی و فارسی زبان کے الفاظ ہیں۔ کیلف ، ڈریگومین ، میگزین ، نیبادب ، ٹیرٹ ، کاٹن ، ایڈمرل ، اوٹومن ، پیرے ڈائز ، منرٹ ، سپیوے ، جیکول ، کیرون ، شکر ، کرمسن بولتے اور استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح جہاں تک استقرا کیا جاتا ہے کسی زبان کے الفاظ دوسری زبان میں جا کر اپنی اصلی وضع پر قائم نہیں رہتے پس جبکہ موسم یا میت یا نشا وغیرہ الفاظ ہمارے خاص عام سب کی زبان پر جاری ہیں تو اردو نظم ونثر میں ان کو کیوں نہ استعمال کیا جائے۔
بات یہ ہے کہ ایسے لفظوں کو جو عربی یا فارسی یا انگریزی سے اردو میں لئے گئے ہیں اور اصل وضع کے خلاف عموماً مستعمل ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہی غلطی ہے کہ وہ موجودہ صورت میں عربی یا فارسی یا انگریزی کے الفاظ ہیں نہیں بلکہ ان کو اردو کے الفاظ سمجھنا چاہئے جو اصل کے لحاظ سے عربی یا فارسی یا انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ ایسے لفظوں کو غلط سمجھ کر ترک کرنا ان کو اصل کے موافق استعمال کرنے پر مجبور کرنا بعینہ ایسی بات ہے کہ لالٹین کے بولنے سے لوگوں کو منع کیا جائے اور لین ٹرن بولنے پر مجبور کیا جائے یا گھڑا بولنے سے روکا جائے اور گھٹ بولنے کی تاکید کی جائے۔
عام غلطی اور عوام کی غلطی میں بہت بڑا فرق ہے جو غلط الفاظ خاص و عام دونوں کی زبان پر جاری ہو جائیں وہ عام غلطی میں داخل ہیں ، ایسے الفاظ کا بولنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ صحیح بولنے سے بہتر ہے۔ ہاں جو غلط الفاظ صرف عوام اور جہلاء کی زبان پر جاری ہوں نہ کہ خواص اور پڑھے لکھوں کی زبان پر البتہ ایسے الفاظ کو ترک کرنا اور واجب ہے۔ جیسے مزاج کو مجاز کہنا ، منکر کو نامنکر ، خالص کو نخالص ، ناحق کو بے ناحق ، دروازہ کو دروزہ ، نسخہ کو نخسہ وغیرہ۔
ان کے سوا بہت سے ایسے الفاظ واجب الترک بتائے ہیں جو شعرائے متقدمین نے عموماً استعمال کئے ہیں اور دہلی کے بعض شعراء اب بھی استعمال کرتے ہیں اور اگر روزمرہ کی بول چال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آج تک دلی کے خواص و عام برابر بولتے رہے ہیں۔ جیسے تئیں ، کبھو ، کسو ، آن کے ، آخرش پہنانا ، (پہنانے کی جگہ) بتلانا ، دکھلانا وغیرہ۔ سدا (بہ معنی ہمیشہ) تلک سمیت ، مت بجائے خرف نفی ، بن (بہ معنی بے یا بغیر) پہ (پر کی جگہ) کیجئے دیجئے ، لیجئے ، بجائے کیجیدیجے ، لیجے۔
مرا ، ترا ، میرا اور تیرا کی جگہ ، پر بہ معنی مگر اک بجائے ایک زور بہ معنی عجیب یا نہایت۔
یہ الفاظ شاید لکھنوٴ میں ترک ہو گئے ہوں یا ہو جائیں لیکن دہلی اور مضافات میں وہ کم و بیش برابر بولے جاتے ہیں اور زمانہ کا اقتضا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ بولے جائیں گے اور بولے نہ جائیں گے تو تحریروں میں ضرور مستعمل رہیں گے۔ شاید نثر میں بعض الفاظ کی ضرورت نہ پڑے۔
لیکن شعر میں ان کی ضرورت ہمیشہ رہے گی (اگرچہ اس میں کلام ہے کہ شعر کی بھی ضرورت رہے گی یا نہیں)۔
جو صاحب ایسے الفاظ ترک کرنے کی عام ہدایت کرتے ہیں ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو آپ توملتان میں مقیم ہیں اور کشمیر جانے والوں کو اجازت نہیں دیتے کی جڑ اول کا بوجھ اپنے ساتھ باندھ کر لے جائیں۔
اس مضمون کے متعلق زیادہ بحث کرنی فضول معلوم ہوتی ہے کیونکہ جس ضرورت کے لحاظ سے ہم زبان کے دائرہ کو تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
اگر فی الواقع وہ ضرورت پیش آنے والی ہے تو یہ قیدیں خود بخود اٹھتی چلی جائیں گی اور لوگوں کو بجائے اس کے کہ اپنی زبان کو تنگ اور محدود کر دیں مجبوراً دوسری زبانوں سے دریوزہ گری کرنی پڑے گی اور اگر اردو لٹریچر کی ترقی کا خیال ایسا ہی دور ازکار خیال ہے جیسا مسلمانوں کی علمی ، تمدنی اور اخلاقی ترقیات کا تو یہ بحث پیش ازوقت نہیں بلکہ ناوقت ہو گی۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali