Episode 27 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 27 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

وہ یہ شعر سن کر پھڑک گئے اور کہا کہ ہاں بس میرا یہی مطلب تھا۔ ان مثالوں سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ قدماء کے کلام میں بعض اوقات کوئی کمی رہ جاتی ہے جس کو پچھلے پورا کر دیتے ہیں۔ کبھی قدماء ایک مضمون کو کسی خاص اسلوب میں محدود سمجھ لیتے ہیں۔ متاخرین اس کیلئے ایک نرالا اسلوب پیدا کر دیتے ہیں اور کبھی متاخرین قدماء کے اسلوب میں سے ایک خوبی کم کرکے ایک دوسری خوبی بڑھا دیتے ہیں اور اس سے شاعر کو بے انتہا ترقی ہوتی ہے۔
پس یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محدود فکر اور تخیل پر بھروسہ کرکے قدماء کی خوشہ چینی سے دست بردار ہو جائے۔
شفائی صفاہانی یا متاخرین شعرائے ایران میں سے کوئی اور شخص غزل میں کہتا ہے:
مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن دوست
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید
قائل کا مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پسند کیلئے معشوق کے معمولی بناؤ سنگار کافی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

پس مشاطہ کو چاہئے کہ ان میں کچھ اور اضافہ کرے کیونکہ اب اس کے دیکھنے کی نوبت ہم تک پہنچی ہے۔ شاعر نے مضمون میں جدت تو پیدا کی مگر بے ڈھنگی اول تو اس نے جس کو دوست قرار دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس کی محبت کا نقش اس کے دل میں نہیں بیٹھا۔ پھر اس کو دوست کہنا کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معشوق کے حسن ذاتی سے کچھ دل بستگی نہیں رکھتا۔
بلکہ عارضی بناؤ سنگار پر فریفتہ ہے تیسرا عشق جو ہمیشہ بے قصد و بے ارادہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کو قصد اور ارادہ سے پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مرزا غالب مدح میں کہتے ہیں:
زمانہ عہد میں ہے اس کے محو آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کیلئے
ظاہراً یہ خیال اسی فارسی شعر سے قصداً یا بلا قصداً پیدا ہوا ہے۔ مگر مرزا نے اس مضمون کو اصل خیال کے باندھنے والے سے بالکل چھین لیا ہے جو خلل تغزل کی حالت میں اس میں موجود تھے۔
وہ مدح کی حالت میں بالکل نہیں رہے۔ مرزا نے ممدوح کو ایک ایسے کمال کے ساتھ موصوف کیا ہے جو تمام کمالات کی جڑ ہے یعنی وہ ہر چیز کو کال تر اور افضل تر حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے ہر شے اپنے تئیں کامل تر حالت میں اس کو دکھانا چاہتی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر یہی حال ہے تو شاید آسمان کی زیب و زینت کیلئے اور ستارے پیدا کئے جائیں۔
اس پر سوا اس کے کہ کوئی منطقی اعتراض کیا جائے اور کسی طرح گرفت نہیں ہو سکتی۔ بخلاف فارسی شعر کے کہ اس کی بنا خود اصول شاعری اور آداب عشق و محبت کے برخلاف ہے۔ عرفی شیرازی کہتا ہے:
ہر کس نہ شناسندہ راز است وگرنہ
اینہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام است
غالب مرحوم نے اسی مضمون کو دوسرے لباس میں اس طرح جلوہ گر کیا ہے:
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
اگرچہ گمان غالب یہ ہے کہ عرفی کی رہبری اس خیال کی طرف قرآن مجید کی اس آیت سے ہوئی ہو گی ”وان من شئمی الایسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیعھم۔
“ لیکن ہر حالت میں عرفی کا یہ شعر آب زر سے لکھنے کے قابل ہے اور جس اسلوب میں کہ یہ خیال اس سے ادا ہو گیا ہے۔ اب اس سے بہتر اسلوب ہاتھ آنا دشوار ہے۔ بایں ہمہ مرزا کی جدت اور تلاش بھی کچھ کم تحسین کے قابل نہیں ہے کہ جس مضمون میں مطلق اضافہ کی گنجائش نہ تھی اس میں ایسا لطیف اضافہ کیا ہے جو باوجود الفاظ کی دلفریبی کے لطف معنی سے بھی خالی نہیں ہے۔
عرفی کا یہ مطلب ہے کہ باتیں عوام کو معلوم ہیں یہی درحقیقت اسرار ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ جو چیزیں مانع کشف راز معلوم ہوتی ہیں یہی درحقیقت کاشف راز ہیں۔
بہرحال اس قسم کے اقتباسات ہمیشہ متاخرین قدماء کے کلام سے کرتے رہے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتا رہا ہے۔ شعرائے عرب جب کوئی اچھوتا مضمون باندھتے تھے اور لوگ متعجب ہو کر ان سے پوچھتے تھے کہ کس تقریب سے یہاں تک ذہن پہنچا؟ تو وہ صاف صاف اپنے اپنے خیال کا ماخذ بتا دیتے تھے۔
ابو نواس نے فضل بن ربیع کی شان میں یہ شعر کہا تھا:
ولیس للہ بمستنکر
ان یمح العالم فی واحدہ
(یعنی خدا سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ تمام عالم کو ایک شخص کی ذات میں جمع کر دے ) اس پر کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ مضمون کیوں کر سوجھا؟ ابونواس نے صاف کہہ دیا کہ یہ خیال جریر کے اس شعر سے پیدا ہوا جو اس نے بنی تمیم کی تعریف میں کہا ہے:
اذا غضبت علیک بنو تمیم
حسبت الناس کلھم عصاباً
(یعنی جب بنی تمیم تجھ سے ناراض ہو جائیں تو سمجھنا چاہئے کہ تمام بنی آدم تجھ سے ناراض ہیں)
شعر ہی پر کچھ موقوف نہیں بلکہ تمام علوم و فنون میں انسان نے اسی طرح ترقی کی ہے کہ اگلے جو ادھورے نمونے چھوڑتے گئے پچھلے ان میں کچھ تصرف کرتے رہے یہاں تک کہ ہر ایک علم اور ہر ایک فن کمال کے درجے کو پہنچ گیا۔
شعر کی ترقی بھی اسی طرح متصور ہے کہ قدماء کے خیالات میں کچھ کچھ معقول تصرفات ہوتے رہیں۔ لیکن اس قسم کے تصرفات کرنے کیلئے شاعری کی پوری لیاقت ہونی چاہئے۔ ورنہ جیسے ایجادات ہمارے ملک کے اکثر شعرا کرتے ہیں ان سے بجائے ترقی کے روز بروز شاعری نہایت ذلیل و پست و حقیر ہوتی جاتی ہے۔
فارسی میں کم اور عربی میں زیادہ اور انگریزی میں بہت زیادہ نہ صرف نظم میں بلکہ نثر میں نظم میں بھی زیادہ ہر قسم کے بلند  لطیف اور پاکیزہ خیالات کا ذخیرہ موجود ہے۔
پس ہمارے ہم وطنوں میں جو لوگ ایسے دماغ رکھتے ہیں کہ غیر زبانوں سے نئے خیالات اخذ کرکے ان میں عمدہ تصرفات کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے مبلغ فکر کے موافق تصرف کرکے اور جن کی قوت متخیلہ ان سے کم درجہ کی ہے وہ انہیں خیالات کو بعید اپنی زبان میں صفائی اور سادگی کے ساتھ ترجمہ کرکے اردو شاعری کو سرمایہ دار بنائیں۔
 سنسکرت اور بھاشا میں خیالات کا ایک دوسرا عالم ہے اور اردو زبان بہ نسبت اور زبانوں کے سنسکرت اور بھاشا کے خیالات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اس لئے ان زبانوں سے بھی خیالات اخذ کرنے میں کمی نہ کریں اور جہاں تک کہ اپنی زبان میں ان کے ادا کرنے کی طاقت ہو ان کو شعر کے لباس میں ظاہر کریں اور اس طرح اردو شاعری میں ترقی کی روح پھونکیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے شعراء نے جو کہیں کہیں فارسی اشعار کا ترجمہ اردو اشعار میں کر دیا ہے ان پر لوگوں نے اعتراض کئے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ کوئی اعتراض کا محل نہیں ہے۔ ایک زبان کے شعر کا عمدہ ترجمہ دوسری زبان کے شعر میں کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے ، ایک بزرگوار نے سارا سکندر نامہ بحری اردو میں ترجمہ کر ڈالا ہے۔
اور ہم نے سنا ہے کہ وہ شاعر بھی تھے اور مولوی بھی۔
ان کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
کرے میوہ زیبا جو ہر شاخ کو
کدیور فرامش کرے خاک کو
ہوا جب کہ آراستہ باغ خوش
ہر میوہ شیریں وہم ترش
بہ شادی لب پستہ خنداں ہوا
رطب اس پر بھی تیز دنداں ہوا
ہوا چہرہٴ راز افروختہ
کہ ہوں تاج بر لعل جوں دوختہ
اٹھایا لب خم نے جوش نفیر
ہم از بوئے شیرہ ہم از بوئے شیر
شاید اس مترجم کی نسبت تو یہ کہا جا سکے کہ وہ مشاق شاعر نہ تھا اس لئے عمدہ ترجمہ نہ کر سکا۔
لیکن ہم مشاق شاعروں سے کہتے ہیں کہ ازراہ عنایت زیادہ نہیں تو انہیں چھ شعروں کو فصیح اردو نظم میں تو ذرا لکھ دیں جو شخص دوسری زبان کے شعر کو اپنی زبان کے شعر میں عمدگی کے ساتھ ترجمہ کرتا ہے گو اس سے اس کی قوت متخیلہ کا کمال ثابت نہیں ہوتا مگر وہ ایک دوسری لیاقت کا ثبوت دیتا ہے جو ہر ایک شاعر میں نہیں ہو سکتی۔
ہمارے بعض شعراء نے بعضے ایسے خیالات کو جو فارسی اشعار میں تھے اردو میں ایسی خوبی سے ادا کیا ہے کہ من وجہ اصل شعر سے بڑھ گئے ہیں۔ نظیری کا شعر ہے:
بوئے یار من ازیں سست وفامی آید
گلا از دست بگیرید کہ ازکار شدم
سودا کہتے ہیں:
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali