Episode 28 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 28 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اس میں شک نہیں کہ سودا نے اپنے شعر کی بنیاد نظیری کے مضمون پر رکھی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ تھوڑے سے تغیر کے ساتھ اس کا ترجمہ کر دیا ہے لیکن بلاغت کے لحاظ سے سودا کا شعر نظیری سے بہت بڑھ گیا ہے دوست کے یاد آنے سے بھی ممکن ہے کہ عاشق از خود رفتہ ہو جائے لیکن ساغر شراب کو دیکھ کر معشوق کی نشیلی آنکھ کے تصور سے بے خود ہو جانا زیادہ قرین قیاس ہے۔
اس کے سوا ”ازکار شدم“ میں وہ تعمیم نہیں ہے جو اس میں ہے کہ ”چلا میں“ نہیں معلوم کہ آپے سے چلایا دین و دنیا سے چلایا جگہ سے چلایا کہاں سے چلا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ”چلا میں“ ہمیشہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب آدمی مدہوش و بدحواس ہو کر گرنے کو تباہ ہوتا ہے اور ”ازکار شدم“ میں یہ بات نہیں ہے۔ معطل ہونے معزول ہونے۔

(جاری ہے)

اپاہج اور نکمے ہونے کو بھی ”ازکار شدم“ ہونے سے تعبیر کرتے ہیں:

در محفل خودراہ مدہ ہمچومنے را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را
خواجہ میر درد
نہ کہیں عیش تمہارا بھی منغض ہو جائے
دوستو درد کو محفل میں نہ تم یاد کرو
ممکن ہے کہ خواجہ میر درد نے فارسی شعر سے یہ مضمون اخذ کیا ہو۔
لیکن یقینا ان کا شعر فارسی سے بہت بڑھ گیا ہے اور اول تو فارسی مطلع کے مضمون کو اپنے مقطع میں لانا جس میں خود درد کا لفظ ہی شاعر کے دعوے پر دلیل کا حکم رکھتا ہے پھر راہ مدہ کی جگہ یاد کرو بولنا جس کے دو معنی ہیں ایک تو یہی کہ درد کا اپنی محفل میں ذکر نہ کرو دوسرے یاد کرنے کے معنی میں اعلیٰ کا ادنیٰ کو اپنے پاس بلانا اور بڑی خوبی درد کے شعر میں یہ ہے کہ محفل میں نہ بلانے کی وجہ جو فارسی میں یقینی طور پر بیان کی گئی ہے اس کو میر درد نے احتمال کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے ”نہ کہیں عیش تمہارا بھی منغض ہو جائے“ ان دونوں اسلوبوں میں ایسا ہی فرق ہے۔
 جیسے ایک شخص کسی بیمار سے یوں کہے کہ ”بدپرہیزی سے آدمی ہلاک ہو جاتا ہے۔“ اور دوسرا یہ کہے ”دیکھو کہیں بد پرہیزی میں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔“ دوسرے اسلوب میں جیسا کہ ظاہر ہے بہ نسبت پہلے اسلوب کے زیادہ تخویف و تخدیر ہے۔
سعدی شیرازی
دوستاں منع کنندم کہ چرا دل بتو دادم
باید اول بتو گفتن کہ چنیں خوب چرائی؟
میر تقی
پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ
ان سے بھی تو پوچھئے تم اتنے کیوں پیارے ہوئے
میر کا یہ شعر ظاہراً سعدی کے شعر سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے مگر سعدی کے ہاں خوب کا لفظ ہے اور میر کے ہاں پیارے کا لفظ ہے ظاہر ہے کہ خوب کا محبوب ہونا کوئی ضروری بات نہیں ہے لیکن پیارے کا ہونا ضرور ہے۔
پس سعدی کے سوال کا جواب ہو سکتا ہے مگر میر کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا۔
بہرحال ترجمہ کرنا بشرطیکہ ترجمہ کے فرائض پورے ہو جائیں کوئی عیب کی بات نہیں ہو سکتی سعدی جو فارسی شاعری کا ہومر ہے خود اس کے کلام میں عربی اقوال و امثال کے ترجمے یا اس کے ماحصل موجود ہیں۔
سعدی
۱۔ سگ بدریائے ہفت گانہ بشوے 
چونکہ ترشد بلید تر باشد
۲۔
تراخاموشی اے خداوند ہوش
وقاراست و نا اہل راپردہ پوش
۳۔ تو بجائے پدرچہ کر دی خیر
تام چشم داری از پسرت
۴۔ شپرہ گرنور آفتاب نخواہد
رونق بازار آفتاب نکاہد
۵۔ نیک بخت آکہ خوردو کشت
بدبخت آنکہ مردوہشت
۶۔ پادشاہان بخرد منداں محتاج 
تراند کہ خرد منداں بہ پادشاہاں
اقوال عربی
۱۔الکلب انجس مایکون
اذا اضل
۲۔الصعت زینتہ اللعالم
وسر الجاھل
۳۔راع اباک
یراع ابنک
۴۔ سناء ذکاء لایزول من
دعاء الخفاش
۵۔ السعید من اکل زرع
والشقے من مات وودع
۶۔ السلطان اخوج الی اللعلاء
من العقلاء الی السلطان

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali